این اے 120: کچھ مشاہدات، کچھ تاثرات


 میں کل 17 ستمبر دن دس بجے کے آس پاس این اے 120 کے کچھ علاقوں میں گیا ۔ گھوما پھرا ۔ انارکلی میں نان چنے کا ناشتہ کرنے کے بعد مزنگ وغیرہ کی طرف بھی چکر لگایا۔ اس وقت ابھی اتنی زیادہ گہما گہمی نہیں تھی۔ پولنگ میں تیزی شاید ساڑھے بارہ یا ایک بجے کے بعد آئی۔ میرے مشاہدات اور تاثرات کچھ یوں ہیں:

٭   اس انتخاب میں ووٹرز ٹرن آوٹ حسب معمول پہلے کی نسبت کم تھا۔ ضمنی انتخابات میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔

٭    ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی سنسنی خیزی اور گراونڈ پر موجود مجموعی صورت حال میں کافی فرق تھا۔ رپورٹر اور خبریں پڑھنے والوں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ اگلے ایک ہفتہ تک پانی میں ”اسلامی شہد” ملا کر پئیں، افاقہ ہوگا ۔ انقلاب پھر کبھی آ جائے گا، شانت رہیں۔

٭   پی ٹی آئی نے اس حلقے میں یہ جانتے ہوئے کہ میاں نواز شریف کا پکا حلقہ ہے، سرگرم انتخابی مہم چلائی۔ اس سے فرق بہرحال پڑا ہے ۔

٭   جیت کے بارے میں پاکستان کی انتخابی سیاست کی سائنس سمجھنے والے کم وبیش متفق تھے کہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہو گا، اور ایسا ہی ہوا۔ ضمنی الیکشن عموماً حزب اقتدار ہی کا ہوتا ہے ۔

٭   ملی مسلم لیگ نامی نئی پارٹی کے امیدوار کی بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ جماعت الدعوہ نے بھرپور تنظیمی کمک جھونک رکھی تھی۔ کچھ مبصرین کا تاثر یہ تھا کہ یہ ملی نہیں بلکہ ملٹری مسلم لیگ ہے، وہ اس مزاحیہ ٹائیٹل کے ذریعے اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ پارٹی قرار دے رہے تھے۔

٭   مجھے حلقے میں جا کر ہلکے نیلے رنگ کے بینرز دیکھ کر پتا چلا کہ جماعت اسلامی نے بھی کوئی امیدوار میدان میں اتار رکھا ہے۔ صحافتی نقطہ نظر سے یہ میری معلومات کی کمی ہے جبکہ سیاسی حکمت عملی کے اعتبار سے یہ جماعت اسلامی کی بے روح کیمپین کی دلیل ہے ۔

٭    پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارکے کہیں کہیں بینر تو نظر آئے لیکن ہم جس پی پی کو جانتے ہیں، اس کی کوئی خاص سرگرمی ہمیں دکھائی نہیں دی۔ باقی نتائج آپ کے سامنے ہیں ۔ بہت ذاتی تبصرہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا یوں کہانی ہو جانا دیکھ کر ہمارے دل میں ”چھِک ” بہرحال ”وجتی” ہے ۔ وہ کسی دیسی ماہیے گانے والی نے گایا ہے ناں : ”ارمان تے لگدا اے، افسوس تے لگدا اے” بس وہی حال ہے۔

٭   اے آر وائے ٹی وی پر پروگرام کرنے والے ایک اینکر ارشد شریف کا بینر میں نے جی پی او سے ذرا آگے ایک طرف بہت سارے بینرز میں ٹنگا دیکھا۔ میں تصویر نہیں بنا سکا۔ میں سمجھا نہیں کہ ملی مسلم لیگ ہوتے ہوئے ارشد شریف کی تصویر لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وہ بھی امیدوار تھے تو شام کو ٹی وی اسکرین پر کیا کر رہے تھے؟ کنفیوژ ہوں۔

٭   اب سوشل میڈیا پر لوگ مارجن پر بات کر رہے ۔ کچھ لوگ 2013 کے انتخابی نتائج کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں ۔ میں حساب میں ذرا کمزور ہوں، بس یہی کہوں گا کہ پی ٹی آئی کی مہم کا اثر یہ ہوا کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت اب کی بار اپنے پکے حلقے میں شاید پہلی بار اس قدرمحنت پر مجبور ہوئی۔ ورنہ یہاں تو کیمپین کی انہیں کم ہی ضرورت پڑتی تھی ۔

٭   کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی شکست ہے اور جمہوریت کی فتح ہے۔ میرے خیال میں ایک ضمنی الیکشن کی بنیاد پر اس قدر وسیع المفہوم نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا ۔ مجھے یقین ہے کل صبح جب ہم بیدارہوں گے تو وہ صبح ویسی ہی ہو گی جیسی اس سے ایک دن قبل کی تھی ۔ سمجھنا چاہیے کہ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ایک طویل عمل چاہتی ہیں۔

٭   دوسری جانب میری رائے یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض اپ سیٹ ہو جاتا اور تحریک انصاف جیت جاتی تو بھی یہ اسٹیبلشمنٹ کی فتح نہیں تھی۔ اس کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کو اس قدر اعتماد نہیں مل سکتا تھا کہ وہ کچھ بھی کر گزرے۔ ہاں اس صورت میں ”زخمی شیر” کو مزید زچ کرنے کے لیے بوٹوں کی نظافت پر مامور کل وقتی اینکروں‌ کا اگلا ہفتہ مصروف گزرتا. بس اتنا ہی .

٭   ابھی رات کو البتہ لاہور کے مختلف علاقوں میں جشن منایا گیا۔ کچھ دیر پہلے تک مجھے اپنے فلیٹ میں بیٹھے ہوئے ڈھول، باجوں اور نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ آتش بازی کے کچھ مظاہرے بھی دیکھے۔ حالانکہ یہ این اے 120 نہیں ہے۔ اندازہ ہوتا ہے مسلم لیگ نواز ابھی تک موثر ہے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی بقا کے لیے یہ مثبت علامت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).