تاریخ: خاندانِ غزنوی سے خاندانِ غوری تک


سلطان محمود غزنوی

یہ غزنوی خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ تھا۔ اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ شروع کے حملوں میں تو وہ چند ناگزیر وجوہ سے واپس جاتا رہا۔ آخر ہندوستان کو فتح کرلیا۔ اس نے سومنات کا بت بھی توڑا جس میں سے زر و جواہر کا بہت بڑا خزانہ نکلا۔ ہر چند کہ سومنات کو اس نے صرف اپنا فرض سمجھتے ہوئے توڑا تھا، روپے کے لالچ میں نہیں، تاہم ان زر و جواہر کو اس نے پھینک نہیں دیا۔ اونٹوں پر لدوا کر اپنے ساتھ غزنی لے گیا۔

ایازاس کا غلام تھا۔ علامہ اقبال سے روایت ہے کہ جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا تھا تو یہ دونوں یعنی محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔

محمود پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے فردوسی سے شاہنامہ لکھوایا اور اس کی ساٹھ ہزار اشرفیاں نہ دیں بلکہ ساٹھ ہزار روپے دے کر ٹالنا چاہا۔ یہ الزام بے جا ہے، بیشک وعدہ ایک اشرفی فی شعر ہی کیا گیا تھا لیکن اس وقت گمان نہ تھا کہ فردوسی واقعی یہ کتاب لکھنے بیٹھ جائے گا اور اس کو اتنا لمبا کردے گا۔ یہ کتاب جناب حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کی طرز پر لکھی گئی ہے۔ فردوسی چاہتا تو بہت تھوڑے صفحوں پر ایران کی تاریخ بیان کرسکتا تھا کہ فلاں بادشاہ نے فلاں بادشاہ کومارا وغیرہ۔ لیکن وہ اس میں پہلوانوں اور اژدہوں وغیرہ کے قصے ڈال کر لمبا کرتا گیا۔ بھلا ایک کتاب کی ساٹھ ہزار اشرفیاں دی جاسکتی ہیں؟ بجٹ بھی تو دیکھنا پڑتا ہے۔ محمود کی ہم تعریف کریں گے کہ پھر بھی ساٹھ ہزار کی رقم فردوسی کو بھجوائی خواہ اس کے مرنے کے بعد ہی بھجوائی۔ آج کل کے پبلشر اور قدردان تو مرنے کے بعد بھی منصف کو کچھ نہیں دیتے۔ ساٹھ ہزار روپے تو بڑی چیز ہے۔ ان سے ساٹھ روپے ہی وصول ہوجائیں تو مصنف اپنے کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ سلطان موصوف بہت فیاض بھی تھا۔

سوالات:۔
۔ 1 محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ کیا کیے تھے؟
۔ 2 محمود غزنوی نے سترہ حملے کس ملک پر کیے تھے؟
۔ 3 ہندوستان پر سترہ حملے کس بادشاہ نے کیے تھے، سچ سچ بتاؤ؟
۔ 4 محمود غزنوی نے ہندوستان پر اٹھارہ حملے کیوں نہیں کیے؟ سترہ پر کیوں اکتفا کی؟
نوٹ: سوال نمبر 3، 1، 4 اور 2 لازمی ہیں۔

خاندان غوری

غزنوی خاندان کے بعد کسی نہ کسی خاندان کو تو آنا ہی تھا۔ چنانچہ غوری خاندان آیا۔ اس خاندان کا عہد بہت مختصر رہا۔ یہ لوگ اس بات پر غور ہی کرتے رہے کہ ملک کو کیسے ترقی دی جائے۔ کسی بات پر عمل کرنے کی مہلت نہ ملی۔ سلطان محمد غوری اس خاندان کا مشہور اور لیاقت مند بادشاہ تھا۔ ایک بار وہ گکھڑوں کی شورش رفع کرنے کے لیے ان کے علاقے نواح راولپنڈی میں گیا اور کسی گکھڑ کے ہاتھوں مارا گیا۔ حفیظ ہوشیار پوری اور رئیس امروہوی نے قطعات تاریخ لکھے۔ اگر وہ گکھڑوں کے ہاں جانے کی بجائے ان کو اپنے ہاں بلاتا اور گھر بیٹھے ان کی شورش رفع کردیتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔

٭ خاندان غلاماں

اس خاندان کا بانی مبانی ایک شخص غلام محمد نامی تھا۔ س لیے یہ خاندان غلاماں کہلایا۔ دوسری وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس خاندان کے عہد میں بعض بڑی طاقتوں کے نام خط غلامی لکھا گیا۔ چونکہ اس خاندان کے بہت سے اعیان سلطنت کی عمر انگریز کی غلامی میں گزری تھی اس لیے بھی اس کو خاندان غلاماں کا نام دیا گیا۔

اس زمانے میں ذاتی اور انفرادی غلامی تو ختم ہو رہی تھی، ہاں کسی ملک کا کسی دوسرے ملک کا غلام ہونا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔ آقا ملک اپنے غلام ملک کو ایڈ دیتا تھا۔ اپنی فالتو پیداوار بھیجتا تھا تاکہ سمندر میں نہ ڈبونی پڑے اور فالتو آدمی جن کا اپنے ملک میں کوئی مصرف نہ ہوتا تھا مشیر بنا کر ساتھ کردیتا۔ غلام ملک کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ نہ ہوتی تھیں بس حق ناحق میں آقا ملک کا ساتھ دینا ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں غلام ملک اپنے ہاں فولاد کا کارخانہ بھی نہ لگاتا۔ خارجہ پالیسی بھی پوچھ کر بناتا تھا بلکہ آقا ملک سے بنی بنائی منگواتا تھا۔

