مریم نواز کا ناشکرا پن


خدا خدا کر کے این اے 120 کا الیکشن تما م ہوا۔ نتائج کچھ ایسے حیران کن نہیں سامنے آئے۔کلثوم نواز چودہ ہزار ووٹوں سے الیکشن جیت گئیں۔ دوسرے نمبر پر حسب توقع پی ٹی آئی کی یاسمین راشد ہیں جنہوں نے سینتالیس ہزار ووٹ حاصل کئے۔ ووٹوں کی برتری اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ توقع تھی۔یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ ماناجاتا ہے اور مدتوں سے کبھی ن لیگ نے یہاں سے کوئی الیکشن نہیں ہارا ۔ یہ نشست سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ عمران خان نے الیکشن سے پہلے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ یہ انتخاب کرپٹ حکمرانوں کے خلاف جہاد ہے ۔ مزید انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ عوام کو چاہئے کہ عدلیہ کے حق میں ووٹ دیں جس سے کچھ لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید فاضل عدلیہ بھی ایک امیدوا رکی حیثیت سے اس حلقے میں انتخاب لڑرہی ہے۔ ان کو بھی کوئی انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔ ان کی بھی کوئی کمپین کی گئی ہے اور ان کو بھی ووٹ ڈالنے ہیں۔ عمران خان کو شاید یہ بات یاد نہیں رہی کہ اس ملک کی عدالتیں اس طرح کی گلی محلے کی سیاست کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتیں۔ وہ انصاف کے اصول پر چلتی ہیں تحریک انصاف کے قواعد پر نہیں۔

یہ پہلا حلقہ تھا جس کے انتخاب میں فاتح کی اہمیت نہیں تھی۔ سب کی نظریں برتری پر تھیں۔ کتنے ووٹوں سے انتخاب جیتا؟ کم برتری سے مراد یہ لی جانی تھی کہ عوام نے یہ مان لیا نواز شریف ایک کرپٹ حکمراں ہیں۔ انہوں نے ملک کا پیسہ کھایا ہے۔ غریب عوام کی جیبیں لوٹی ہیں۔ یہ ڈاکو ہیں، ظالم ہیں اور چور لٹیرے وغیرہ وغیرہ ہیں۔ زیادہ ووٹوں سے جیت کا مطلب یہ ہوتا کہ عوام نے اپنے اس بیانیے کو نہیں مانا ۔ ان کے مطابق نواز شریف ہی جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ خفیہ ہاتھ انکی نااہلی کی وجہ بنے ہیں۔ ان کو ایک سازش کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہے۔

الیکشن مہم کا ماجرا بھی مزے کا ہے۔ یاسمین راشد صاحبہ کے ساتھ عوام اتنی شدومد سے مہم میں شریک نہیں ہوئے جتنے زیادہ ووٹ ان کو پڑ گئے ہیں۔ عمران خان نے ایک جلسہ کیا اور ایک ریلی نکالی جس میں ہزار افراد سے زیادہ لوگوں نے شرکت نہیں کی۔ عوام کی عدم دلچسپی پی ٹی آئی کی مہم میں بڑی واضح تھی۔ مریم نواز نے اپنی مہم بڑی بھرپور کی۔ انہوں نے ہر یونین کونسل کا دورہ کیا۔ کارکنوں کو متحرک کیا۔ الیکشن کےدن تک کارکنوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ حالانکہ ان کو کچھ بڑی واضح دشواریاں پیش تھیں۔ ایک تو جس پارٹی کی وہ مہم چلا رہی تھیں اسکے سربراہ کو حال ہی میں کرپشن کے جرم میں نا اہل قراردیا گیا تھا۔ حسن اتفاق سے وہ پارٹی سربراہ انکے والد بھی ہیں ۔ اصل امیدوار بیگم کلثوم نواز تھیں جو علالت کی وجہ سے ملک میں نہیں تھیں اور ایک دفعہ بھی حلقے کا دورہ نہیں کر سکیں۔ پنجاب حکومت نے اس طرح کھل کر مریم نواز کی مدد نہیں کی جس طرح کے الزامات لگائے گئے۔ شہباز شریف اینڈ کمپنی سے سوائے ایک مبارک باد کی ٹوئٹ کے کوئی مدد نہیں ملی۔ مریم نواز نے قریباَ تنہا یہ مہم چلائی اور چودہ ہزار کی برتری حاصل کی۔ جو کہ سچی بات ہے کہ اتنی زیادہ برتری نہیں ہے۔

قریباَ ہر ٹی وی اینکرنے ریٹنگ کے چکر میں الیکشن سے پہلے حلقے سے لائیو پروگرام کئے ۔ کسی بھی اینکر کو پی ٹی آئی کے سپورٹر نہ مل سکے۔ ہر طرف شیر کی دھاڑ سنائی دے رہی تھی۔بلے کا ذکر خال خال بھی نہیں تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ پی ایم ایل ن اس حلقے سے ایک واضح برتری حاصل کرے گی اور پی ٹی آئی کو عبرت ناک شکست ہو گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔انتخابی نتائج کے مکمل ہونے پر دونوں پارٹیز کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگے۔ یاسمین راشد صاحبہ نے الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کا عندیہ دیا اور فتح پانے کے باوجود مریم نواز نے بھی ناشکری کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ خفیہ ہاتھوں کا ذکر کیا۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اس حلقے میں چند ایک ایسی پراسرار حرکتیں ضرور ہوئی ہیں جن سے دھیان خفیہ ہاتھوں کی جانب جا سکتا تھا لیکن مریم نواز کو پھر بھی ناشکری نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ بات درست ہے کہ جس حلقے میں پی ٹی آئی کا کارکن خال خال ہی نظر آتا تھا وہاں اچانک دو دن پہلے پی ٹی آئی کے دفتر سج گئے اور اجنبی لوگوں نے خان صاحب کے پوسٹروں تلے اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس حلقے میں جانے کس کے ایما پرچوالیس لوگوں نے کاغذات نامزادگی داخل کرائے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ پانچ ، پانچ ، دس ، دس ووٹ لینے والوں نے بھی ووٹ کو تقسیم کیا۔ بقول رانا ثنا اللہ ان میں سے تیس کا تعلق ایک ہی پارٹی سے تھا۔ چوالیس نشانات میں سے اپنی پسند کے امیدوار کے انتخابی نشان کو تلاش کرنے میں ووٹرز کو دشواری پیش آئی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جلدی میں ملی مسلم لیگ کا ایک امیدوار الیکشن میں کھڑا کیا گیا جس نے پانچ ہزار سے زیادہ ووٹ لئے۔ یہ وہ جماعت ہے جو الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں ہے اور اسکے پوسٹرز پر پاکستان کی کالعدم تنظیم کے سربراہوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ایک اور مذہبی فرقے کے امیدوارنے اچانک اینٹری ڈال کر سات ہزار سے زیادہ ووٹ توڑ دیئے۔ یہ بات بھی درست ہے الیکشن سے پہلے یو سی چیئرمینوں پر ریڈ کیا گیا انکے چہروں پر سیاہ نقاب ڈالے گئے اور انکو دھمکیاں دی گئیںاور الیکشن والے دن ان چیئر مینوں اور انکے خاندان کے کسی فرد کا چہرہ بھی پولنگ اسٹیشن پر نظر نہیں آیا۔ سادہ لباس میں لوگ ان کے گھروں اور گھر والوں کی نگرانی کرتے رہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ووٹنگ میں جان بوجھ کر سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے تساہل کا مظاہرہ کیا گیا۔ سیکورٹی کا کام صرف تحفظ تھا مگر انہوں نے ہر شخص سے نہ صرف کئی کئی دفعہ شناختی کارڈ مانگے ،ووٹ کی تصدیق کی بلکہ شماریاتی نمبر، گھرانہ نمبر اور ب فارم تک طلب کیا گیاجو کہ ان کا کام نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے ایک ووٹ کے پڑنے میں کئی کئی منٹ لگ گئے۔ حالانکہ تصدیقی عملہ پولنگ ا سٹیشن میں تصدیق کے لئے ہی موجود تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ن لیگ کے ووٹروں کو کئی جگہ پریشان کیا گیا۔ خواتین کے ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے پولنگ ا سٹیشن تک دوڑیں لگوائی گئیں۔ یہ بات بھی درست ہے جن ووٹرز کے پاس پی ٹی آئی کی پرچی تھی انکے ووٹ جلد از جلد کاسٹ کروائے گئے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بار بار درخواست کے باوجود پولنگ کا وقت نہیں بڑھایا گیا جو عموماََ بڑھا دیا جاتا ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس احسن اقدام کو پی ٹی آئی نے فورا سراہا۔ حالانکہ کسی بھی جمہوری جماعت کو زیادہ ووٹ پڑنے کی خوشی ہونی چاہئے تھی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پانچ بجے سے پہلے کچھ لوگوں نے ٹریفک میں رخنے ڈالنے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے دس سے بارہ ہزار ووٹ پڑنے سے رہ گئے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ میڈیا کے کارڈ ہونے کے باوجود کسی بھی رپورٹر کو باقاعدہ اجازت نامہ ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کی اجازت نہیںدی گئی۔ یہ بات بھی درست ہے ووٹنگ کے عمل میں تعطل اور اور الیکشن کمیشن کے پولنگ میں وقت کانہ بڑھانے اور پی ٹی آئی کے وقت نہ بڑھانے کی حمایت کی وجہ سے بہت سے لوگ کڑیوں سے کڑیاں ملا رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کلثوم نواز چودہ ہزار ووٹ سے جیت گئیں۔جیتنے کے بعد مریم نواز نے مبینہ خفیہ ہاتھوں پر الزام لگا کر جو ناشکری کی ہے وہ غیر مناسب تھی۔

مریم نواز کو تو الٹا شکر گزار ہونا چاہئے تھا۔ انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے تھا کہ جو لوگ قائد اعظم، محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دے سکتے ہیں۔ جو جونیجو جیسے شریف النفس انسان پر کرپشن کے الزامات لگا سکتے ہیں ۔ جو بھٹو کو پھانسی پر لٹکا سکتے ہیں ، جو منتخب جمہوری وزراء اعظموں کو وطن بدر کر سکتے ہیں ، جو الطاف حسین کو لیڈر بنا سکتے ہیں، جو عمران خان کے دھرنے کروا سکتے ہیں جو جے آئی ٹی بنوا سکتے ہیں ، جو حسین نواز کی تصویر لیک کروا سکتے ہیں ،ان کے لئے ایک چھوٹا سا الیکشن جیتنا کیا ہی مسئلہ ہو سکتا ہے؟ پچاس ، ساٹھ ہزار ووٹ کو توڑنا کیا ہی مشکل ہو سکتا ہے؟یہ جو ووٹ مل گئے ہیں یہ ان ہی کی مہربانی ہے ، ورنہ تو اس ملک میں کیا نہیں ہوتا۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar