علامہ اقبال کے علما سے چند فقہی سوالات اور ”بکاؤ لبرل“۔


اقبال کے مکاتیب سے واضح ہوتا ہے کہ وہ استفسار اور تبادلہ خیالات کو اپنے فکری عمل میں بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ نہ صرف مغربی علوم سے بخوبی آشنا تھے بلکہ مسلم فلاسفہ سے بھی گہرا ربط رکھتے تھے۔ ان کے خطبات (تشکیل جدید الہیات اسلامیہ) کے حوالے سے یہ الزام بھی لگا کہ علامہ عربی زبان کی نزاکتوں سے ناواقف تھے۔ گویا اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ علامہ نہ صرف عربی میں ایم اے تھے بلکہ اورنٹئیل کالج میں عربی کی تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ ہم عصر علمائے کرام سے رجوع ان کے فکری تجسس کا نتیجہ ہے۔ پیر مہر علی شاہ سے بھی کئی مسائل تصوف، خاص طور پر وحدت الوجود کی باریکیوں کے بابت استفسار کرتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی اور سید سلیمان ندوی سے تو مسلسل خاص ربط رہا۔ خطبات پر کام کرتے ہو‌ئے سید سلیمان ندوی سے جو سوالات پوچھے گئے، ان کا کچھ ذکر زندہ رود (ڈاکٹر جاوید اقبال) اور اقبال نامہ (مرتب :شیخ عطا اللہ) میں مذکور ہے۔ یہ سوالات علامہ کے علم الکلام سے لگاؤ اور فکری مشرب کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سوالات کچھ یوں ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں ہیں، نبوت اور امامت، نبوت میں احکام قرآنی اور آیات قرآنی سے استنباط داخل ہیں۔ اجتہاد کی بنا محض عقل بشری اور تجربہ و مشاہدہ ہے۔ کیا یہ بھی وحی میں داخل ہے؟ وحی غیر متلو کی تعریف نفسیاتی اعتبار سے کیا ہے؟ کیا وحی متلو و غیر متلو کے امتیاز کا پتا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چلتا ہے یا یہ اصطلاحات بعد میں وضع کی گئیں؟

حضور نے اذان کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ کیا یہ مشورہ نبوت کے تحت آئے گا یا امامت کے تحت؟
حضرت عمر نے طلاق کے متعلق جو طریقہ کار اختیار کیا، اگر اس کا اختیار انہیں حاصل تھا تو اس اختیار کی اساس کیا تھی؟ زمانہ حال کی زبان میں آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی ہے؟

فقہا کے نزدیک خاوند کا جو حق اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہے، وہ بیوی کو یا اس کے کسی خویش کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟ اس مسئلہ کی بنا کوئی آیت ہے یا حدیث؟
امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگر بچہ پیدا ہو تو قیاس اس بچے کے ولد الحرام ہونے پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ کی اساس کیا ہے؟ کیا یہ اصول محض ایک قاعدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے؟

کیا امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (جیسے سرقہ کی حد) کو ملتوی کردے اور اس کی جگہ کوئی اور حد مقرر کردے؟ اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرآنی ہے؟

متکلمین میں سے بعض نے علم مناظر و مرایا کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا کو دیکھنا ممکن ہے۔ یہ بحث کہاں ملے گی؟ رویت باری کے متعلق جو استفسار کیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ شاید اس بحث میں کوئی ایسی بات نکل آئے جس سے آئن سٹائن کے انقلاب انگیز نظریہ نور پر کچھ روشنی پڑے۔ اس خیال کو ابن رشد کے ایک رسالہ سے تقویت ہوئی جس میں انہوں نے ابو المعالی کے رسالہ سے ایک فقرہ اقتباس کیا ہے۔ ابوالمعالی کا خیال آئن سٹائن سے بہت ملتاجلتا ہے۔ گو اول الذکر کے ہاں یہ بات محض ایک قیاس ہے اور مؤخر الذکر نے اس کو ریاضی سے ثابت کیا ہے
”شمس بازغہ ” یا ”صدرا“ میں جہاں زماں کی حقیقت سے متعلق بہت سے اقال نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ زمان خدا ہے۔ “بخاری“میں ایک حدیث بھی اسی مضمون کی ہے۔ کیا حکمائے اسلام میں سے کسی نے یہ مذہب اختیار کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بحث کہاں ملے گی؟

قرون وسطی کے ایک یہودی حکیم موسی بن میمون نے لکھا ہے کہ خدا کے لئے کوئی مستقبل نہیں ہے بلکہ وہ زمان کو لحظہ بہ لحظہ پیدا کرتا ہے، میمون نے قرطبہ کی مسلم یونیورسٹیوں سے تعلیم پائی، اس لئے اس کا یہ مذہب بھی کسی مسلم فلاسفہ کی خوشہ چینی ہے؟

ہندی مسلم فلسفی ساکن پھلواری مصنف ”تسویلات فلسفہ“ کا نام کیا ہے؟ کتاب مذکور کا نسخہ کہاں سے دستیاب ہوگا؟

مولوی نور الاسلام کا رسالہ بابت ”مکان“ جو رامپور میں ہے، کس زبان میں ہے؟ قلمی ہے یا مطبوعہ؟ مولوی نور الاسلام کا زمانہ کون سا ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفہ پر جو اعتراضات ہمارے متکلمین نے کیئے ہیں، وہ خود ان پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ مولوی سید برکات احمد نے دہر اور زمان میں امتیاز کر کے کسی قدر مشکلات کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر مسئلہ نہایت مشکل ہے۔ اگر دہر ممتد اور مستمر ہے اور حقیقت میں اللہ ہی ہے تو پھر مکان کیا چیز ہے؟

جس طرح زمان دہر کا ایک طرح عکس ہے، اسی طرح مکان بھی دہر ہی کا عکس ہونا چاہیے، یعنی زمان اور مکان دونوں کی حقیقت اصلیہ دہر ہی ہے۔ کیا یہ خیال محی الدین ابن عربی کے مطابق صیحیح ہے؟ کیا انہوں نے مکان پر بھی بحث کی ہے؟ اور اگر کی ہے تو مکان اور دہر کا تعلق ان کے نزدیک کیا ہے؟

اسلامی ریاست کے امیر کو اختیار ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ بعض شرعی اجازتوں میں فساد کا امکان ہے تو ان اجازتوں کو عارضی طور پر منسوخ کردے بلکہ فرائض کو بھی منسوخ کر سکتا ہے؟ اس کا حوالہ کہاں سے ملے گا؟

کیا یہ بات صحیح ہے کہ متعہ حضرت عمر سے پہلے مسلمانوں میں مروج تھا اور حضرت عمر نے اسے منسوخ کردیا؟ کیا زمانہ حال کا کوئی امیر کسی امر کی نسبت ایسا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے؟
احکام منصوصہ میں امام کے توسیع اختیارات کے اصول کیا ہیں؟ اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو ان کے عمل کو محدود بھی کرسکتا ہے۔ اس کی کوئی تاریخی مثال ہوتو واضح کیجیے؟ زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے کیا ہے؟ قاضی مبارک کے ہاں شاید اس کے متعلق کوئی فتوی ہے؟ وہ کیا ہے؟

اگر کوئی اسلامی ملک روس کی طرح زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسلامی کے موافق ہوگی یا مخالف؟ کیا یہ بات بھی امام کی رائے کے سپرد ہوگی؟

امام ایک شخص واحد ہے یا جماعت (مجلس) بھی امام کی قائم مقام ہو سکتی ہے؟ ہر اسلامی ملک کا اپنا امام ہو یا تمام اسلامی دنیا کے لئے ایک امام ہونا چاہیے؟ موخر الذکر صورت موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میں کیسے بروئے کار آسکتی ہے؟

یہ بات اہم اور قابل غور ہے کہ علامہ اقبال کے مندرجہ بالا سوالات قریب قریب اس زمانہ کے ہیں جب ہندوستانی مسلمان اپنی شناخت کے بحران سے گزر رہے تھے۔ ترکی کی خلافت کے خاتمہ نے ان میں جذباتی و نفسیاتی حوالوں سے مدوجزر پیدا کر دیا تھا اور ماضی سے عقیدت جو محکوم قوموں کا وظیفہ ہوتی ہے، اب کئی صورتوں میں اضطراب کا موجب بن رہی تھی۔ اس وقت کچھ کلاسیکی مذہبی طبقات مختلف انقلابی تحریکیں چلارہے ہے (تحریک خلافت، ترک موالات، تحریک ہجرت وغیرہ)اور دوسری جانب وہ مسلمان تھے جو عظمت رفتہ کی بحالی تو چاہتے تھے مگر جوش کی بجائے ہوش سے جدوجہد کرنا چاہتے تھے۔ ان کو اس زمانے میں بھی ”بکاؤ لبرل“ کی تہمت کا سامنا کرنا پڑا اور کفر کے فتوے بھی سہے۔ اقبال کے یہ سوالات اس طالب علمانہ تکبر سے پاک ہیں جو آج کل دوچار کتابیں پڑھ کر ہمارے اندر کلبلانے لگتا ہے۔ یہ سوالات گہرے غور وفکر کا نتیجہ ہیں اور فکر کی حرکی تشکیل کو مہمیز دیتے ہیں جو ہمارے تقلیدی جمود کی صدیوں پرانی فضا میں کسی خوشگوار جھونکے سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).