نئے دیوانے کہاں ہیں


ہم بصد افسوس سوچ رہے ہیں کہ مسعود اشعر کے طعنے کے بعد ہمارے کہے کی کیا قیمت رہ گئی ہے۔ انھوں نے کتنے فاتحانہ انداز میں یاروں کو بتایا ہے کہ انتظار حسین نے جو جو کہا وہ سب غلط نکلا۔ اس نے کہا تھا کہ حلقۂ ارباب ذوق کا زمانہ گزر گیا‘ مگر دیکھ لو کہ حلقہ کس شان سے چل رہا ہے۔ سال کے سال کس دھوم سے الیکشن ہوتے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ وہ زمانہ اور تھا جب ٹی ہاؤس نے رونق پکڑی تھی۔ اور اب زمانہ اور ہے۔ ٹی ہاؤس اب نہیں چلے گا۔ رات گئی بات گئی۔ مگر دیکھ لو ٹی ہاؤس پھر کھل گیا۔

مسعود اشعر نے صحیح کہا۔ ہم اپنے کہے پر شرمندہ ہیں۔ پاکستان میں چلنے نہ چلنے کا احوال عجب ہے۔ جس مال کو نہیں چلنا چاہیے وہ چل جاتا ہے۔ جسے چلنا چاہیے وہ نہیں چل پاتا۔ سیاسی لیڈروں کو دیکھو ان کی لیڈری خوب چلتی ہے۔ جو پارٹی بناتے ہیں وہ بھی خوب چلتی ہے۔ بس نہیں چلتی تو جمہوریت نہیں چلتی۔ اس پر ایک یار بولا کہ برادر جمہوریت ہے کہاں جو چلے۔ اس پر ہمیں ایک شعر یاد آیا؎
صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے
کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے

پاکستان میں جمہوریت کا احوال بھی صنم کی کمر کا سا ہے۔ اردو غزل میں صنم کی کمر کے قصیدے بہت پڑھے گئے ہیں۔ مگر عشاق کو اس کا دیدار نہیں ہو پاتا۔ پاکستانی جمہوریت کا بھی ذکر بہت ہے۔ مگر یہ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے۔
مگر دور کیوں جاؤ۔ اپنے پاکستانی ریلوے کو لے لو۔ یہاں جو افسر اعلیٰ لگ گیا اس کی خوب چلتی ہے۔ مگر ریل گاڑی جسے چلنا چاہیے وہ نہیں چلتی۔ یہی حال ہم نے پی آئی اے کا دیکھا۔ افسران بالا کی اڑان اونچی ہے۔ خود پی آئی اے اب پر قینچ ہے۔ اس کے جہاز خدا خدا کر کے جن مشکلوں سے زمین سے اٹھتے ہیں اس کا احوال انتظار کھینچنے والے مسافروں سے پوچھو۔ لیجیے اس پر ہمیں یاد آیا کہ سوداؔ نے آخری دور مغلیہ کے ایک سوار کے گھوڑے کا حوال لکھ رکھا ہے۔ میدان کارزار میں اس نے جو رنگ دکھایا وہ مختصراً یوں تھا؎

گھوڑا تھا بس کہ لاغر و پست و ضعیف و سست
کرتا تھا یوں خفیف مجھے وقت کارزار
جب دیکھا میں کہ جنگ کی یاں یہ بندھی ہے شکل
لے جوتیوں کو ہاتھ میں‘ گھوڑا بغل میں مار
سرپٹ بھاگا اپنے گھر کی طرف چلا
گھوڑے مرے کی شکل یہ ہے تم نے جو سنی
اس پر بھی دل میں آوے تو اب ہو جئے سوار

کسی ملک کی قوم کی ابتری کا حال معلوم کرنا ہو تو پہلے اس کی سواریوں پر نظر ڈالو۔ اور عبرت حاصل کرو۔ لو بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات پاک ٹی ہاؤس کے دوبارہ کھلنے سے چلی تھی۔ کتنی چہل پہل تھی۔ یار کتنے خوش تھے جیسے سوکھے دھانوں پر کسی نے پانی چھڑک دیا ہو کہ پھر لہلہا اٹھے۔ صحیح رد عمل تھا۔ اس شہر کو‘ نہیں خالی اس شہر کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کی شاداب فضا کو کسی بد نظر کی نظر لگ گئی۔

خیر اس وقت دور کیوں جاؤ۔ خود گزرے دنوں کی مال روڈ کو تصور میں لاؤ۔ ارے ایک ٹی ہاؤس تھوڑا ہی تھا۔ مال روڈ پر بھنگیوں کی توپ سے لے کر چیرنگ کراس تک اور اس سے آگے تک کتنے ریستوران تھے۔ اور ہر ریستوران کا یہ نقشہ دانشوروں کی کوئی ٹولی بیٹھی ہے۔ کوئی پروفیسر‘ کوئی وکیل‘ کوئی صحافی‘ کوئی آرٹسٹ‘ کوئی ادیب اور بحث جاری ہے۔ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جا رہا ہے۔

تب سے اب تک زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ مال روڈ سے ریستوران ایسے معدوم ہوئے جیسے کسی نے جھاڑو دیدی ہو۔ ریستوران کلچر کا بستر لپٹ گیا۔ فوڈ اسٹریٹ کلچر نے اس کی جگہ لے لی۔ مگر فوڈ اسٹریٹ کی فضا اور ہوتی ہے۔ کھانے کی میز پر بیٹھ کر نظر کھانے پر ہوتی ہے۔ وہ جسے انگریزی میں food for thought کہتے ہیں وہ نایاب ہوتا ہے۔ اب جب ٹی ہاؤس کا در جو کتنے برسوں سے بند پڑا تھا دوبارہ کھلا تو یاروں کو مال روڈ کے گئے دن یاد آئے۔