خلجی خاندان

اس خاندان نے جتنے دن حکومت کی، خود کو بھی خلجان میں مبتلا رکھا، قوم کو بھی خلجان میں رکھا۔ اسی لیے اس کو خلجی خاندان کہتے ہیں۔ اس خاندان کے سربراہ کا نام بھی ’’خ‘‘ سے شروع ہوتا تھا۔ ایک شاعر نے یہ قصیدہ اسی کی شان میں لکھا تھا:
کس چیز کی کمی ہے خواجہ تری گلی میں
گھوڑا تری گلی میں، نتھیا تری گلی میں
اس بادشاہ کے عہد میں فن طباخی کو بہت ترقی ہوئی۔ چرندوں پرندوں کے لیے یہ دور کچھ اچھا نہیں تھا۔ مرغ و ماہی بادشاہ کا نام سن کر تھر تھر کانپتے تھے۔ سودا نامی شاعر تو یہاں تک کہتا ہے کہ؎
تڑپے تھا مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اردو کی مشہور کلاسیک مکمل مرغی خانہ باتصویر اسی عہد میں تصنیف ہوتی۔ اب تک اس کے ستر ایڈیشن نکل چکے ہیں۔

تغلق خاندان

اس خاندان کے سرکاری دفاتر کراچی کے تغلق ہاؤس میں تھے، اسی لیے یہ تغلق خاندان کہلایا۔ انہی دفاتر میں بیٹھے بیٹھے وزرائے سلطنت کو پہلے پہل خیال آیا کہ دارالحکومت بدلنا چاہیے۔ دہلی سے دیوگری چلنا چاہیے اور کچھ نہیں تو تھوڑی تفریح ہی رہے گی۔ سفر کا بھتہ ہی ملے گا۔ اس منصوبے پر عمل بعد میں ہوا۔
تغلق کا لفظ اغلاق سے نکلا ہے جس کے معنی مشکل پسندی اور مشکل گوئی وغیرہ ہیں۔ ہمارے دوست عبدالعزیز خالد اس دور میں ہوتے تو ملک الشعرأ ہوتے۔ ہر وقت خلعت فاخرہ زیب تن کیے رہتے۔ یوں خالی بش شرٹ میں نہ گھوما کرتے۔

سرفیروز خان تغلق اس خاندان کا مشہور بادشاہ تھا۔ یہ اپنا رشتہ چنگیز خاں سے ملایا کرتا تھا اور کوٹلے بسایا کرتا تھا۔ چنانچہ فیروز شاہ کا کوٹلہ مشہور ہے۔ اس کی تصنیف میں تاریخ فیروز شاہی، فیروز اللغات اور چشم دید مشہور ہیں۔ تاریخ فیروز شاہی تاریخ کی کتاب ہے، فیروز اللغات ایک لغات ہے اور چشم دید میں بادشاہ نے اپنے وہ حالات لکھے ہیں جو اپنی آنکھوں دیکھے ہیں۔
فیروز تغلق کے زمانے میں چیزیں سستی تھیں۔ کم از کم آج کے مقابلے میں، آٹا دال بھی بناستپی گھی بھی، پٹرول بھی، اے کاش وہ آج بھی زندہ ہوتا اور ہمارا بادشاہ ہوتا۔

لودھی خاندان

اس خاندان کا مشہور ترین بادشاہ سکندر لودھی تھا۔ اس کو سکندراعظم کے ساتھ خلط ملط نہ کرنا چاہیے۔ وہ زمانہ قبل از مسیح میں ہوا تھا یہ زمانہ بعداز مسیح میں ہوا۔ بعض کتابوں میں اس خاندان کا نام ’’لوبھی‘‘ لکھا ہے جس کے معنی لالچی یعنی اقتدار کی لالچ رکھنے والا ہوتے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں صحیح نام لودھی ہی ہے۔ اس خاندان کا مورث اعلیٰ لودھیانے سے آیا ہوگا، جیسے یہ خاکسار آیا ہے۔ یہ خاکسار اپنے کو لودھی نہیں لکھتا جس کی وجہ خاکساری ہے۔

سکندر لودھی، فیروز خاں تغلق کو معزول کرکے برسراقتدار آیا تھا۔ اتفاق دیکھئے خود اس کے ساتھ یہی ہوا۔ اس کے سپہ سالار نے اسے تخت سے اتار کر دریائے شور بھیج دیا۔ یعنی ملک بدر کردیا اور خاندان گندھارا کی بنیاد رکھی۔ خاندان گندھارا کی فرماں روائی ایک مدت تک اچھی چلی لیکن آخر سلطنت کے ٹکڑے ہونے شروع ہوگئے۔ حتیٰ کہ ملک بائیس خاندانوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایسا ہوجائے تو پھر مغل آیا ہی کرتے ہیں چنانچہ آئے، سلطنت مغلیہ قائم کی۔

سوالات:۔
۔ 1 گکھڑوں پر جواب مضمون لکھو لیکن ذرا دور رہ کر یہ خطرناک لوگ ہیں۔
۔ 2 کیا غلامی خاندان غلاماں کے ساتھ ہی ختم ہوگئی؟
۔ 3 فیروز تغلق نے فیروز اللغات کیوں لکھی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).