علماء، فتوے اور عورت


خواتین کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جو صنفی امتیاز برتا جاتا ہے، اس میں سب سے بڑا کردار ان علماء کا ہے جو مختلف مذہبی حوالوں کو خواتین کے لئے معاشرے میں برابری کی سطح پر کوئی بھی کردار ادا کرنے کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آج ہمیں جو کافی حد تک تبدیلی نظر آتی ہے، ماضی قریب میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ اس سلسلے میں مختلف مذہبی جماعتوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے ماضی قریب کے چند علماء کے فتاویٰ پیشِ خدمت ہیں، جنہیں آج ان کے نام لیوا اور ماننے والے بھی بیان کرنے اور تسلیم کرنے سے معذور ہیں۔

1) مشہور اہل حدیث عالم و مفتی ثناء اللہ مدنی فرماتے ہیں: “اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت قصاص و حدود میں گواہی نہیں دے سکتی تو پھر وہ جج کیسے بن سکتی ہے؟ “فتح الباری 266/5” میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جج کے لئے مرد ہونا شرط ہے سوائے حنفیہ کے، انہوں نے حدود کو مستثنیٰ قرار دیا ہے (کہ یہ مرد کے ساتھ مخصوص ہیں۔ البتہ مالی معاملات میں حنفیہ کے نزدیک عورت کی قضاء جائز ہے) اور ابن جریر کے نزدیک علی الاطلاق جواز ہے۔ جمہور کی دلیل صحیح حدیث ہے کہ جو قوم اپنے معاملات کا ذمہ دار عورت کو بنا دے وہ ناکام ہے۔ اور اس لئے بھی کہ جج کو کمال رائے کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ عورت کی رائے ناقص ہے بالخصوص مردوں کی محافل میں۔”
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ، ج1 ص257-256)

ویسے تو پورا فتویٰ ہی تشریحی فقاہت کا شاہکار ہے لیکن یہ الفاظ تو سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں کہ “عورت کی رائے ناقص ہے بالخصوص مردوں کی محافل میں۔” سبحان اللہ

2) ایک اور اہل حدیث عالم مفتی عبید اللہ عفیف فتویٰ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: “عورت اپنی فطرت اور جبلت کے لحاظ سے نہ تو یہ حکومت کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے اور نہ حکومت اس کے بس کا روگ ہے۔ یہ تو بس بچوں کی تولید و تربیت (یعنی صرف بچے پیدا کرنے اور ان کی تربیت کرنے) اور گھر کی زیب و زینت کے لئے پیدا ہوئی ہے۔”
(فتاویٰ محمدیہ، ص417)

موصوف کا شرعی نقطہ نظر تو اپنی جگہ مگر آنجناب کا عورتوں کے بارے ‘حکیمانہ و مشفقانہ’ انداز بیان خصوصی قابل غور ہے۔ یاد رہے کہ اس فتاویٰ کے سرورق پر جلی حروف سے “منہج سلف صالحین کے مطابق” لکھا گیا ہے۔

3) بریلوی جماعت کے ہاں صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں: “لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھانا اچھا ہے۔” (فتاویٰ امجدیہ، ج4 ص249) ایک اور جگہ مفتی صاحب فرماتے ہیں: “اس میں احتیاط یہی ہے کہ عورتوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے خصوصاً اس پُر آشوب زمانہ میں۔”
(فتاویٰ امجدیہ، ج4 ص252)

اس فتاویٰ کے حاشیہ پر اس کی وجہ کچھ یوں بیان ہوئی ہے: “چونکہ عورتوں کے کتابت (لکھنا) سیکھنے میں فتنہ کا احتمال ہے کہ وہ خط و کتاب کے ذریعے غیروں سے رسم و راہ کر سکتی ہے۔” (حوالہ ایضاً)

4) مرکزی دارالافتاء بریلی شریف سے جاری ہونے والے فتویٰ میں بھی کہا گیا: “عورتوں کو دینی تعلیم دینا فرض ہے اور لکھنا سیکھنا سکھانا مکروہ ہے۔”
(فتاویٰ بریلی شریف، ص286)

5) بریلوی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی فرماتے ہیں: “عورتوں کو لکھنا سکھانا شرعاً ممنوع و سنت نصاریٰ و فتح باب ہزارانِ فتنہ اور مستان سرشار کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے، جس کے مفاسد شدیدہ پر تجارب حدیدہ شاہد عدل ہیں۔”
(فتاویٰ رضویہ، ج23 ص653)

