قصہ کے جی بی کا اور بات کوئٹہ سنڈے سنگت کی


گھر کے کچھ کام نمٹا کے جتنی جلد پہنچنے کی کوشش کی، سب بے سود رہی۔ دیر ہوگئی تھی۔ جہانگیر اور میں جب 17 ستمبر 2017 بروز اتوار پروفیشنل اکیڈمی پہنچے تو ہمارے بزرگ پہلے سے تشریف فرما تھے اور کچھ نوجوان بھی۔

گفتگو شروع ہوئی تو موضوع تھا کمیونزم، سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام۔ شیام کمار صاحب اور سرور آغا صاحب کے ساتھ ساتھ محترم جنید خان بھی شریک گفت گو تھے۔ باتوں باتوں میں سرور صاحب نے ایک میگزین کے چند اوراق پلٹے اور سب کو اپنی طرف متوجہ کر گئے۔ ان اوراق کے بیچ ایک اخباری کالم تھا۔ وہ کالم نگار کی تصویر اور نام کو چھپا کے پڑھنا چاہ رہے تھے کہ پاس بیٹھے جاوید اختر صاحب کہاں یہ موقع ہاتھ سے جانے دیتے، نام یا تصویر دیکھنے کی کوشش کی۔ ان کے سامنے ڈاکٹر شاہ محمد صاحب مری بیٹھے تھے اور انہوں نے فورا کہا کہ یہ وجاہت مسعود ہی ہو گا۔

کالم کا عنوان تھا “کے جی بی کیوں ناکام ہوئی” (مورخہ 14 ستمبر 2017)۔ سرور صاحب نے چند سطریں پڑھیں اور پھر وجاہت مسعود کی خوب خاطر تواضع کی گئی، جملوں اور فقروں سے۔

کالم کے چند جملے ملاحظہ فرمائیں:

1۔ آپ اردو میں اسے ‘کمیٹی برائے قومی سلامتی’ کہہ لیجیے۔

2۔ کے جی بی کو مرکزی سیاسی حاکمیت اور مداخلت کار معیشت کا دفاع کرنا تھا۔

3۔ سی آئی اے کو جمہوریت اور کھلی منڈی کی حفاظت کرنا تھی۔

 4۔ پچاس برس تک پنجہ آزمائی کے بعد سوویت نظام بکھر گیا۔

ان جملوں کو بڑے غور سے سنا گیا اور پھر مری صاحب، جناب شیام کمار اور جنید صاحب نے وجاہت کا بھر پور جواب دیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی غلطیاں پکڑتے گئے تو غلط نہ ہوگا۔

جاوید صاحب بڑے غور سے اس پرچے کی جانب دیکھ رہے تھے تو سرور صاحب ایک کاغذ پہ کچھ انگریزی جملے لکھ کے لائے تھے، وہ بھی پڑھ لیے۔ ایک جگہ Doctrine کا لفظ آیا تو مری صاحب نے کہا کہ مذاہب اور عقائد کے علاوہ کچھ بھی ڈاکٹرائن نہیں ہوتا۔ سوشلزم ڈاکٹرائن نہیں، اس لفظ کا استعمال ہی غلط ہے۔

پھر ایک جگہ Tenants کا لفظ آیا تو ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب نے اختلاف کیا کہ ہم مزدور نہیں، ہم کرائے کے مکان میں نہیں رہتے، کسی کے ماتحت نہیں۔ لہذا یہ بھی غلط۔

یہاں ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ گئی۔ سرور صاحب ایک طرف اور باقی بزرگ ایک طرف۔ آغا صاحب نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کیوں غلط ہے، کیا خرابی ہے اس میں۔ اور دوسری جانب سے کبھی خاموشی اور کبھی جملوں کا تبادلہ ہوتا گیا۔ احباب کے لیے یہ ایک دلچسپ مرحلہ تھا۔ محفوظ بھی ہوئے اور یقینا اپنے علم میں اضافہ بھی کر گئے۔

رسالے میں شائع شدہ ‘چینی کمیونسٹ پارٹی کا موقف’ مضمون بھی پڑھنا چاہ رہے تھے مگر بحث و تکرار کی وجہ سے سرور صاحب ایسا نہ کر سکے۔ اور ہاں سرور آغا جو رسالہ لائے تھے اس کا نام تھا، “ماہنامہ عوامی جمہوریت۔ “

بات سے بات نکلتی گئی کہ بلوچستان کے عوام کا استحصال کون کر رہا ہے۔ سب نے سردار کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ پھر پارٹیوں کی باری آئی۔ مثلا سردار، نیشنل پارٹی، بی این پی، جمیعت علمائے اسلام، پشتونخوا میپ وغیرہ وغیرہ۔ عبدالخالق صاحب نے اپنی کہانی بیان کی کہ جب وہ خضدار میں PPHI میں ڈی ایس ایم تھے تو انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کن لوگوں نے انہیں دھمکی دی، کون سے مسلح افراد ہر وقت انہیں اور ان کے گھر والوں کو تنگ کرتے تھے۔ انہوں نے سردار کو پہلے نمبر پہ رکھا تو عابد میر نے کہا کہ پھر اس سارے معاملے میں ریاست کہاں ہے؟ اگر آج سردار ہم پر مسلط ہیں تو انہیں لانے والا کون ہے؟

جنید خان نے کہا کہ اگر یہ سب ہوتا رہا تو کیا آپ نے تحریری طور پر ریاست سے مدد مانگی؟ خالق صاحب اور باقی احباب گویا ہوئے کہ سر لکھتے بھی تو ہماری تحریر نے آخر انہی سرداروں کے پاس ہی جانا تھا۔ وہ اتنے اچھے ہوتے تو خضدار میں محکمہ صحت کے 25 بنیادی یونٹ  بند نہ ہوتے۔ اس کے بعد استحصالیوں کی فہرست میں اس وقت اضافہ ہوا جب جاوید اختر صاحب نے جناب زاہد دشتی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ یعنی میڈیا۔ اور ایک دوست نے دانش وروں کو بھی شریک جرم قرار دیا تو مری صاحب نے ان کی بات کی تائید کی۔

دوسری طرف شیام کمار صاحب نے ریاست اور اس کے کردار پہ بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو پہلے پہل جن لوگوں نے ووٹ دیا ان کا کیا حشر ہوا: حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب اور اکبر بگٹی۔ اور آج دانشور اگر لکھے تو اسے چھاپے گا کون؟ بہرحال لکھاری اور دانشور کو سچ بولنا چاہیے، لکھنا چاہیے۔ انہوں نے ایک واقعہ بھی سنایا کہ کیسے انہوں نے ایک بیوروکریٹ کا لاجواب کر دیا تھا۔ روس کے انقلاب کی مثال دی کہ وہاں انقلاب آیا تو لکھاریوں کی وجہ سے، لینن اور اسٹالن کی وجہ سے۔

حاجی صاحب نے غریبوں اور عوامی ورکرز پارٹی کی بات کی۔ مری صاحب نے انہیں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا خاص کر قلم کے ذریعے کچھ کرنے کی مدد۔

زاہد دشتی نے تجویز پیش کی کہ آپ لوگوں کی باتیں ریکارڈ ہونی چاہییں، آدھے گھنٹے کی گفتگو ہی سہی۔ اور سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ ہوجائیں تاکہ دوسرے بھی استفادہ کر سکیں۔ اس تجویز کو بھی خوش آمدید کہا گیا۔ فوٹو سیشن کی باری آئی تو احباب جنید صاحب کی طرف دیکھنے لگے۔ قہقہے بکھر گئے اور بیٹھک اپنے اختتام کو پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).