شرمین اور شرمیلی کی داستان


کہتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد کی مشہور بہنوں اصغری اور اکبری کے ہی محلے میں دو اور بہنیں رہتی تھیں۔ بڑی کا نام شرمیلی بیگم تھا اور چھوٹی کا شرمین بیگم۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان دونوں کی شادی بھی اصغری اور اکبری ہی کی مانند دو سگے بھائیوں سے ہوئی اور دونوں اپنے اپنے گھر میں بس گئیں۔ دونوں کے گھروں کی دیوار ملی ہوئی تھی۔

شرمیلی کو اپنی ناک اونچی رکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ جی جان سے کوشش کرتی تھی کہ اس کی عزت بنی رہے۔ ماما عظمت صفائی کر کے کوڑا باہر لے جانے لگی تو شرمیلی نے اسے روک لیا۔

شرمیلی: ماما دکھا تو کیا لے کر جا رہی ہے؟
ماما عظمت: سبزی کے چھلکے ہیں، اور ننھے بچوں کے چند پرانے کپڑے ہیں جو اب پیشاب کی بو سے شرابور ہو چکے ہیں اور لاکھ دھلنے پر بھی صاف نہیں ہوتے ہیں اور بو چھوڑتے رہتے ہیں۔
شرمیلی: کم بخت، محلے میں ناک کٹوائے گی کیا؟ لوگ کیا کہیں گے کہ ان رئیسوں کے گھر میں آج کدو پکا ہے؟ اور ان کے بچے اتنے گندے ہیں کہ کپڑوں میں ہی پیشاب کر دیتے ہیں؟ بے حیا، اسے مت پھینک۔

ماما عظمت: لیکن شرمین بی بی تو ایسا کوڑا باہر پھینکواتی ہیں۔شرمیلی: اس بے غیرت کو تو اپنے گھر کی عزت کا پاس ہی نہیں ہے۔ ناک کٹوانے کی شوقین ہے۔ ہم سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں، اور وہ اپنا سارا کھایا پیا محلے والوں کے سامنے اگل دیتی ہے۔ اس کا تو وہی حال ہے کہ اوچھے کے ہوئے تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر۔ ہم اپنے کھائے پیے کو محلے والوں کی نظر کیوں لگوائیں۔
ماما عظمت: بیگم صاحبہ، تو ان کا کیا کروں؟

شرمیلی: ایسا کر، کہ یہ سارا کوڑا پچھلے کمرے میں چارپائی کے نیچے چھپا آ اور دروازہ بند کر دے۔ خبردار کسی کی نظر نہ پڑے۔

کچھ دن یہی چلتا رہا اور سارا کوڑا گھر کی عزت بچانے کے لیے اسی کمرے میں بھرتا رہا۔ پھر ایک دن اس کمرے میں گنجائش باقی نہ رہی تو دوسرے کمرے میں یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ آہستہ آہستہ گھر بھر گیا لیکن عزت بچی رہی۔ بو سے گھر بھر کی ہوا مسموم ہو گئی اور وہاں سانس لینا دشوار ہو گیا۔ بیماری نے گھر کا منہ دیکھنا شروع کر دیا۔

ایک دن گھر کی پالتو بکری بیمار ہو گئی۔ ماما عظمت نے صلاح دی کہ اسے سلوتری کو دکھا لیتے ہیں لیکن شرمیلی نہ مانی۔ کہنے لگی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ان کے گھر کے جانور تک بیماری مارے ہیں۔ بکری بیماری کی شدت کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ ماما عظمت نے کہا کہ مہترانی کو کہہ کر اسے روڑی پر پھنکوا دیتے ہیں لیکن یہ سن کر شرمیلی تو آگ بگولا ہو گئی۔ کہنے لگی کہ کیا باپ دادا کی عزت خاک میں ملا دیں؟ اسے باہر پھنکوا کر سارے محلے کو بتا دیں کہ ہم اپنے پالتو جانور کا خیال تک نہیں رکھتے ہیں؟ اسے کمرے میں
چارپائی کے نیچے ڈال دو اور دروازہ بند کر دو۔

سڑاند سے برا حال ہو گیا۔ چند دن میں ہی ہیضہ پھوٹ پڑا اور گھر بھر بیمار ہو گیا۔ کمیٹی والوں نے ان کے دروازے پر الٹی کھٹیا کھڑی کر دی (کسی گھر میں وبائی مریض ہوتا تھا تو اس کے سامنے الٹی چارپائی کھڑی کر دی جاتی تھی تاکہ سب اس گھر سے دور رہیں اور وبا نہ پھیلے) اور سب گھر والوں کو زبردستی ہسپتال میں میں داخل کروا دیا۔ سارے شہر میں شرمیلی بیگم کے کنبے کی تھڑی تھڑی ہو گئی۔ اس کے گھر کی عزت خاک میں مل گئی اور ان کے بچوں کے مدقوق چہرے دیکھ کر لوگ ان پر ترس کھانے لگے۔

دوسری طرف شرمین بیگم کے گھر کا حال مختلف تھا۔ پہلے دن ہی ماما عظمت کوڑا پھینکنے کے لیے نکلی تو شرمین نے اسے روک لیا۔
شرمین: ماما عظمت، یہ کیا لے کر جا رہی ہو؟
ماما عظمت: بیگم صاحبہ، کریلوں کے چھلکے ہیں۔

شرمین: بس؟ اور یہ سارا جھاڑ جھنکار کیا یہی پڑا رہے گا؟ کچھ پرانے کپڑے بھی ہیں جو بد رنگے ہو رہے ہیں اور بچوں کے پوتڑے بھی ہیں۔ انہیں بھی لے کر جاؤ۔
ماما عظمت: لیکن باہر کسی نے دیکھ لیا تو لوگ کیا کہیں گے کہ ان کے گھر میں بچوں کے پوتڑے ہوتے ہیں؟
شرمین: ہم نے اپنا گھر صاف ستھرا رکھنا ہے یا یہ فکر کرنی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

ایک دن ماما عظمت شرمین کے پاس آئی اور کہنے لگی: بیگم ایک مرغی مر گئی ہے اور باقی سست ہو رہی ہیں۔ محلے میں پتہ چل گیا کہ گھر میں مرغیوں کی بیماری پھیل رہی ہے تو بہت بدنامی ہو جائے گی۔
شرمین: مری ہوئی مرغی کو مہترانی کو اٹھوا دو اور سلوتری کو بلا لاؤ تاکہ باقی مرغیوں کا علاج کر کے ان کو بھلا چنگا کر دے۔ ہم نے اپنی مرغیاں بچانی ہیں تو یہی کرنا ہو گا۔ محلے والوں کی خیر ہے۔ کیا ان کے گھر کبھی کوئی بیماری نہیں آئی ہے؟ یہ تو ہر ایک کے گھر کی کہانی ہے، اس میں بدنامی کیسی؟

شرمین کا بڑا بچہ بیمار ہوا۔ اسے خسرہ نکل آیا۔ ماما عظمت پریشان ہوئی۔
ماما عظمت: بیگم اب کیا کریں؟ ڈاکٹر کو بلوایا تو محلے والوں کو پتہ چل جائے گا کہ بیماری کا گھر ہے تو وہ کیا کہیں گے؟ ہماری تو عزت خاک میں مل جائے گی۔

شرمین: ماما ڈاکٹر کو بلا کر لاؤ۔ ہم نے اپنے بچے کی جان بچانی ہے، جھوٹی عزت نہیں بنانی۔ جب ہم کسی کو یہ بتائیں گے ہی نہیں کہ کوئی بیماری ہے تو اس کا علاج کیسے ہو گا؟ پھر تو بیماری بگڑتی رہے گی حتی کہ کوئی بڑا نقصان ہو جائے گا۔ کوئی بیماری ہو تو اس کا علاج اسی وقت ہو گا جب یہ تشخیص کر دی جائے کہ بیماری موجود ہے۔ پڑھے لکھے اور دانشمند لوگ یہی کرتے ہیں۔ جو نادان تشخیص اور اس کے بعد علاج کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے بیماری چھپائے بیٹھے رہتے ہیں، وہ نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔

سارے شہر میں لوگ شرمین بیگم کی مثالیں دینے لگے کہ ان کے گھر سے زیادہ چمکتا ہوا گھر کسی کا نہیں ہے اور ان کے بچوں کے سرخ و سفید چہروں سے صحت جھلکتی ہے۔

ڈپٹی نذیر نے تو دونوں بہنوں اکبری اور اصغری کی کہانی لکھ دی تھی جن میں سے ایک جھوٹی شان اور شیخی میں رہتی تھی، اور دوسری گھر پر نظر رکھتی تھی اور اسے خوب اچھے انداز میں چلاتی تھی۔ پہلی کا گھر تباہ ہوا اور دوسری کا گھر خوب پھلا پھولا۔

ہمیں اب شرمیلی اور شرمین کے گھر کو دیکھنا ہے کہ کون جھوٹی شان اور شیخی میں رہتی ہے اور کون گھر کو اچھے انداز میں چلاتی ہے۔

Mar 10, 2016 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments