پارلیمنٹ کا وقار کون بحال کرے گا!


وزیر داخلہ احسن اقبال نے شکوہ کیا ہے کہ ملک کے بعض ادارے پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اسے بے توقیر کیا جا سکے۔ آج اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ملک کی پارلیمنٹ بیس کروڑ لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہے ، یہ کوئی یتیم خانہ نہیں ہے۔ وزیر داخلہ اور معزول وزیر اعظم نواز شریف کے وفادار ساتھی احسن اقبال نے یہ باتیں جمعہ کو سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم اور ان کے اہل خاندان کی نظر ثانی کی درخواستوں کے مسترد ہونے کے بعد کہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو شفاف طریقے سے اپنے خلاف الزامات کا جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن نواز شریف کو اس حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی سپریم کورٹ کی طرف سے نظر ثانی کی اپیلیں مسترد ہونے کے ایک دن بعد اور اتوار کو لاہور کے حلقہ 120 میں ہونے والے فیصلہ کن ضمنی انتخاب میں پولنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے سپریم کورٹ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خاندان کو حصول انصاف سے محروم کیا جارہا ہے۔ تاہم لاہور میں نواز شریف کی طرف سے خالی کی گئی نشست پر انتخاب سے فوری پہلے اس لب و لہجہ کا واحد مقصد ووٹروں کے سامنے خود کو معصوم ثابت کرتے ہوئے اس اثر کو زائل کرنا ہے جو سپریم کورٹ کے غیر موافق اور غیر متوقع حکم سے سیاسی صورت حال پر مرتب ہونے کا امکان ہے۔

ملک کے سیاست دانوں کے اسی رویہ کی وجہ سے ملک کے سارے ادارے کمزور اور ناقابل اعتبار ہورہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) 2013 سے حکومت میں رہی ہے ۔ چار برس تک نواز شریف وزیر اعظم رہے ہیں حتیٰ کہ سال ڈیڑھ سال کی سیاسی مہم جوئی کے نتیجے میں ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں 28 جولائی کو نااہل قرار دیا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اب بھی برسر اقتدار ہے اور اسی پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے زور پر ملک میں اس کا وزیر اعظم اختیارات کا استعمال کررہا ہے۔ اس لئے اگر پارلیمنٹ کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے یا ملک کے بعض ادارے ملک کے سب سے اہم جمہوری ادارے کے اختیارات کو مفلوج کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو اس کی ذمہ داری سیاست دانوں کے سوا کسی دوسرے پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ سابق وزیر اعظم کے بارے میں یہ بات ہر عام و خاص کے علم میں تھی کہ وہ اپنے مٹھی بھر مشیران خاص کے ذریعے حکومت اور اہم فیصلے کرنے کے عادی تھے۔ وہ چار برس کے دوران چند بار ہی قومی اسمبلی میں آئے اور وہ اپنے ہی پارلیمانی گروپ سے بھی براہ راست رابطے میں نہیں رہتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ کابینہ کے اجلاس منعقد کرنا یااپنے وزیروں سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ مختلف لوگوں کو وزارتوں کے منصب ضرور دیئے گئے تھے لیکن ان کے پاس اپنے محکموں کے اہم معاملات کے فیصلے کرنے اور کارکردگی کو کنٹرول کرنے کے اصل اختیارات نہیں تھے۔ وہ نواز شریف اور ان کے حاشیہ نشینوں کے مشوروں اور ہدایات کے محتاج رہتے تھے۔ نواز شریف کے دور میں اپوزیشن کے احتجاج اور مطالبوں کے باوجود وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا گیا اور نواز شریف ایک معمر مشیر کے ذریعے ہی کام چلاتے رہے کیوں کہ وہ خارجہ امور پر خود کو اتھارٹی سمجھتے ہوئے ان کی براہ راست نگرانی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اس صورت حال میں اب ان کے ساتھی کیوں کر یہ گلہ کر سکتے ہیں کہ ملک کی پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسرے ادارے پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کررہے ہیں۔

پارلیمنٹ کے حوالے سے یہ صورت حال صرف اس لئے پیدا ہوتی ہے کیوں کہ نواز شریف نے خود پارلیمنٹ کی کبھی عزت نہیں کی۔ وہ جمہوری عمل کے ذریعے تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور انہیں عوام میں مقبولیت بھی نصیب ہوئی لیکن انہوں نے کبھی خود عوامی طرز عمل اختیار کرنے یا عوام سے رابطہ قائم رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہیں سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ہی عوام کی طاقت اور حمایت کا خیال آیا اور وہ اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے عوامی جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس صورت میں احسن اقبال کو دوسرے اداروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کے لیڈر قومی اسمبلی کو اہمیت دینے ، اس کے ارکان کی عزت کرنے ، اپنے پارلیمانی گروپ کے باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے اور ان کی رائے سننے اور تجاویز پر عمل کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے۔ کیا اس بارے میں بھی کوئی ادارہ ان کے راستے کا پتھر بنا ہؤا تھا۔ کیا فوجی قیادت وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں حاضررہنے اور پارلیمانی عمل کا حصہ بننے سے روکتی تھی یا سپریم کورٹ نے ایسا کوئی حکم جاری کیا تھا کہ وزیر اعظم کابینہ سے بالا ہی بالا تمام فیصلے کرتے رہیں اور ان کے چند معتمدین کے علاوہ کسی کو اہم معاملات کی کانوں کان بھی خبر نہ ہو۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بازی شروع ہوئی اور بہت سے لوگوں کو نواز شریف سے شکوے شکایات بھی پیدا ہوئیں۔ لیکن نواز شریف بر وقت صورت حال کو سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

