کربلا ایک یاد کا نام ہے


تحریر: سلیمان اختر (ڈان)

ترجمہ: سعدیہ احمد

تاریخ تو رقم کر لی جاتی ہے. لیکن اس کی یاد سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہے؛ قصوں، کہانیوں، رسموں، رواجوں کی صورت میں  .

کرہ ارض پر پیش آنے والا ہر اھم واقعہ اس لحاظ سے عارضی ہوتا ہے کہ اس کا ظہور ایک خاص وقت اور جگہ میں ہی ہوتا ہے. اور اسی طرح  دائمی بھی کیونکہ اس میں بار بار خود کو دوبارہ لانے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے.

 جہاں اسی واقعے کی عارضی  حیثیت مجرّد اور وقت  کے مورچے میں بند ہے، اس کی دائمی حیثیت خاصی لچکدار ہوتی ہے. آنے والے وقتوں میں ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک  سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے.

جہاں ذکر آتا ہے کسی بھی سانحے کا ، بسا اوقات اس کی یاد حقیقی واقعے پر حاوی ہو جاتی ہے. آخر کو یاد کرنا  بھی انسانی جبلت ہے. یا یوں کہئے یاد انسان ہی ہے. البتہ تاریخ نہیں.

کربلا ایک یاد کا نام ہے. اس یاد کی حقیقت اس قدر ابدی ہے کے کی صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے.

اس سے منسلک علامتیت کی ہمہ گری نے ہی شاعروں ، نوحہ خوانوں، صفوں، انقلابیوں، معقدین اوادیبوں کو یکساں متاثر کیا ہے.

کربلا کے سانحے میں کچھ ایسی کشش  ہے کہ آج بر صغیر کے ثقافتی ڈھانچے میں اس کا اس قدر اہم کردار ہے.

عالم  تصوف کی توجہ کا مرکز…

 جب سے مسلم صوفیائے کرام نے ہندوستانی زمین پر قدم رکھا تصوف کی جڑیں جنوبی ایشیائی ثقافت میں گہری ہی ہیں.

وحدت الوجود کا نظریہ یوں تو ابن اعرابی کی طرف سے آیا تھا لیکن اس نے اپنی جڑیں ہندوستانی مٹی میں پکڑیں کیونکہ اس میں ہندوستانیت کچھ زیادہ تھی. اس مٹی کا خمیر ہی ایسا تھا.  منصور حلاج  کے نعرے انا  الحق  کی گونج پوری مسلم دنیا میں گونجی، دور دور  کے دیسوں کو اپنی جانب کھینچتی ہوئی .  شاید خدا کی ذات میں بس جانے (بقا باللہ ) کے لئے فنا فی ا للہ کی صدا تھی یہ.

کربلا کی واقعے کی یاد جہاں آل محمّد (صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ) کے مصائب و آلام کی طرف توجہ دلاتی ہے وہیں تصوف میں اسی واقعے کے روحانی نتائج کی طرف دیکھا جاتا ہے. اور سب سے اونچا   درجہ  نفس کی شہادت اور عشق حقیقی کا  ٹھہرایا جاتا ہے.

خواجہ معین الدین چشتی بڑی شان سے یہی نکتہ بین کرتے ہوئے کہتے ہیں

‘حق کہ ہ بنائے لا الہ است حسین ‘

(سچ تو یہ ہے کہ لا الہ کی بنیاد حسین ہے. )

اپنے ادبی شاہکار ‘شاہ جو رسالو’ میںشاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی کربلا کا ماتم اور ذکر  بھی  کچھ اسی طرز پر کیا ہے…

شہید کی مصیبت خدا کا فضل ہے.

کربلا کا راز تو بس متوالے ہی پا سکتے ہیں.

(سرڪيڏارو، شاہ جو رسالو )

اس خاص روایت منصور اور حسین کو ایک ہی طرح منایا جاتا ہے.

 موسیقی میں قوالی خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں سر اور تال کو فنا کے نظریے پر ڈھالا جاتا ہے. کئی  صدیوں سے مزاروں کے برآمدوں میں   قوالوں نے کربلا کا روحانی پہلو اسی طرح اجاگر کیا ہے.

جدید قوالی کے مرشد استاد نصرت فتح علی خان بھی اسی روایت کو آگے لے کر بڑھے ہیں. خان صاحب کی اس موضوع پر گرفت بہت مضبوط ہے. اپنی ایک پرفارمنس میں وہ   بر صغیر کی اسی صوفی روایت  کو بیان کرتے ہوئےبیان  بازی کے انداز میں  سوال جواب کرتے  ہیں

کیوں پیا ابن حیدر نے جام فنا

کھال کنھچوائی تبریز نے کیوں بھلا

دار پہ چڑھ کے منصور نے کیوں کہا

سب بنا کے کھلونے رہا تو ہی ہے

اردو شاعری اور واقعہ کربلا

جنوبی ایشیا  کی صوفی روایت کو ڈھالنے کے علاوہ کربلا نے اردو شاعری کو بھی نوازا ہے.  آج مرثیہ اردو شعری روایت  کا اٹوٹ انگ ہے.

جدید مرثیے کی شروعات شمالی ہندوستان میں اودھ سے ہوئی . اٹھارویں صدی کی آمد ہوئی اور مغل سلطنت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو گئی.اسی سے نیم خودمختار ریاستوں کے دور کا آغاز ہوا

اودھ بھی ان ہی میں سے ایک  ہے. دبیر اور انیس جو کہ  جدید مرثیے کے مشعل بردار  سمجھے جاتے ہیں اسی اودھی روایت میں لکھتے ہیں. مرثیے نے  ہندوستانی منظر کشی کے ذریعے کربلا کا نقشہ کھینچا.

بھرپور تخیل، غمگین مواد، شاہانہ طرز تحریر؛ اودھی مرثیے نہ صرف سترھویں صدی میں ہونے والی کربلا کی خون ریزی کا منظر بیان کرتے ہیں بلکہ اس وقت کے ہندوستان سماجی و سیاسی صورت کا نقشہ بھی کشید کرتے ہیں.

جہاں ریاست اودھ  پھل پھول رہی تھی وہیں مغلیہ سلطنت تیزی سے دم توڑ رہی تھی.

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں کی جانے والی  اردو شاعری میں حسرت و یاس کا بیان درجقیقت اسی تباہی کا پیش خیمہ ہے. تاریخ کا یہی  مقام ہے جہاں کربلا کا استعارہ سوگ سے انقلاب میں بدل گیا.

ایک نا قابل تسخیر  سلطنت جلد ہی ڈوبنے والی تھی.

بہرحال اشرافیہ نئے  دور کی اس بدلتی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر تھی. ستیاجیت رے نے اسی بات  کی عکاسی  اپنی شہرہ آفاق فلم ‘خطروں کے کھلاڑی ‘ (1978) میں بڑے ہی کمال انداز میں کی ہے.

اردو ادب بالعموم اور غزل بالخصوص میں خواص کی زبان بولنے کے رجحان پر پہلی تنقید الطاف حسین حالی نے کی اور اس  رویے کے خلاف آواز اٹھائی.

دنیا تیزی سے بدل چکی تھی اور  بات اردو شاعری میں  محبوب کے حسن کے بیان سے بہت آگے بڑھ چکی تھی. ١٩٣٠ میں ترقی  پسند تحریک جنم لے چکی تھی. اسی نے ادب کا دھارا سامراج مخالف بائیں بازو کی سوچ اور نئے دور کی ضرورتوں کی طرف موڑا.

کربلا نے اس تحریک میں موجود اور غیر موجود شاعروں اور ادیبوں پر کچھ ایک سا اثر ہی ڈالا ہے .  فیض، مہندرا سنگھ بیدی، منشی پریم چند، مخدوم محی الدین، فراز، جوش ملیح آبادی، علی  سردار جعفری جیسے نام قبل ذکر ہیں.

کربلا نے اس تحریک میں موجود اور غیر موجود شاعروں اور ادیبوں پر کچھ ایک سا اثر ہی ڈالا ہے ؛ جیسا کہ   فیض، مہندرا سنگھ بیدی، منشی پریم چند، مخدوم محی الدین، فراز، جوش ملیح آبادی، علی  سردار جعفری ایسے ہی چند نام ہیں.

بظاھر تو مارکسسٹ نظریہ کو ایک بظاھر مذہبی واقعے سے ملانا کچھ متصادم سا معلوم ہوتا ہے کیونکی  نہ تو اس فلسفے کا مذہبی زبان سے کوئی تعلق ہے نہ ہی  کسی قسم  کی رغبت. لیکن اسی ملاپ کا تضاد اتنا گمبھیر  نہیں جتنا دکھتا ہے.

ہر سیاق و سباق سے بالاتر

تمام جدید  نیشنلزم ، مارکسزم، اینٹی کولونیلزم اور سوشلزم مغرب سے آئے ہیں. ان کو جنم دینے والی بھی خالصتا یورپی سماجی و سیاسی اقدار   خالصتا یورپی ہیں.

دنیا کے نو آبادیاتی حصے میں بسنے والی اشرافیہ (خاص کر مسلم ) اسشش و پنج  میں تھی کہ کس طرح اس مخصوص  بولی کو ان عوام تک پہنچایا جائے جن کا تعلق یکسر مختلف تہذیب سے تھا.

جدید نیشنلزم کو دنیا کے اس خطے میں پہنچانا بڑا دشوار کام تھا جہاں کے شاعر جب ایک دن کے لئے بھی شہر سے دور جاتے تو خود کو ‘غریب الوطن ‘

(جلاوطن) گردانتے.

 یہیں مذہب اور کلچر نے اپنا کام کرتے ہیں.

یہیں ہم دیکھتے ہیں کہ گاندھی جی نے نو آبادیاتی نظام کے خلاف ایک ایسی تحریک شروع کی جو ٹھیٹھ ہندوستانی تھی. یہیں ہم دیکھتے ہیں کہ جناح ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو پکارتے ہیں. بالکل یہیں ہم کچھ اور بھی دیکھتے ہیں؛ کربلا کا عالمی مارکسسٹ نظریے میں انضمام.

غالبا اسی دریا کو کوزے میں اقبال کے اس مصرعے سے بہتر کوئی نہ بند کر پائے .

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اقبال ایک مسلم انقلابی، مشرقی تصوف اور مغربی فلسفے کے ماہر کے طور پر اپنی نازک پوزیشن سے بخوبی آشنا تھے. درحقیقت وہ ان اولین دانشوروں میں سے تھے جنہوں نے یاد کربلا کو فرقے اور ذات پات سے بالاتر کر کے عالمگیریت بخشی.

چند ہی دہائیوں کے بعد اقبال سے متاثر ڈاکٹر علی شریعتی نے ایرانی انقلاب کی نظریاتی بنیاد کا نقشہ کربلا کے واقعے کی منظر کشی کے ذریعے کھینچا. اقبال فرماتے ہیں کہ حق مطلق  ہے جب کہ ظالم اور منافق کی فطرت بدلتی رہتی ہے.

 حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

ترقی پسند تحریک میں بھی شاعروں اور ادیبوں نے کربلا  کے استعارے کو اپنی سامراجیت کے مظالم  کے خلاف جدوجہدمیں استعمال کیا ہے.

مسلمانوں اور ہندوؤں کے زوال پذیر تعلقات کے پس منظر میں منشی پریم چند نے اپنا  ڈرامہ ‘کربلا’ لکھا تاکہ دونوں قوموں کے مابین دوریاں مٹائی جائیں .

 ادھر علی سردار جعفری نے امام حسین کے خیمے سے آنے والی پیاس سے بلکتی صدا ‘العطش ‘ کو ایک مکمل  نیا معنی  بخشتے  ہیں . اسے رنج و علم کا آفاقی علامت میں بدل ڈالتے ہیں.

پھر العطش کی ہے صدا

جیسے رجز کا زمزمہ

پھر ریگ صحرا پر رواں

ہے اہل دل کا کارواں

نہر فرات آتش بجاں

راوی و گنگا خون چکاں

اے کربلا! اے کربلا !

یہ بھی محض اتفاق کی بات ہرگز نہیں کہ مخدوم محی الدین  معروف امریکی سیاہ فاموں کے حقوق کے علمبردار ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے  4 اپریل 1968 کی شام کو ہونے والے بہیمانہ قتل کی نذر اپنا احتجاج رقم کرتے ہوئے  حسین اور  یسوع مسیح کی شہادت کو پکارتے ہیں.

 ہے شام غریباں، ہے صبح صبح حسین

یہ قتل قتل مسیحا، یہ قتل قتل حسین

ہمارے زمانے میں بہت کچھ بدل چکا ہے. صوفی مزاروں میں سو چکے ہیں اور سماج کے مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے.

ترقی پسند بھی ظلم اور جبر کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے کرتے اب  تھک چکے ہیں.

 یا شاید کچھ بھی نہیں بدلا.

یہ صدی پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے لئے بہت سے مصائب لائی ہے. روحانی استعاروں  سے انقلاب کے شعری حوالوں تک ، کربلا کی بازگشت دن بدن بربریت کے سامنے صبر کی علامت بنتی جا رہی ہے.

تاریخ بھلے مر چکی ہو لیکن یاد تو زندہ ہے. اتنی صدیاں بیتنے  کے بعد بھی زندہ ہے. آخر کو یاد کرنا  بھی انسانی جبلت ہے. یا یوں کہئے یاد انسان ہی ہے.

 عبید اللہ علیم اپنے عصر سے خاصے آگے تھے جب انہوں نے یہ شعروں میں ہی یہ پیشنگوئی کر ڈالی. .

اس قافلے نے دیکھ لیا ہے کربلا کا دن

اب کا شام کا بازار دیکھنا ہے باقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).