تانیہ خاصخیلی کا اصل مجرم کون ہے؟


تانیہ خاصخیلی کے وحشیانہ قتل کی پوری ملک میں شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے لیکر پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں تاکہ تانیہ کے قاتلوں کو قرار واقع سزا دلا کر قانون و انصاف کا بول بولا ہو سکے اور ظلم و جبر کرنے والے قاتلوں کو پیغام دیا جائے کہ قانون  کے ہاتھ بہت لبمے ہوتے ہیں اور ظلم کرنے والے مجرم کے گلے میں ایک دن پھانسی کا پھندا ضرور ہوتا ہے۔

مگر نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابھی تک قانون و انصاف کا وہ ڈر جو مجرموں، قاتلوں کو ہونا چایے  ابھی تک ہماری عدالتیں اور ادارے اس ڈر و خوف کو قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آئے روز حوا کی بیٹیوں کی عزتیں اور عظمتیں نیلام ہوتی رہتی ہیں چاہے وہ تانیہ خاصخیلی ہو یا بھاگ ناڑی کی رضیا مستوئی یا لاڑکانہ کی زینب ماچھی یا پھر ملتان کی مختیاراں مائی ہو، ان سب کا قصور صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ غربت کی چادر میں لپٹی ہوئی ہیں اور یہاں قانوں اور انصاف کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے چاہیے ہوتے ہیں جو شاید ہی کسی سفید پوش کے  پاس ہوں۔

تانیہ کے قاتل کو  پکڑنے کے لیے آئی جی سندھ  اے ڈی خواجہ، وزیر اعلی سندھ ، بلاول بھٹو زرداری یا پھر آصف علی زرداری صرف احکامات تو دے سکتے ہیں مگر قاتلوں کو سزا دینا یا دلوانا شاید ہی ان کے بس کی بات ہو۔ یہ بھی خدا بھلا کرے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا جن کی وجہ سے  ایسے واقعات عوام کے سامنے آتے ہیں ورنہ تو ایسی سینکڑوں تانیائیں روز مر مر کر زمین یا دریا برد ہو جاتی ہیں۔ کچھ  غیرت کے نام پر قتل ہو جاتی ہیں تو کچھ پسند کی شادی کرنے پر موت کی بلی چڑھا دی جاتی ہیں۔  کچھ  قتل کے عوض ونی ہو جاتی ہیں۔

ان میں اگر کوئی کیس میڈیا کی نظر میں آ جائے تو ان کی تو کچھ دنوں تک داد فریاد سنی جاتی ہے اور جیسے ہی  میڈیا کے نظروں سے اوجھل ہوا تو پھر وہی ہوتا ہے جو قبائلی سردار، وڈیرے بھوتار اور برادری کے بڑے چاہتے ہیں۔ پیسوں کے عوض خون معاف یا پھر اس قتل کے عوض ایک اور حوا کی بیٹی بلی چڑھائی جاتی ہے۔ تانیہ خاصخیلی کے قاتلوں کو پولیس نے تو پکڑ لیا ہے پر شاید تانیہ کو انصاف نہ مل سکے کیوں کہ انصاف کے حصول کے لیے آپ کے پاس ڈھیر سارے پیسے اور تگڑا وکیل لازمی ہے، اس کے بعد ہی آپ انصاف کی لمبی قطار میں لگ سکتے ہیں جس کا آپ کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ آپ کو انصاف کب نصیب ہوگا۔

ہمارے ہاں انصاف کی اعلیٰ عدالت تک پہنچتے پہنچتے بندا اپنی جوانی گار چکا ہوتا ہے یا پھر مر کھپ جاتا ہے تب جا کہ اس کی بیگناہی ثابت ہوتی ہے۔ ہماری ملک کے ماتحت عدالتی نظام کا سب کو پتہ ہے کہ وہاں  پیسہ کس طرح چلتا ہے اور فیصلہ اپنے حق میں کس  طرح کروایا جاتا ہے۔ کہنے والے ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جنگل کا قانون ہے اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔ اگر آپ کے پاس پیسہ اور طاقت ہے تو پھر آپ پر سو خون بھی معاف یہ تو صرف تانیہ خاصخیلی کا ایک خون ہے۔ خدیجہ شاہ پر  خنجروں سے حملہ کرنے  والا اس کا با اثر کلاس فیلو  اور ہمارا نچلا عدالتی نظام سب کےسامنے ہے کہ ایک عورت انصاف کو حاصل کرنے کے لیے کتنی بے بس تھی حلانکہ وہ قانون کی طالب علم ہوتے ہوئے بھی انصاف کو ہوتا ہوا نہیں دیکھ پا رہی تھی میڈیا، سول سوسائٹی، پنجاب حکومت کی سپورٹ اور اعلیٰ عدالت کے کردار کی وجہ سے فلحال اس کا مجرم قانوں کی گرفت میں ہے مگر آج تک مختاراں مائی بھی اپنے انصاف سے مطمئن نہیں ہے۔ اگر ہمارے نچلی عدالتوں میں ایسا نظام چلتا رہا اور ہماری اعلیٰ عدالتیں صرف سیاسی مقدمات نپٹاتی رہیں تو پھر کون کرے گا تانیہ خاصخیلی جیسے ہزاروں بے گناہوں کے ساتھ انصاف جو اس ظالم معاشرے کی بے راہ روی کا شکار ہوتی آ رہی ہیں اور کیسے تانیہ کے قاتل خانوں نوہانی جیسے درندوں کو پھانسیوں پر چڑھا کر ہم اس جیسے قاتلوں کے دلوں میں قانون کا ڈر بیٹھائیں گے کہ قانوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).