آسان زبان میں عرض ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں عورتوں کو لکھنا سکھانا شرعی طور پر ممنوع ہے کیونکہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے اور ہزاروں فتنوں کے کھل جانے کا دروازہ ہے، جس کے اور بھی کئی شدید نقصانات ہیں۔

یہی اعلیٰ حضرت بریلوی خواتین کے بارے میں زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “عورت موم کی ناک بلکہ رال کی پُڑیا بلکہ بارود کی ڈبیا ہے۔۔۔۔ عقل بھی ناقص اور دین بھی ناقص اور طینت میں کجی اور شہوت میں مرد سے سو حصہ بیشی اور صحبت بد کا اثر مستقل مردوں کو بگاڑ دیتا ہے، پھر ان نازک شیشوں کا کیا کہنا جو خفیف ٹھیس سے پاش پاش ہو جائیں۔”
(فتاویٰ رضویہ، ج22 ص213-212)

عورتوں کے بارے اتنے شاندار القاب و اعزازات کسی ایک جگہ شاید ہی اکٹھے مل سکیں جو ہمارے ماضی قریب کے علماء کے ذہن میں موجود عورت کا وہ صحیح مقام و مرتبہ اجاگر کرتے ہیں جو مغربی افکار کے زیر اثر آج مسموم ہو چکا ہے۔

6) دیوبندی جماعت کے قطب الارشاد مفتی رشید احمد گنگوہی فتویٰ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “اس زمانے میں تعلیم کتابت (یعنی لکھنا سکھانا) عورتوں کو مکروہ ہےتحریماً بے شک۔۔۔۔۔ اور بالغہ مرد نا محرم بالغ سے بے حجاب ہونا اگرچہ تعلیم و کتابت کے واسطے ہو حرام ہے اور منع کرنا عورتوں کو ایسے کام سے ضرور ہے۔”
(باقیات فتاویٰ رشیدیہ، ص403)

یاد رہے کہ اس مجموعہ فتاویٰ کے شروع میں کئی دیوبندی علماء سمیت مفتی تقی عثمانی کی توثیق بھی درج ہے۔ (ص51)

7) دارالعلوم حقانیہ سے جاری ہونے والے ایک فتویٰ میں کہا گیا: “عورتوں کی گواہی میں بدلیت کے شبہ کا احتمال ہے، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کی گواہی حدود کے نفاذ میں معتبر نہیں۔”
(فتاویٰ حقانیہ، ج5 ص500)

8) دیوبندی جماعت کے فقیہ العصر مفتی رشید احمد لدھیانوی فرماتے ہیں: “عورت کے لئے ووٹ استعمال کرنا اور انتخابات میں حصہ لینا جائز نہیں، خواتین کو کسی عہدہ کے لئے تجویز کرنا گناہ ہے۔”
(احسن الفتاویٰ۔ ج8 ص31)

خواتین کی تعلیم پر مفتی موصوف فرماتے ہیں: “عورت کو عصر حاضر کے کالجوں، یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوانے میں کئی مفاسد ہیں، خواہ لڑکیوں کا لڑکوں سے اختلاط نہ بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔”
(احسن الفتاویٰ۔ ج8 ص33)

مخلوط تعلیم نہ بھی ہو تو کالج یونیورسٹی میں عورتوں کی تعلیم سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں، ان میں مفتی صاحب کے نزدیک
٭ یہ عورتوں کا شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے نکلنا ہے جو کہ غیروں کو ان کی جانب کھینچتا ہے۔
٭ بُرے مزاج کی دوسری عورتوں سے میل ملاپ ہوتا ہے جس سے کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
٭ بے دین عورتوں سے تعلیم حاصل کرنے سے ایمان، اعمال اور اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں۔
٭ بے دین عورتوں کے سامنے پردہ نہیں کیا جاتا جبکہ شریعت نے تو فاسقہ عورتوں سے بھی پردے کا حکم دیا ہے۔
٭ کافر اور بے دین قوموں کی نقالی کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
٭ اس تعلیم سے دنیاوی حب مال و جاہ بڑھتی ہے جس سے دنیا آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔
٭ شوہر کی خدمت، بچوں کی تربیت اور گھر کی دیکھ بھال، صفائی وغیرہ جیسی فطری اور بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت پیدا ہوتی ہے۔
٭ اس تعلیم کے بعد دفتروں میں ملازمت اختیار کی جاتی ہے جو دین دنیا دونوں کی تباہی ہے۔
٭ عورتوں کی ایسی تعلیم سے مردوں پر ذریعہ معاش تنگ ہو جاتا ہے۔
٭ شوہر پر حاکم بن جاتی ہیں۔

قصہ مختصر کہ مفتی صاحب کی نظر میں کالج یونیورسٹی سے پڑھ کر عورت ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ چنانچہ ان جیسے بہت سے مفاسد کے پیشِ نظر آخر فتویٰ میں فرماتے ہیں: “اس لئے عصرِ حاضر کے تعلیمی اداروں میں عورتوں کو تعلیم دلانا جائز نہیں۔”
(احسن الفتاویٰ، ج8 ص34)

خواتین کے حوالے سے جب یہ سب جائز نہیں تو ان کو کیا کرنا چاہئے اور ان کے کرنے والے کام کیا ہیں؟ اس ضمن میں مشہور دیوبندی عالم حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے چند اقتباسات سے ایمان تازہ کرنا فائدے سے خالی نہ ہو گا۔ چنانچہ حکیم الامت تھانوی عورتوں کو شوہروں کے حقوق پر نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“ایک حق اس کا یہ ہے کہ اپنی صورت بگاڑ کر میلی کچیلی نہ رہا کرے بلکہ بناؤ سنگھار سے رہا کرے۔ یہاں تک کہ اگر مرد کے کہنے پر بھی عورت سنگھار نہ کرے تو مرد کو مارنے کا اختیار ہے۔”
(بہشتی زیور، حصہ پنجم، ص234، توصیف پبلی کیشنز)

مزید فرماتے ہیں: “جہاں تک ہو سکے میاں کا دل ہاتھ میں لئے رہو اور اس کی آنکھ کے اشارے پر چلا کرو۔ اگر وہ حکم کرے کہ رات بھر ہاتھ باندھے کھڑی رہو تو دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ دنیا کی تھوڑی سی تکلیف گوارا کر کے آخرت کی بھلائی اور سرخروئی حاصل کرو۔ کسی وقت کوئی بات ایسی نہ کرو جو اس کے مزاج کے خلاف ہو اگر وہ دن کو رات بتلائے تو تم بھی دن کو رات کہنے لگو۔”
(بہشتی زیور، حصہ پنجم، ص234)

حکیم الامت عورتوں کو ان کے شوہروں کے بارے مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “کسی بات پر تم سے خفا ہو کر روٹھ گیا تو تم بھی منہ پھلا کر نہ بیٹھ رہو بلکہ خوشامد کر کے عذر معذرت کر کے ہاتھ جوڑ کے جس طرح بنے منا لو چاہے تمھارا قصور نہ ہو، شوہر ہی کا قصور ہو تب بھی تم ہرگز نہ روٹھو اور ہاتھ جوڑ کر قصور معاف کرانے کو اپنا فخر اور اپنی عزت سمجھو۔”
(بہشتی زیور، حصہ پنجم، ص235)

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں ہمارے ماضی قریب کے بڑے بڑے علماء کی ذہنی سطح صرف اسی قسم کے مسائل سے ہم آہنگ تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرا علماء کے خواتین کے بارے فتاویٰ و رویہ میں کافی بہتری آئی ہے۔ خصوصاً درج بالا فتاویٰ جات میں خواتین کے بارے جو تحقیر آمیز رویہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اسے آج کے دور میں اپنانا خود انہی علماء کے ماننے والوں کے لئے بھی شاید ممکن نہیں۔

اسلامی معاشروں کی خواتین حتیٰ کہ خود مذہبی و دینی گھروں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی اب ان مسائل و احکامات کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں جو انہیں محض بچے پیدا کرنے اور شوہروں کی بے دام لونڈی بننے تک محدود کئے ہوئے تھے۔ خواتین سے متعلقہ وہ مسائل جنہیں کبھی حرام و ناجائز اور مکروہ سمجھا جاتا تھا اور جن معاملات کو کرنے سے دینی و مذہبی دھونس کے سہارے روکا جاتا تھا، آج ان سب میں مسلمان خواتین آگے بڑھ کر اپنا حصہ وصول کر رہی ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ آنے والے دور میں وہ مسائل بھی وقت کی دھول بن جائیں گے جنہیں آج بھی صنفی امتیاز کے تحت مذہبی لبادوں میں پیش کر کے عورتوں کو ہر میدان میں اپنا بھرپور مئوثر کردار ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).