کافی ہاؤس کی‘ ٹی ہاؤس کی‘ شیزان کی رونقیں یاد آئیں۔ مسعود اشعر نے پنجاب کی موجودہ حکومت کو صحیح داد دی۔ ہمارے زمانے کے حکمراں ایسے کاموں کی معنویت کو کتنا سمجھتے ہیں اور کتنی ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر داد میاں حمزہ شہباز کو ملنی چاہیے جنہوں نے سرگرمی سے اس تعمیری مہم کو شروع کر کے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس سے آگے کا جو کام ہے وہ عطاء الحق قاسمی کے کرنے کا ہے۔

وہ کام کیا ہے۔ ہم نے ابھی کہا نا کہ زمانے کا رنگ تب سے اب تک کچھ سے کچھ ہو چکا ہے۔ کہاں ہیں وہ دیوانے جنھیں ادب کے سوا کسی بات کا ہوش ہی نہیں تھا۔ ہم ایسے اب کس گنتی میں ہیں؎
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے

ہمارے رت جگے تو ناصر کاظمی اور مظفر علی سید کے ساتھ رخصت ہو کر قصہ ماضی بن گئے۔ مگر اچھے شہر کبھی دیوانوں سے خالے نہیں رہا کرتے۔ یہیں کہیں مناسب ٹھکانوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں گے۔ یہ جو ابھی پچھلے سالوں میں کراچی اور لاہور میں ادبی فیسٹیول ہوئے اور وہاں کی آرٹ کونسل اور اس شہر کی آرٹ کونسل میں سیمیناروں کے منعقد ہونے پر ادب کے متوالوں کے ہجوم دیکھنے میں آئے وہ چغلی کھا رہے تھے کہ اس شہر کے قحط نے ابھی قحط دمشق کا رنگ نہیں پکڑا ہے۔

یہ ادبی میلے یہ سیمینار ہم سے بہت کچھ کہتے ہیں۔ ادھر کراچی میں اور ادھر لاہور میں جب ایسے کام کے دھنی جیسے احمد شاہ اور عطاء الحق قاسمی نمودار ہوئے تو ان کونسلوں کا رنگ بدل گیا۔ ان سے بڑھ کر کراچی فیسٹیول میں نظم و ضبط کے ساتھ کام انجام دینے کی مثال قائم ہوئی۔ ایک ایک وقت میں کئی کئی سیشن پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ ہر سیشن کا وقت نپا تلا ہے اور کسی بولنے والے کو طول کلام کی کھلی چھٹی نہیں ملی ہے۔ اتنا نظم و ضبط اور ہمارے معاشرے میں۔ ارے ہم نے تو اپنے سیمیناروں میں یہ رنگ دیکھا ہے کہ جو بھلا مانس ایک مرتبہ اسٹیج پر آ کر مائک کے سامنے کھڑا ہو گیا وہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہا۔ اور اسٹیج سیکریٹری کی مجال نہیں کہ اسے احساس دلائے کہ اے بھائی بہت بول لیے بس کرو۔

اور رہا ٹی ہاؤس کا معاملہ تو اس کا اپنا ایک ڈسپلن تھا جو خود رو تھا۔ یہاں ایک نسل کے بعد دوسری‘ دوسری کے بعد تیسری نمودار ہوتی گئی اور ایک ڈسپلن میں ڈھلتی چلی گئی۔ قیوم نظر کی نسل کی اپنی ایک لٹک تھی۔ اس نسل نے مولانا صلاح الدین احمد ایسے بزرگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔
آگے آنے والوں میں ناصر کاظمی اور مظفر علی سید اپنی طرز کے دیوانے تھے رتجگوں کے رسیا‘ آوارہ گردی کی روایات کے پاسبان۔

پھر آگے چل کر افتخار جالب اور اس کے ہمنواؤں نے اپنے جوش جنوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ بھی اپنا راگ الاپ کر تتر بتر ہو گئے۔ لیجیے اختر الایمان کا کیا خوب شعر یاد آیا؎
باقی نہ رہ سکیں گی روایات دشت و در
وہ فتنہ سر گئے جنھیں کانٹے عزیز تھے

بظاہر تو یہی نظر آتا ہے۔ مگر ابھی ہم کہہ رہے تھے کہ زمانہ بیشک افادیت پسندی کے رنگ میں رنگا جائے۔ مگر دیوانوں سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ شناخت والی آنکھ ہونی چاہیے کہ انھیں پہچان سکے۔ اور نئے ٹی ہاؤس میں اتنی کشش ہونی چاہیے کہ وہ خود ہی کھنچے چلے آئیں۔ گزشتہ ٹی ہاؤس نے بھلے زمانے میں دھیرے دھیرے خود ہی نشوونما کی تھی۔ مگر اب زمانہ اور ہے۔ آخر اسے از سر نمود کرنے کے لیے بھی تو صاحب اختیار شخصیتوں کی طرف دیکھنا پڑا۔ شاد آباد ہونے کے لیے بھی وہ ایسی ہی توجہ مانگتی ہے۔
15 مارچ 2013


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).