مغربی افکار سے متاثر لوگ


ہم سب پر ایسے ہی پرانے آرٹیکلز کھنگالتے کھنگالتے ایک کمنٹ پر نظر پڑی جس میں کسی صاحب نے کچھ یوں لکھا تھا کہ مغربی افکار کے لوگ مغرب زدہ سوچیں ہمارے معاشرے پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، کچھ طلاق وغیرہ کی بات تھی۔ معذرت چاہوں گی کہ مکمل کمنٹ ذہن سے نکل گیا مگر یہ جملہ ذہن سے چپک گیا کہ مغربی افکار سے متاثر لوگ مغرب زدہ سوچیں ہمارے معاشرے پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں تھوڑا سا خود احتسابی کا عمل ہوا مگر پہلے چند اور باتیں کہوں گی۔

میری ایک دوست ہے جو بیرون ملک مقیم ہے۔ جہیز میں مشرقی روایات کا ٹوکرا لے کر گئی تھی اس لئے آنکھوں پر پٹی باندھ کر شوہر کے ظلم سہتی ہے اور ڈگری چولہے میں جھونک کر بس گھر سنبھالتی ہے۔ میں نے اسے بارہا کہا کہ اس معاشرے کی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو، اپنی ذات کی بڑھوتری کے لئے کچھ کام کرو مگر کہتی ہے کہ نہیں ہمارا اپنا طرز معاشرت اور طرز فکر ہے، میں مشرقی روایات کی ہی امین ہوں اور گھر گھرہستی ہی میرا کام ہے، شوہر کو جو بھی رویہ ہے وہ میرا نصیب ہے۔ کل ایک دم سے غیر متوقع طور پر اس کا فون آیا تو کہنے لگی کہ میں نے آگے پڑھائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا کہ خیالات میں تبدیلی کیونکر آئی تو کہنے لگی کہ کل شوہر نے طعن و تشنیع کے ساتھ ساتھ دھکے بھی دینے شروع کر دیے، ایک دھکا مجھے ایسا لگا کہ مجھے حقیقت حال میں لے آیا۔ میں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے پیروں پر ضرور کھڑی ہوں گی اور اس ظلم کو برداشت نہیں کروں گی۔

مجھے ذاتی طور پر سڑک پار کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ مگر اس بے ہنگم ٹریفک کے ہجوم میں جان کو ہتھیلی پر رکھ کر گاڑیوں کے ہجوم میں سے نکلنے کی عادت بھی ہو گئی ہے۔ جب ہم بیرون ملک جاتے ہیں تو سب سے بڑی لگژری جو مجھے محسوس ہوتی ہے وہ سڑک پار کرنے کے لئے لگا ہوا اشارہ ہے۔ ادھر وہ ہرا ہوا ادھر ساری ٹریفک رک کر زیبرا کراسنگ والوں کو راستہ دے دیتی ہے۔ اس اشارے کو دیکھ کر اپنے ملک کی ناہمواری زیادہ کھلتی ہے، میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ میرے بس میں ہو تو ہر جگہ سڑک پار کرنے کے اشارے اور پل بنوا دوں، مگر واپس آ کر پھر اسی طرح زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ صحیح چیز کو دیکھ کر غلط چیز کا تعین کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور دور ہٹ کر کسی مسئلے کا تجزیہ کرنا سوچوں کو نیا رخ دیتا ہے۔ سب سے مشکل کام غلط چیز کے درمیان رہتے ہوئے یہ شناخت کرنا ہے کہ جو ہمارے ارد گرد ہے وہ غلط ہے۔

میں بھی نو عمری میں اسی معاشرے میں رہنے والی مشرقی رواجوں کو پلو سے باندھ کر چلنے والی لڑکی تھی مگر ہاں اب میں مغربی افکار سے بہت متاثر ہوں اور سمجھتی ہوں کہ عزت نفس اور انسانی حقوق پر ہر کسی کا یکساں حق ہے۔ میری زندگی میں بہت ہی شائستہ مرد موجود ہیں اور میں مردوں کے خلاف ہر گز بھی نہیں، مگر میں ایک مضبوط عورت کے حق میں ہوں۔ مگر میری سوچوں میں تبدیلی ایک روز میں نہیں آئی۔

میری سوچ میں یہ رنگ تب آیا جب میری ایک بہت قریبی عزیزہ صرف اس لئے ایک غلط شادی میں رہتے ہوئے زیادتی سہتے ہوئے ڈیپریشن کی گہرائیوں میں چلی گئی کیونکہ اسے مشرقی بن کر پیٹ پر کپڑا ڈھانک کر رکھنے کی تلقین کی گئی تھی اور وہ برداشت کرتے کرتے موت کی دھلیز تک جا پہنچی۔ تب مجھے ادراک ہوا کہ اپنی ذات کے لئے سٹینڈ لینا آخر لڑکیوں کو کیوں نہیں سکھایا جاتا؟
جب میری ایک طلاق یافتہ انتہائی شائستہ اور مہذب عزیزہ پہلے ارینجڈ میرج کے نتیجے میں ایک ذہنی بیمار شخص کے پلے بندھ گئی اور طلاق کے بعد لوگوں نے اس لڑکی کو کرید کرید کر ذہنی مریضہ بنا دیا۔ تب مجھے لگا کہ طلاق کے ساتھ منسلک کلنک کا ٹیکا ہٹ جانا چاہیے۔ آخر طلاق کو برا کیوں سمجھا جاتا ہے اور اس کو صرف ایک حق کے طور پر کیوں نہیں لیا جاتا؟

جب میں نے اپنی دوست کو دیکھا جو صبح گھر کے سارے کام نبٹانے کے بعد ملازمت پر جاتی ہے اور آ کر سارے کام کرتی ہے اور اس کا میاں گرہستی میں ہاتھ بٹانے کی بجائے مردانگی کے زعم میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھا رہتا ہے۔ جب اس کے جسم کے دکھتے ہوئے پور پور اور اس کی آواز کی بے بسی اور لاچاری کو میں نے محسوس کیا تو مجھے لگا کہ آخر گھر کا کام کرنا مرد کی شان کی خلاف کیوں ہے؟ آخر وہ ایک تھکی ہوئی بیوی کا ہاتھ کیوں نہیں بٹا سکتا؟

میرے گھر والے گو روشن خیال سہی مگر میری امی کی سب سے اچھی دوست اپنی بیٹیوں سے ان کے بھائی کے جوتے اس لئے اٹھواتی تھیں کہ کل کو انہیں شوہروں کے جوتے اٹھانے کی عادت پڑے۔ محبت میں چاہے انسان شوہر کے جوتے صاف بھی کرلے، میرے نزدیک اس میں کچھ برا نہیں مگر عورت کو اس کا اصل مقام سمجھانے کا یہ طریقہ تو ہر گز قابل قبول نہیں۔

میں اپنی سوچوں کو مغربی یا مشرقی کا لیبل دیے بغیر میانہ رو رہنے کی کوشش کرتی ہوں اور معاشرے کی پرتوں میں کوئی بہت بڑے روزن بنانے کی کوشش نہیں کرتی مگر اگر یہ مروجہ گھٹی ہوئی سوچیں ہی مشرقی افکار ہیں اور اگر انسانی حقوق کے بارے میں سوچنا، مرد اور عورت کے برابر حقوق اور عورت کو شعور دینے کی بات کرنا، معاشرے کی اٹھائی ہوئی رواجوں کی دیواروں سے باہر جھانک کر کوئی حل ڈھونڈنا مغربی افکار ہیں تو ہاں میں بھی مغربی افکار سے متاثر ہوں اور ان سوچوں کو اس معاشرے میں لانے کی کوشش اس لئے کرتی ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ دھکا کھانے کے بعد حقیقت حال کا دراک کرنا ہر گز بھی ایک خوشگوار صورت نہیں ہے۔ اگر سوچوں کے دریچے کھول کر اس تکلیف سے بچا اور بچایا جا سکے تو کیا برا ہے؟

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim