بامیان، آثار قدیمہ اور قدیم تر تہذیب کی واپسی (2)


 موجودہ افغانستان میں ایسے کئی کردار ہیں، جنھوں نے اپنی دھرتی پر تہذیب اور آرٹ کے شاہکار نمونوں کو رجعت پسند اور تہذیب دشمن عناصر سے بچانے کے لیے سیکڑوں جتن کیے۔ نوجوان مصور یوسف آصفی ایسا ہی ایک کردادر ہے۔ ان عناصر کی آمد سے قبل اس کے گھر میں ایک آرٹ گیلری تھی، جس میں اس کی محنت سے بنائی ہوئی شاند ار پینٹنگر جمع تھیں، جن افغانستان کی قدیم تہذیب کو نمایاں کیا گیا تھا۔ رجعت پسند عناصر نے افغانستان پر قبضے کے بعد جس طرح آرٹ کے نمونوں کو تباہ کرنا شروع کیا، آصفی کو بھی یہ خطرہ تھا کہ ایک روز اس کی گیلری پر چھاپہ پڑے گا اور اس کی برسوں کی محنت کو ایک لمحے میں آگ کی نذر کر دیا جائے گا۔ پینٹنگز اتنی تھیں کہ انھیں آسانی سے کہیں چھپایا بھی نہیں جا سکتا تھا، سو یوسف آصفی کے فن کارانہ ذہن نے اس کا ایک خوب صورت حل یہ نکالا کہ اپنی تمام پینٹنگز پر آئل پینٹ کر دیا جس سے اصلی تصویریں ڈھک گئیں اور آئل پینٹ کے کلر صرف کینوس پرباقی رہ گئے۔ طالبان کے کارندے کئی بار چھاپے مارنے کے باوجود آصفی کی اس ” فن کاری“ کو پکڑ نہ سکے۔ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد آصفی نے ایک صاف گیلے کپڑے سے اپنی پینٹنگز پر لگا ہوا آئل پینٹ اتار دیا۔ اس کی شاہکار تصویریں آج اس کی آرٹ گیلری کا حصہّ ہیں۔ جنھیں اب نیشنل میوزیم کا حصہّ بنایا جارہا ہے۔ یوں طالبان کی آرٹ دشمنی کا سانپ بھی مر گیا اور آصفی کی تخلیق کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ آرٹ اور تہذیب اپنے بچاﺅ کے راستے کیسے خود ہی تلاش کر لیتے ہیں۔ یہ وہ سمندر ہے، جس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا۔

یوسف آصفی نے اپنی آرٹ گیلری کو نہ صرف آباد کیا ہے بلکہ اب وہ یہاں نئے آرٹسٹوں کی تربیت بھی کر رہا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اب یہ ایسی گیلری بنے گی جہاں نوجوان آکر اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں گے۔

Professor Zemaryali Tarzi (Left)

شیرازالدین ایسا ہی با صلاحیت تخلیق کار نوجوان ہے، جو طالبان کے ہاتھوں نیشنل میوزیم میں رکھی گئی توڑی جانے والی مورتیوں کو پھر سے جوڑنے کا کام کر رہا ہے۔ جب کہ اب کئی خواتین نئی مورتیوں پر کام کر رہی ہیں، پتھروں سے تہذیب تراش رہی ہیں۔ افغان نیشنل میوزیم پھر سے آباد ہو رہا ہے، تاریخ تہذیب کو پھر سے آباد کر رہی ہے۔ اس سارے قضیے میں دلچسپ ترین قصہّ سات افراد پر مشتمل اس گروہ کا ہے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر ان فلموں کو محفوظ کر لیا جو افغان ثقافت، تہذیب اور تایخ کی آئینہ دار ہیں۔ اس قصے کی دلچسپ رودادفد کے ایک رکن نے سُنائی۔ اس نے بتایا کہ، ” طالبان نے آتے ہی اعلان کیا کہ تمام فلمیں غیر اسلامی ہیں، اس لیے ان کے ریکارڈ کو جلا دیا جائے گا، ہم سب اس بات پر پریشان تھے، ہمارا خیال تھا کہ ہمیں اس کو بچانا چاہیے، چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے، اس کے لیے ہم نے یہ طریقہ نکالا کہ اس دوران ہم نے فوری طور پر اصل نےگےٹو کے 9900رولز کی راتوں رات نقل تیار کی اور اصل رولز کو ریکارڈ روم میں چُھپا دیا اور ریکارڈ روم کے باہر ہم نے دیوار کھڑی کر دی، طالبان کے کارندے کئی بار یہاں تلاشی لینے آئے مگر ایک پل کے لیے بھی انھیں یہ احساس نہیں ہوا کہ اس دیوار کے پےچھے دروازہ ہے، جس کے اُس طرف پورا ایک کمرہ آباد ہے،جہاں ان فلموں کا اصل ریکارڈ موجود ہے، جس کی کاپیاں ہم سے چھین کر انھوں نے سرعام جلائی تھیں۔ “ فلم ڈائریکٹورےٹ کے تمام اسٹاف نے طالبان عہد میں لمبی لمبی داڑھیاں رکھ لی تھیں، ان کے پاس اس دور کے بنائے ہوئے شناختی کارڈ اب تک محفوظ ہیں، جنھیں کیمرے کے سامنے دکھاتے ہوئے مسکرارہے تھے۔ اسٹاف کے ایک سینئر رکن نے ٹی وی کی ٹیم سے گفتگوکرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا کہ، ” اس دوران اگر ہماری جان بھی چلی جاتی تو ہمیں فخر ہوتا، اس لیے ہم اپنی جان پر کھیل کر اپنے دیس کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کر رہے تھے، کیوں کہ جس دیس کی تہذیب نہیں ہوتی،اس کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ “

nadia tarzi

حالا ںکہ دُنیا کا تہذیب یا فتہ ملک افغانیوں کو غیر تہذیب یا فتہ قرار دے کر انھیں تہذیب کے معنی سکھانے آیا تھا لیکن اپنی تہذیب سے محبت کرنے والے جہاں ایسے جوان موجود ہوں، انھیں نہ طالبان جیسے تہذیب دشمنوں سے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے اور نہ آمر امریکیوں سے تہذیب کے معنی سیکھنے کی کوئی ضرورت۔ کوئی ڈاکٹر تارزی اور یوسف آصفی جیسے جوانوں کی آنکھ سے دیکھے تو افغان تہذیب ایشیا کی حسین ترین تہذیب دکھائی دے گی۔ گوتم کے طویل القامت مجسمے کی تلاش کے دوران ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر تارزی نے خود کہا تھا کہ، ’گوتم کے اس مجسمے کی دریافت طالبان کے لیے درسِ عبرت ہو گی “ اور نیشنل میوزیم میں کام کرنے والے عمر خان سعودی کی یہ بات اس نام نہاد تہذیب یا فتہ سامراج کے منہ پر طمانچہ ہے، جس کا خیال ہے کہ وہ انھیں تہذیب سکھائے گا جو پہلے ہی یہ جانتے ہیں کہ، ” جب کسی ملک کی تہذیب ختم ہو جائے تو اس کی تاریخ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ “ عمر سعودی اسے تاریخ کا انتقام قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ،” آنے والی نسلوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی میں ان کی دھرتی پر کیا کچھ ہوا۔ “

افغانستان کی اس نسل نے اپنی دھرتی کی تہذیب اور ثقافت کو بچانے کے لیے جو جتن کیے ہیں، وہ دراصل ماضی کی ر جعت پسند اور موجودہ عہد کی نام نہاد تہذیب یا فتہ غاصب اور آمرانہ قوتوں کے منہ پر طمانچہ ہی تو ہے۔ جیسے ڈاکٹر تارزی کے بقول، گوتم کے مجسمے کی تلاش کے دوران یونانی دیوی اےفروڈائےٹ کی مورتی برآمد ہوئی لیکن اس کے پنکھ اور ماتھے پر لگا ہوا تلک یونانی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ شاہراہ ریشم مختلف ثقافتوں کو باہم ملاتی ہے۔

 گو کہ یہ دریافتیں عالمی تہذیب کے ٹھیکے داروں کی سرکردگی میں ہو رہی ہیں لیکن یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ دھرتی اپنی کوکھ سے ان کی رسوائی کا سامان برآمد کر رہی ہے، گویا دھرتی ماں اپنے بچوں کو دشمن سے نمٹنے کے لیے وہ ہتھیار مہیا کر رہی ہے جو اسے تباہ کرنے کے لیے بارود سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ بیسویں صدی کی نسلوں نے تاریخ کے دہرائے جانے کا مقولہ سُنا تھا، اکیسویں صدی کی اوّلین نسل اپنی آنکھوں سے تاریخ اور تہذیب کے انتقام کو دیکھ رہی ہے۔ یہ ارتقا کے جدلیاتی قوانین کی فتح ہے، دُنیا بھر میں اس قانون کے بانی کے مقلد اس فتح کا جشن منائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).