غیرت مند ترکی نے ڈارون کی چھٹی کرا دی


اس ہفتے سے ترکی نے سائنسی نصاب سے ڈارون کے نظرئیہ ارتقا کی چھٹی کر دی ہے۔ اب ترک سکولوں میں مذہبی وجوہات کے باعث ڈارون کا نظریہ ارتقا ںہیں پڑھایا جائے گا۔ ترکی کا یہ فیصلہ ان اقدامات کی اک کڑی ہے جو نصاب کو اسلام سے قریب تر کرنے کے لیے ترکی کی حکومت نے کئے ہیں۔ ترکی کو اسلامی ممالک میں ایک بہتر جمہوریت سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن ماضی قریب اور حال کے کچھ فیصلوں نے (جن میں انسانی حقوق پر آواز اٹھانے والوں کی گرفتاریاں، سوشل میڈیا پر پابندیاں اور اب نصاب کی کاٹ چھانٹ شامل ہے) ترکی کے بہتر جمہوریت کے تاثر کو خراب کیا ہے۔

ترکی جیسے ملک کی مد میں ںصاب کی ایسی تبدیلی پریشان کن اس لیے ہے کہ ترکی عرب مسلم دنیا سے بہت مختلف ہے۔ ملوکیت سے جان چھڑا کر ترکی نے اپنی جدید شناخت بنائی ہے۔ سائنس اور جدید تعلیم کے ذریعے ترقی کی ہے۔ پاکستانی ترکی کی جمہوریت اور ترقی کو اپنا آئیڈئل سمجھتے ہیں، ویسٹ مینجمنٹ سے میٹرو بس تک ہم ان کے ماڈل پر چلتے ہیں۔ گو کہ اپنی نصابی کتابوں میں تاریخ کا قتل ہم نے گاہے بگاہے کافی کیا ہے کہ ہمارے پاس اکڑنے کوخلافت عثمانیہ کی میراث نہیں تھی۔ برصغیر کے اسلام کو عرب ہیرو دے کر ہم نے کافی کمال کیا ہے البتہ ڈارون اور سائنس اس تبدیلی مذہب سے کافی حد تک بچے ہوئے ہیں۔

 مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ دین سے قربت کا مقصد لاجک اور سائنسی علوم سے دوری سمجھتے ہیں۔ ترکی کے پڑوس شام میں اس وقت جنگ لگی ہے، اس کی چنگاریاں گاہے بگاہے ترکی میں اڑ کر آ جاتی ہیں اور ترکی نے اس وقت ڈارون کی فکر کرنا زیادہ ضروری سمجھا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ زوال مسلم یہاں تک آیا کہ جب تاتاری لشکر بغداد کے دروازے پر آ پہنچے تھے تو بھی بحث جاری تھی کہ نماز میں شلوار ٹخنوں سے کتنی اونچی باندھنی چاہیے۔ حالانکہ اگر اپنی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو پتا چلے کہ مسلمانوں کے عروج کی وجہ سائنسی تعلیم سے رغبت رہی ہے۔ سائنس نام ہی کھوج لگانے، سوال کرنے اور سیکھنے کا ہے۔ سائنس کا کوئی نظریہ پڑھنے سے دین کو خطرے میں سمجھنا علم حاصل کرنے والوں کا طریقہ کار نہیں۔

 ڈارون کے نظریہ ارتقا ہی کو لے لیں۔ ڈارون سے کوئی نو سو سال قبل مسلمان سائنسدان ابو عثمان الجھت جو مشرقی افریقہ سے تھے “کتاب حیوانات ” میں نظریہ ارتقا اور زندہ رہ کر اپنی نسل بڑھانے کی قدرتی جبلت پر لکھا تھا۔ الجھت کہتے ہیں کہ حیات کی جدو جہد میں جانور مختلف ماحولیاتی عناصر کے مطابق ارتقائی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ ںظریہ ارتقا کوئی ڈارون یا کفر کی میراث نہیں ہے۔ جیسے آج دنیا اور سائنس کی بین الاقوامی زبان انگریزی ہے، ویسے ہی سات سو برس تک سائنس کی زبان مسلمانوں کی مروجہ زبان عربی اور سائنسی دارالحکومت بغداد اور قرطبہ تھے۔ الجھت کی تحقیق ” کتاب حیوانات” مسلم سائنسدانوں کے کام پر گیارہویں سے چودھویں صدی تک اثر انداز رہی۔ یہاں تک کے ڈارون کے استادوں لینیس، بفون اور لامارک نے اپنے نظریہ ارتقا کو شکل دینے کے لئے الجھت کی کتاب کے لاطینی ترجمے سے رہنمائی لی۔

ںاصر الدین طوسی ایک ہمہ جہت فلاسفر، لکھاری اور سائنسدان تھے۔ ایران سے تعلق رکھنے والے طوسی نے آج سے 600 سال قبل اپنی تصنیف اخلاق ناصری میں کائنات کے ارتقا پر بات کی۔ بگ بینگ سے پہلے انہوں نے کہا کہ کائنات کے مختلف حصے کبھی ایک تھے اور ارتقا کے عمل میں مختلف اشکال میں ڈھل گئے۔

آج ہم ان افراد اور ایسے کتنے ہی مسلمان سائنس کے محسنوں کو بھلا چکے ہیں۔ ہماری اسلامیات کی کتابیں جو ہماری مستقبل کی قوم پڑھتی ہے ان میں کہیں ابن سینا، طوسی، الجھت ، الخوارزمی، الباطنی اور ابن حیان کا ذکر نہیں۔ ہمارا دین بس عبادات کی ترویج تک سمٹ گیا۔ جو ہمارا علم تھا وہ مغرب سمیٹ لے گیا۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ہم سے پہلے علم یونانیوں کے پاس تھا۔ ان سے نہیں سنبھلا تو ہم نے اپنا لیا، ہم نے چھوڑا تو ہمارے علم کو مغرب نے سر پر سجا لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے علم سے سیکھیں نہ کہ اس کو اپنی کتابوں سے غائب کر دیں۔  ستم در ستم کہ ہم نے سائنسی علوم کی سنسر شپ بھی شروع کر دی۔ علم کا اولین اصول سوال کرنا ہے۔ مسلم ریاستیں جن حکمرانوں کے پاس ہیں، انہیں سوال کرنا پسند نہیں۔ ترکی نے بھی علمی سوال نہ کرنے کی روایت ڈال دی ہے۔ نصاب سے ڈارون کی چھٹی نہیں کرائی، دراصل سوال کا دروازہ بند کیا ہے۔

قرۃ العین فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

قرۃ العین فاطمہ

قرۃ العین فاطمہ آکسفورڈ سے پبلک پالیسی میں گریجویٹ، سابق ایئر فورس افسراور سول سرونٹ ہیں۔

quratulain-fatima has 16 posts and counting.See all posts by quratulain-fatima