یہ اس ملک کے جمہوری عمل کی بد قسمتی ہے کہ جو لوگ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر حکمرانی کا حق حاصل کرتے ہیں، وہی اس عمل پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ انہیں جمہوری روایت یا عوام کی یاد صرف اس وقت آتی ہے جب حالات و واقعات کی وجہ سے ان کی سیاسی حیثیت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال نواز شریف کے لئے 2014 میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ تب نواز شریف کو بے اختیار پارلیمنٹ کی یاد آئی تھی اور پارلیمنٹ کی مدد اور تعاون کی بنیاد پر ہی وہ اس احتجاج اور اس کے درپردہ عناصر کی حکمت عملی کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن یہ بحران گزرنے کے بعد ایک بار پھر نواز شریف پارلیمنٹ اور اس کے ارکان سے بے خبر ہو گئے اور اپوزیشن تو کجا خود اپنے ہی ارکان سے ان کا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

نواز شریف اور ان کے ساتھی اب جس پارلیمنٹ کی دہائی دے رہے ہیں ، اس پارلیمنٹ کو حکومت کے سربراہ اور وزیر اس کی کارروائی میں باقاعدہ حصہ لینے کی مضبوط روایت کے ذریعے باوقار اور باختیار بنا سکتے تھے۔ لیکن نواز شریف نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن اقتدار سے محرومی اور فوج کے علاوہ سپریم کورٹ کی طرف سے ان کے ذاتی سیاسی کردار کے بارے میں مشکلات پیدا ہونے کے بعد اب مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے اور اپوزیشن پارٹیوں کی تائد سے ایسی آئینی ترامیم لانے کی باتیں کرنے لگی ہے جس سے نواز شریف کی سیاسی حیثیت کو تحفظ فراہم ہو سکے۔ یہ رویہ پارلیمنٹ پر اعتبار کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ مجبوری کے عالم میں باقی راستے بند ہوجانے کے بعد جمہوریت کی دہائی دے کر اپوزیشن کے تعاون سے اپنی سہولت کی آئینی ترامیم کروانے کی خواہش سامنے لائی جارہی ہے۔ یہ بدستور اختیار و اقتدار پر دسترس کی خواہش کا اظہار ہے اور اس سے ملک کے سیاسی کلچر کی یہ کمزوری بھی عیاں ہوتی ہے کہ بڑی سے بڑی پارٹی بھی ایک لیڈر کے محروم ہونے کے بعد ایسے بحران کا خطرہ محسوس کرنے لگتی ہے جس میں اس کا وجود ہی تحلیل ہو سکتا ہے۔

نواز شریف کی حکومت پاناما پیپرز اسکینڈل میں وزیر اعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد بھی اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کوئی قابل قبول پارلیمانی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کی بجائے پارلیمنٹ پر اعتبار کا اعلان کرنے والی پیپلز پارٹی بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسلم لیگ (ن) کی بجائے تحریک انصاف کی تائد کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ نواز شریف اور ان کی حکومت کے پاس پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے کسی تحقیقاتی کمیشن کا قیام بہتر راستہ تھا۔ اس صورت میں وہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کی کارروائی اور جے آئی ٹی کے ذریعے تحقیقات کے ذلت آمیز عمل سے محفوظ رہ سکتی تھی۔ لیکن انہوں نے بر وقت اس آپشن کو استعمال نہیں کیا اور اب پارلیمنٹ کی دیگر جماعتیں نواز شریف کی خواہش اور ضرورت کے مطابق ترامیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد نواز شریف نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے خود کو بے گناہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے تمام وسائل کے ثبوت موجود ہیں جو اسپیکر کے حوالے کردیئے جائیں گے تاکہ کوئی بھی عوامی نمائیندہ ان کا مشاہدہ کرسکے۔ لیکن بعد میں سپریم کورٹ میں کارروائی کے دوران بھی یہ ثبوت سامنے نہیں لائے جاسکے۔ اسی لئے سپریم کورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔ اس بیان کے حوالے سے بعد میں یہ کہنے کی کوشش بھی کی گئی کہ یہ ایک سیاسی بیان تھا۔ گویا سیاست جھوٹ کا نام ہے اور پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز شخص بھی اگر غلط بیانی کرتا ہے تو اسے سیاسی بیان سمجھ کر بھول جانا چاہئے۔ کیا احسن اقبال یہ بتا سکتے ہیں کہ اس طرز عمل سے کون سی پارلیمنٹ کا وقار بلند ہوتا ہے۔

پاکستان میں بعض ادارے ضرور اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں لیکن انہیں کنٹرول کرنے کے لئے پارلیمنٹ ہی واحد مؤثر اور طاقتور ادارہ ہوسکتا ہے۔ تاہم اگر پارلیمانی نظام کے ذریعے سامنے آنے والے لیڈر ہی پارلیمنٹ کے اختیار اور ضرورت سے انکار کرتے رہیں گے تو دوسرے غیر منتخب ادارے کیوں کر پارلیمنٹ کا احترام کریں گے ۔ نواز شریف اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے سب سے شدید بحران کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس بحران کی بنیادی وجہ فوج کی مداخلت یا سپریم کورٹ کے سخت فیصلے نہیں ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تیس برس تک پارلیمانی سیاست کا اہم حصہ دار ہونے اور اس کے مفادات سمیٹنے کے باوجود نواز شریف پارلیمانی نظام کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سمجھنے اور پارلیمانی جمہوری رویہ اختیار کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali