کہیں تو کوئی سچ چھپا ہوا ہے


آخر کار قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو بیس میں ضمنی انتخابات بھی ہو گئے، نواز شریف کے نا اہل قرار پانے کے بعد مسلم لیگ ن نے ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو اس سیٹ پر نامزد کیا، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے حق یا مخالفت میں ہونے والے ریفرنڈم سے تشبیہ دے ڈالی، میرے نزدیک ایسا کرنا دونوں جماعتوں کی ایک بڑی غلطی تھی، سیاست میں عدالتوں کے فیصلوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعما ل کر ناغلط روایت ہے۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے، سیاستدانوں کو یہ کسی صورت زیب نہیں دیتا کہ وہ عدالت عالیہ کے فیصلوں کے حق یا مخالفت میں اپنی انتخابی مہم چلائیں، اس قسم کے اقدامات سے کوئی خاطر خواہ فائدہ بھی نہیں ہوتا، مثال کے طور پر مسلم لیگ ن یہ سیٹ جیت تو ضرور گئی ہے لیکن ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں کافی کم ہوا ہے، اور یہ با ت بھی مسلم لیگ ن کے لئے قابل توجہ ہو گی کہ 2013 کے انتخا با ت میں یا سمین را شد نے 17 پو لنگ اسٹیشنز پر برتری حا صل کی تھی جبکہ اس انتخا ب میں یہ 48 پو لنگ اسٹیشن سے کا میاب ہوئیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر نے پانامہ فیصلے کی روشنی میں اس بار مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں دیا؟

بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے باعث ان کی کمپین انکی بیٹی مریم نواز نے چلائی، مریم نواز اس سے قبل بھی دو ہزار تیرہ میں والد کی انتخابی مہم چلا چکی تھیں اس لئے کسی سینئر رہنما کی غیر موجودگی میں انہوں نے کافی احسن طریقے سے سیاسی مہم کی لیکن یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہو گی کہ ضمنی انتخا ب میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ کافی کم رہا حالانکہ حلقے میں دو خوا تین کی جا نب سے بھرپور کمپین چلائی گئی تھی، یاسمین راشد نے دو ہزار تیرہ کی طرح اس مرتبہ بھی جس محنت اور لگن کامظاہرہ کیا وہ متا ثر کن ہے، اگر لاہور میں کسی علاقے کو مسلم لیگ ن کا گڑھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہی علاقہ ہے، ایسے میں پھر سے47,099 ووٹ لے جا نا یاسمین راشد کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے۔ ان کے سسر کسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اس حلقے پر مشتمل علاقوں سے منتخب ہو چکے ہیں، افسوس کہ اس الیکشن نے ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چاہنے والوں کے دل توڑ دیئے، ایک ایسی پارٹی جس کی بنیاد ہی لاہور شہر میں رکھی گئی تھی وہ اس بار چودہ سو چودہ ووٹ حاصل کر پائی، دو ہزار آٹھ میں میرے دوست جہانگیر بدر مرحوم نے اسی حلقے سے اٹھائیس ہزار ووٹ لئے تھے، لیکن اب شاید پیپلز پارٹی کا پرانا ووٹر بھی پارٹی سے بددل ہو کر یا تو پی ٹی آئی کا ہو گیا ہے یا پھر گھر بیٹھ گیا ہے۔اس حوا لے سے میری ذاتی را ئے؛

Sad demise of my first love ………..PPP……….born in Lahore died in Lahore………(1967-2017)

اس کے سا تھ ہی قو م کو اسلامی فکری غذا فراہم کر نے والی جماعت اسلامی بھی صاف ہو کر رہ گئی ہے جس کو 57 پو لنگ اسٹیشنز سے کو ئی ووٹ نہیں ملا۔ اس الیکشن میں دو اور ایسی قوتیں ہیں جنہوں نے اس ضمنی انتخاب سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا ہے، تاحال انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر نہیں کیا گیا، ان میں سے ایک ملی مسلم لیگ ہے اور دوسری جماعت تحریک لبیک پارٹی ہے، ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار نے اس الیکشن میں5,822   ووٹ حاصل کئے ، جب کہ لبیک پارٹی نے 7,130 ووٹ حاصل کئے، دونوں جماعتوں نے اگرچہ مختلف پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا لیکن دونوں نے ہی مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی مخالفت کو اپنی مہم کا اہم جزو بنایا، جہاں ملی مسلم لیگ نے بھارت کے ساتھ بہتری کے خواہاں سابق وزیر اعظم کو مودی کا یار قرار دیتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگے، وہیں لبیک پارٹی نے بھی سلمان تاثیر قتل کیس میں سپریم کورٹ سے سزائے موت کا حکم برقرار رکھے جانے کے بعد پھانسی پر چڑھائے جانے والے ممتاز قادری کے نام پر ووٹ مانگے، بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق ان دونوں امیدواروں کو ملنے والے ووٹ دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کو ملے تھے، اگرچہ اس بات کو ثابت کرنے کا کوئی سائنٹفک طریقہ موجود نہیں ہے، لیکن اگر ہم دو ہزار تیرہ اور اس الیکشن میں ووٹوں کے تناسب کو مدنظر رکھیں تو شاید یہ نکتہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے،اس بار دونوں امیدواروں نے دس فیصد ووٹ حاصل کئے ،مسلم لیگ کے دو ہزار تیرہ اور اب کے نتائج میں فرق بھی تقریبا دس فیصد کا ہی ہے۔

اگر آنے والے انتخابات میں بھی ان دونوں جماعتوں نے پنجاب کے مختلف حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر دئیے تو یقیناَ مسلم لیگ ن کے لئے کا فی مشکلات جنم لیں گی، اس سلسلے میں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ چونکہ دو ہزار تیرہ میں پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والا ووٹ اب مزید بڑھتا نظر نہیں آتا اسی لئے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹوں کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لئے ان جماعتوں کو میدان میں اتارا گیا ہے، اس تھیوری کے مطابق یہ دونوں جماعتیں ہر حلقے میں مسلم لیگ کے ووٹ بینک سے تقریباََ پند رہ سے بیس ہزار ووٹ کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی جس کے بعد بہت سی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف اور پا کستا ن پیپلز پا رٹی کے امیدواروں کے لئے آسانی پیدا ہو جائے گی، اب یہ تھیوری کس حد تک درست ہے یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے،لیکن کہیں تو کو ئی سچ اس میں چھپا ہو ا ہے ۔

اس انتخاب میں یہ با ت بھی واضح طور پر سا منے آئی ہے کہ ہم اپنے اجتما عی مسائل حل کر نے کے لئے تنقید تو بہت کرتے ہیں مگر ذاتی فا ئدہ لینے کے بعد اس سے لا تعلق ہو جا تے ہیں یہ عمل افسو سنا ک ہے ہر آنے وا لے دن کے سا تھ سیاست میں”نظر یہ” بے معنی ہو تا جا رہا ہے چپراسی، کلرک، مالی، چھوٹے تھانے دار کی تعینا تی کروانا، سٹرکوں گلیو ں پر ناجائز تجاوزات بنانا، چھوٹے بڑے ٹھیکے لینا، ٹیکس ادا نہ کر نا ،زمین پر نا جائز قبضہ کرنا، مٹی ریت کی چوری ہی ”نظر یہ” کی جگہ لے چکی ہے ۔مقا می غنڈے قمار با زی کے اڈو ں کے نگرا ن اور تما م غیر آئینی ،غیر قانونی کا م کرنے والے برسر اقتدار پا رٹی کے سا تھ  beneficiaryبن چکے ہیں اور بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو سا تھ لے کر سیاست کی جائے۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad