حامد میر صاحب کی تصویر۔۔۔ اندر کا جیالا


حامد میر صاحب کے بارے میں عوام کی اکثریت مثبت رائے رکھتی ہے۔ صحافتی خدمات اور آزادی اظہار کے لیے ان کی تاریخ ساز جدوجہد بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو گا کہ انہوں نے اپنے وجود پر ایک نہیں چار چار گولیوں کے زخم سہے ہیں، کم لوگ ہیں جن کا مقابلہ حامد میر صاحب کی صحافتی خدمات سے کیا جا سکتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ،انہوں نے ہر جگہ اپنی حیثیت اور صلاحیت کا سکہ منوایا ہے۔ اپنے ادارے سے ان کی وابستگی بھی کمال کی ہے، ان کی وفاداری کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ایسے کئی مواقع آئے جب ناگزیر مجبوریوں کے باعث مجھ سمیت کئی ملازمین دوسرے اداروں میں جانے پر مجبور ہوئے لیکن میر صاحب کے پائوں اپنی جگہ جمے رہے۔ انہیں مختلف اداروں سے بہت ہی اچھی اور پرکشش پیشکشیں بھی ہوئیں جو انہوں نے ٹھکرا دیں، ان کا اپنا مخصوص نکتہ نظر ہے جس پر وہ آج بھی مضبوطی سے قائم ہیں، یہاں تک کہ پاکستان میں طاقت کی علامت سمجھے جانے والوں نے بھی انہیں آف اسکرین کرنے کے لیے ہرحربہ آزمایا۔

عام طور پر حامد میر اپنی صحافیانہ ذمے داریاں بڑی خوبی سے نبھاتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا “جیالا” اچانک جاگ جاتا ہے، نواز شریف کی نااہلی کے معاملے پر بھی ان میں چھپا جیالا پوری طرح ابھر کر سامنے آیا۔ چلیں اس حد تک تو ٹھیک ہے، کوئی بھی صحافی سو فیصد غیر جانبدار ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے ہونا چاہیے لیکن جب ہم دوسروں کو پیشہ ورانہ اخلاقی اصولوں کا درس دیتے ہیں تو پھر یہ اصول خود پر بھی لاگو کرنے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایک جج سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رشتے دار کا کیس نہ سنے کیونکہ انصاف کمپرومائز ہونے کا خدشہ رہتا ہے،اسی لیے اکثر ججز اپنے رشتے یا تعلق داروں کے مقدمات سننےسے انکار کر دیتے ہیں، میرے خیال میں صحافت کے پیشے میں بھی ممکن حد تک اسی اخلاقی اصول کو مدنظر رہنا چاہیے، یعنی جہاں رشتے داری کا معاملہ ہو بہتر ہے کہ آپ تجزیوں اور تبصروں سے گریز کریں بلکہ آپ کو میزبانوں کے ایسے پینل کا حصہ ہی نہیں بننا چاہیے، خاص طور پر حامد میر جیسے صحافی سے اس کی ضرور توقع کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے، کیونکہ وہ شہرت کے اس مقام پر ہیں جہاں ٹی وی میزبانوں کو “اسکرین کا ہوکا “بالکل نہیں ہوتا، لیکن افسوس کہ حلقہ این اے 120 کی الیکشن کوریج کے دوران میر صاحب خود کو دور نہ رکھ پائے، حالانکہ پوری قوم جانتی تھی کہ یہاں conflict of interest کا معاملہ تھا، ان کے سگے بھائی فیصل میر پیپلزپارٹی کی طرف سے انتخاب لڑ رہے تھے۔

چلیے مان لیتے ہیں یہ ادارے کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ ۔ لیکن پھر میر صاحب کو چاہیے تھا کہ اپنے تجزیوں اور تبصروں میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے لیکن دانستہ یا نادانستہ ایسا نہ ہو سکا۔ شاید میر صاحب کو اس بات کا احساس نہ ہوا ہو لیکن انہیں دیکھنے اور سننے والوں نے ان کی جانبداری کو شدت سے محسوس کیا۔ بعض اوقات وہ اپنے بھائی کے سیاسی مخالفین کے خلاف بات کرتے ہوئےجذبات کی رو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے کہ ان کے پیشہ ورانہ فرائض سمیت ان کا صحافی بہت پیچھے رہ جاتا۔ مثلاً ایک موقع پر انہوں نے حلقے میں موجود اپنی رپورٹر سے سوال کیا کہ” سنا ہے بخار میں مبتلا شخص بھی ووٹ دینے آیا ہے، آپ نے پوچھا ہے، اسے یہ بخار کہیں گندا پانی پینے کی وجہ سے تو نہیں ہوا ؟” حامد میر جیسے شخص سے اس طرح کے جملوں کی توقع نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ہر ٹی وی چینل ووٹ دینے کے عمل کی ترغیب دیتا ہے، جس میں خود ان کا اپنا ادارہ بھی پیش پیش ہے، خاص طور پر بیمار اور معذور افراد کے ووٹ دینے کے عمل کو پوری دنیا میں سراہا جاتا ہے مگر میر صاحب کا یہ جملہ ووٹ دینے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے مترادف تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان کے بھائی خود امیدوار نہ ہوتے تو میر صاحب کی زبان سے کبھی ایسے الفاظ بھول کر بھی نہ نکلتے جو سیاسی پروپگینڈے کا تاثر دیتے ہوں۔

پھر یہ بات بھی ہر کسی نے محسوس کی کہ پینل میں شامل ان کے دیگر ساتھی اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے سے ہچکچا رہے تھے، خاص طور پر پیپلزپارٹی کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے تمام ساتھی محتاط تھے، صاف نظر آرہا تھا کہ وہ ایسا کوئی تجزیہ یا تبصرہ نہیں کرنا چاہتے جس میں میر صاحب کی ناراضی یا ناپسندیدگی کا احتمال ہو حالانکہ سب جانتے تھے کہ لاہور میں پیپلزپارٹی کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ اگر کبھی ادھر ادھر سے پیپلزپارٹی کی سندھ میں خراب کارکردگی کا تذکرہ آ بھی جاتا تو میر صاحب کے چہرے پر تفکرات صاف نظر آ جاتے، وہ موضوع بدلنے کی کوشش کرتے، انہیں شاید لگتا تھا کہ ایسی باتوں سے ممکنہ طور پر ان کے بھائی کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے۔ جہاں تک این اے ایک سو بیس میں گندے پانی کی بات ہے تو میر صاحب سے کہتا ہوں کراچی سمیت سندھ کے کسی شہر کا چکر لگا لیں، گندگی، بدنظمی اور بدانتظامی کے علاوہ کچھ اور ڈھونڈ کر دکھا دیں۔ کوئی ایک ہفتے پہلے میں خود حلقہ این اے ایک سو بیس سمیت لاہور گھوم کر آیا ہوں،جس شہر کو میں نے دیکھا مجھے تو وہ اس سے بالکل مختلف لگا جس کی تصویر میر صاحب دکھانے کی کوشش کر رہے تھے،خدا گواہ ہے، لاہور کا بڑا علاقہ کسی ترقی یافتہ ملک کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ میر صاحب کو کون بتائے کہ گزشتہ آٹھ برس سے کراچی والوں پر جو بیت رہی ہے،اس سے تو چیچو کی ملیاں کے رہائشی بھی شاید زیادہ سکھی ہوں گے۔ میری دعا ہے کہ پیپلزپارٹی فیصل میر کو کبھی کراچی سے امیدوار کھڑا نہ کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میر صاحب بھائی کی محبت میں “کچراچی” بنے کراچی کو پیرس ثابت کرنے پر تل جائیں۔ یقین کریں یہ سب کچھ آپ پر سوٹ نہیں کرتا۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).