امن قائم کرنے میں عورتوں کا حصہ


میں پوچھتی ہوں؛ چھوٹے، بڑے، ہلکے، بھاری، نیوکلیائی، بائیولوجیکل ہتھیاروں کی دوڑ آخر کس لئے؟ نسل انسانی کا خون بہانے کے لئے؟ بنی نوع انسان کا خاتمہ کرنے کے لئے؟ ہتھیار جمع کرنے والے اور جنگیں کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو، نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں، امن عالم کا خون ہے آخر
جنگ تو خود ہی اک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی، بھوک اور احتیاج کل دے گی

یہ ہتھیاروں کی دوڑ، یہ جنگیں مردوں اور عورتوں کے درمیان بہت بڑی خلیج پیدا کر دیتی ہیں۔ عورتوں کے پاس وسائل بھی کم ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں۔ مسلح تنازعات اور جنگوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ مسلح تنازعات اور جنگوں کے دوران عورتوں کے خلاف ایک اور ہتھیار بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے جنسی تشدد کا ہتھیار۔

میری نسل کے لوگوں کو یاد ہے کہ جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی تو اس وقت یورپ میں امن کی بہت طاقتور مہم چل رہی تھی۔ اس وقت لوگوں کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں یاد تھیں۔ اور وہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کے امکان سے خوفزدہ رہتے تھے۔ اس سے بھی پہلے عورتیں امن کے قیام کے لئے مظاہرے کرتی رہتی تھیں۔ آج جب دنیا یک قطبی ہو چکی ہے تو مختلف علاقائی تنازعات اور دہشت گردی کے خوفناک واقعات جاری ہیں۔ ہتھیار سازی کی صنعت عروج پر ہے۔ بات یہ ہے کہ جب اسلحہ کے دھیڑ لگائے جائیں گے تو پھر ان کے استعمال کا جواز بھی پیدا کیا جائے گا۔ پہلے تنازعات پیدا کر کے اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو فائدہ پہنچایا جائے گا اور پھر تباہ شدہ علاقوں کی بحالی کے لئے اپنی تعمیراتی کمپنیوں کو ٹھیکے دلوائے جائیں گے ۔ یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔

عورتیں آج بھی امن کے لئے تحریکیں چلاتی ہیں۔ مسلح تنازعات اور جنگوں کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے والوں کی بحالی اور آبادکاری کے لئے کام کرتی ہیں۔ لیکن انہیں قیام امن کے لئے ہونے والے مذاکرات اور فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ بین الاقوامی برادری میں یہ احساس پیدا ہوا کہ پائیدار امن کے قیام کے لئے عورتوں کی شراکت ضروری ہے۔ چنانچہ 2000ء میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے تاریخی قرارداد 1325 عورت، امن اور سلامتی کے بارے میں منظور کی۔ اس قرارداد میں عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے لئے قیام امن میں عورتوں کی شراکت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تحفظ اور انصاف تک رسائی پر زور دیا گیا ہے۔

اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ایک پر امن معاشرے کی کنجی عورت کے ہاتھ میں ہے؟
عورتوں پر ہونے والے ظلم یعنی ریپ، ٹریفکنگ اور بچپن کی شادی کی تو ہم نے بہت بات کی ہے لیکن اس پر کم ہی غور کیا ہے کہ مسلح تنازعات اور جنگوں کے دوران عورتیں قیام امن کے لئے کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اگر عورتوں کو امن مذاکرات میں شامل کیا جائے تو وہ سماجی ضروریات پر زیادہ زور دیتی ہیں اور مردوں کی طرح متحارب فریقوں کو خوش کرنے کے چکر میں نہیں رہتیں۔
لارل اسٹون کی تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ عورتیں امن کے قیام میں ایک اہم اور مثبت اثر رکھتی ہیں۔ ان کی شراکت کی وجہ سے ایک سال میں تشدد کے خاتمے کے امکانات چوبیس فی صد بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس کی کچھ محدودات بھی ہیں۔ یعنی اگر آپ اس عمل میں تنازع والے علاقے سے باہر کی کسی خاتون کو شامل کرتے ہیں،مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی کسی خاتون کو یا کسی علاقائی اتحاد کی رکن کو تو ضروری نہیں کہ اس کا نتیجہ کسی پائیدار امن معاہدے کی شکل میں ظاہر ہو۔ اس لئے اس علاقے کی مقامی خاتون یا خواتین کی امن معاہدے میں شراکت ضروری ہے۔ صرف امن کے عمل میں ہی شمولیت ضروری نہیں بلکہ طویل المعیاد امن کے لئے، تنازع کے خاتمے کے بعد تعمیر نو کے عمل میں عورتوں کی شمولیت اتنی ہی اہم ہے۔

ہتھیاروں کے استعمال کے عورتوں پر اثرات کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان میں اکثر گھرانوں میں مرد حضرات پستول یا بندوق رکھتے ہیں۔ 2011 میں آواز سی ڈی ایس نے جنوبی پنجاب کے چار اضلاع؛ ملتان، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور نے ان گھریلو ہتھیاروں کے حوالے سے عورتوں پر تشدد کی صورتحال پر تحقیق کی تھی۔ معلوم ہوا تھا کہ 65 فی صد غیر قانونی آتشیں اسلحہ عورتوں کو دھمکانے یا ان پر تشدد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ گھروں میں عورتوں پر تشدد اور باہر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ملک کو اسلحے سے پاک کرنا ضروری ہے۔ معاملہ صرف جنوبی پنجاب کا نہیں بلکہ امریکہ جیسی عالمی طاقت کی عورتیں بھی گھروں میں رکھے جانے والے ہتھیاروں کی بدولت تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ عورتوں کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لئے امریکہ میں بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں مگر ان میں اتنی خامیاں ہیں کہ مرد کسی نہ کسی طرح ہتھیار خرید لیتے ہیں اور گھریلو جھگڑے کی صورت میں عورت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

گھریلو تشدد کے واقعات ویسے بھی عام ہیں لیکن گھر میں کسی ہتھیار کی موجودگی کی وجہ سے مرد کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم عورتوں پر تشدد اورمعاشرے سے دہشت گری کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں نا صرف اپنے ملک کو بلکہ ساری دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنا ہو گا۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے مسائل مکالمے اور عدم تشدد کے ذریعے حل کریں۔ ہتھیاروں کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

بم گھروں پر گریں کہ سرحدوں پر، روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے، زیست فاقوں میں تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں، کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ، زندگی میتوں پہ روتی ہے
اس لئے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں، شمع جلتی رہے تو بہتر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).