چوہدری افضل حق، بدقماش وکیل اور بی بی نیک مطلوب۔۔۔۔


آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب بڑے صوبے پنجاب کے وکلا اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ گزشتہ برس سے قانون کی ڈگری رکھنے والے بیشتر افراد سول جج بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں سول ججز کی بھرتی کے لئے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شائع کردہ اشتہار کے خلاف متعدد بار رٹ فائل کی گئی جس کے نتیجے میں سلیبس میں اضافے اور اس میں تبدیلی کے سوا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

آخری مرتبہ ہائی کورٹ میں سول ججز کے امتحان کے لئے سلیبس کے حوالے سے کی جانے والی رٹ کے بعد عزت مآب چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے حکم کے مطابق جنرل نالج اردو ادب اور انگریزی ادب کے تین الگ الگ سو سو نمبر کے سبجیکٹیو پرچوں کو سلیبس کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن میرا مقصد صرف قومی زبان کے پرچے کے سلیبس پر ہی روشنی ڈالنا ہے۔ مذکورہ پرچے میں اردو ادب کے لئے مختص حصے میں نثر کی کتاب ”زندگی“ شامل کی گئی ہے جو جناب چوہدری افضل حق صاحب کی تحریر کردہ ہے۔ اس کتاب میں بقول بیشتر وکلا اخلاقی اسباق پر مشتمل کہانیاں ہیں۔ کتاب کا پہلا باب ”معمہ آفرینش“ ہے، جس میں ایک وکیل صاحب جو کہ مرکزی کردار ہیں کی زندگی کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ کیسے اپنی نیک سیرت بیوی کو چھوڑ کر ان کے یا ہمارے معاشرے کے بقول ایک”غلیظ عورت“ کی زلفوں کے اسیر ہو گئے، جب کنگال ہوئے تو دھتکار دیئے گئے پھر دو اور خواتین کا بھی مبہم سا ذکر ملتا ہے۔ خیر جب سب لٹا پٹا کے گھر لوٹے تو اہلیہ جن کے حسن کی شاید ہی روئے زمین پر کوئی مثال ہو مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کرتی ہے۔ اہلیہ ہیرو صاحب کو آقا اور اے میرے خدائے مجازی کے سوا کسی لقب سے نوازنا شاید گناہ سمجھتی ہوں گی لہذا بارہا ان دو لفظوں کی گردان کرتی نظر آتی ہیں۔ ہیرو صاحب زندگی کی تمام رعنائیوں اور دلفریبیوں کا رس چوس لینے کے بعد اللہ والے بن جاتے ہیں اور بیشتر وقت ذکر خداوندی اور صوم و صلوة میں گزارنے لگتے ہیں تاکہ آخرت سنور جائے۔ آخر میں تو حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ پہروں ہوش و حواس سے بیگانہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں۔

ایک اور اہم نقطہ اس کہانی میں نیک سیرت بی بی شہادت کی موت کے فوائد پر بھی گہری روشنی ڈالتی نظر آتی ہیں۔ معذرت کے ساتھ اس کہانی میں عورت کا کردار محض مرد کی خوشنودی حاصل کرنا اسے جسمانی تسکین دینا اور اس کی آنکھوں کی ہوس کی پیاس بھجانے تک محدود نظر آتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسا امتحان جس میں لڑکے اور لڑکیاں مساوی سطح پر جدوجہد میں مصروف ہیں اس کے لئے سلیبس کا وہ حصہ جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے میں خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ آخر کو عزت ماآب جناب چیف جسٹس صاحب نے مذکورہ کتاب باقاعدہ مطالعے کے بعد ہی سلیبس کا حصہ بنانے کی اجازت عطا فرمائی ہوگی۔ تو کیا ان کی رائے کے مطابق خواتین وکلا مذکورہ امتحان پاس کرنے کے بعد اپنے عہدے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے بہشتی زیور والی بیویاں ہی بننا چاہیے؟

اور سب سے اہم سوال کہ لکھاری نے عشرت جہاں ”کہانی کا کردار“جس نے معصوم ہیرو کو ورغلایا اس کے بارے میں تو بڑی باریک بینی سے الفاظ ترتیب دیے کہ کس طرح وہ ہیرو صاحب سے پیسے اینٹھا کرتی تھی لیکن شاید وہ نیک سیرت بی بی کے گھر کے اخراجات پر روشنی ڈالنا بھول گئے۔ جس عورت کا میاں عیاشیاں کرتا پھر رہا ہو ساری دولت وہ باہر کے حسن کی نذر کرتا ہو اور بیوی کو میاں کے ناز نخرے اٹھانے کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہ آتا ہو تو ایسے حالات میں وہ خدائے مجازی کی پوجا سے گھر چلاتی تھیں؟

مذکورہ کتاب میں چند اور کہانیاں بھی شامل میں جن میں خواتین کا کردار اچھا خاصا مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ شاید اس سے قبل بھی کوئی ایسی وجہ رہی ہو جو وطن عزیز میں آزادی کے ستر سال گزرنے کے بعد بھی کوئی خاتون جسٹس عدالت عظمی میں جج کی کرسی پر براجمان نہ ہوسکیں۔ جہاں دنیا کے بڑے حصے میں خواتین کو مرد کے برابر کا انسان سمجھا جاتا ہے وہیں ہمارے یہاں خواتین کو حقوق دیے جانے کی بات کی جاتی ہے۔ کیا خواتین انسان نہیں ہیں جو ان کے لئے الگ سے حقوق تخلیق کیے جانے چاہیئے؟ آج کل تو میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ جنس تبدیل کرکے مرد عورت اور عورت مرد کا روپ دھارن کر سکتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں آج بھی عورت کی گواہی آدھی ہے۔ میرا آخری سوال قوانین بنانے والوں اور ان کا نفاذ کرنے والوں سے یہ ہے کہ کیا ایسی عورت کی گواہی تب بھی آدھی ہی رہے گی جو مرد سے عورت بن جائے گی یا جو عورت سے مرد بن جائے گا۔۔۔۔۔؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).