میری امی کی کہانی


یہ صرف میری امی کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک پوری نسل کی کہانی ہے۔ ان کہانیوں‌ کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
***
سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟
جواب: میں‌ 1956 میں‌ سکھر میں پیدا ہوئی۔ میرے ابو پولیس میں‌ دیوان جی تھے اور ان کی تھوڑی بہت زمینیں تھیں۔ میری والدہ گھر میں‌ رہتی تھیں‌ اور بچے سنبھالتی تھیں۔ میرے پیدہ ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی طبعیت کافی خراب رہنے لگی اور جب میں چار سال کی تھی تو ان کا انتقال ہوگیا۔
سوال: کیا آپ کو اپنی امی یاد ہیں؟
جواب: بس اتنا یاد ہے کہ ان کی میت صحن میں‌ رکھی ہے جس پر برف کی سلیں‌ رکھی ہیں اور لوگ قران شریف پڑھ رہے ہیں۔
سوال: کیا 1960 میں‌ سکھر میں‌ کوئی ایسے ہسپتال یا ڈاکٹر نہیں‌ تھے جہاں ان کا علاج کیا جاتا اور وہ زندہ رہتیں؟
جواب: صرف سکھر نہیں، سارے پاکستان میں‌ کینسر کے ڈاکٹرز نہیں‌ ہوتے تھے۔ ایک ڈاکٹر تھے کراچی میں‌ جو کینسر کے مریضوں‌ کو دیکھتے تھے۔ پھر میری والدہ کے کئی بچے تھے، زندگی مصروف تھی، بدحالی بھی تھی۔ چھوٹے سے دو کمرے کے مکان میں‌ تمام بچوں‌ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ انڈیا سے خالی ہاتھ ہجرت کرکے آئے تھے۔ علاج پر کچھ زیادہ توجہ نہ دی جاسکی اور وہ اپنے پیچھے کئی بچے چھوڑ کر فوت ہوئیں جن کو ابھی ان کی بہت ضرورت تھی۔ ایک بڑے بھائی کے دل سے یہ صدمہ کافی عرصہ نہیں‌ نکلا۔ وہ ان کی قبر کے برابر میں جاکر لیٹ جاتے اور روتے رہتے تھے۔
سوال: کیا آپ کی والدہ پڑھی لکھی نہیں‌ تھیں؟
جواب: وہ پڑھی لکھی تو تھیں، سمجھدار بھی تھیں اور فارسی میں‌ شاعری کرسکتی تھیں لیکن اس زمانے میں‌ اردو، عربی یا فارسی سے باہر زیادہ تعلیم کا رواج نہیں تھا اور ان دائروں‌ میں وہ انفارمیشن شامل نہیں تھی جس سے عام لوگ اپنی زندگیوں‌ کو باقی دنیا سے ہم آہنگ ہوکر بہتر بنا سکیں۔ ابو نے کچھ ہی عرصے میں‌ تیسری شادی کرلی۔ میری والدہ سے ان کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیگم مناسب میڈیکل کئر نہ ملنے کی وجہ سے پہلے بچے کی پیدائش کے دوران فوت ہوگئی تھیں۔
سوال: اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب: بھائی سب بڑے تھے، وہ ایک ایک کرکے گھر سے نکل گئے اور ابو کی نئی بیوی اور بچوں کے علاوہ گھر میں‌ صرف میں‌ رہ گئی تھی اور وہ مجھ سے جان چھڑا لینا چاہتے تھے۔ اس لئیے سولہ سال کی عمر میں‌ رشتہ ڈھونڈ کر تمہارے ابو سے مجھے بیاہ دیا گیا۔ میری کلاس فیلوز میں‌ سے دو ٹیچر بن گئی تھیں۔ میں‌ بھی ٹیچر بن جانا چاہتی تھی۔ شادی سے پہلے ملنے یا بات کرنے کا رواج نہیں تھا۔ شادی تو ہو گئی تھی لیکن میں نے ان کو پسند نہیں کیا تھا۔ میرے بھائی لمبے بھی تھے اور خوبصورت بھی۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے بھی تھے۔ پھر رومانوی کہانیاں پڑھ کر ایک نوجوان لڑکی جو تصورات بنالیتی ہے، وہ ان پر پورے نہیں اترے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے ملتے جلتے تو ان کے اندر کے انسان کو پسند کرنے لگتی اور پھر ان سطحی باتوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ سات سال ہماری شادی چلی جس کے بعد ان کی ایکسیڈنٹ میں‌ وفات ہوگئی۔
سوال: اپنی شادی شدہ زندگی کے بارے میں‌ بتائیں؟
جواب: شادی ہوتے ہی میں‌ نے ایسا محسوس کیا کہ اس زمانے کے لحاظ سے روشن خیال ہونے کے باوجود میرے شوہر مجھے خود سے کمزور دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کو بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کا خیال بھی تھا جس وجہ سے انہوں‌ نے مجھے کالج میں‌ داخل کروایا اور سکھر کی ہسٹورک جرنل لائبریری کی لائف ممبر بھی بنا دیا۔ میں اس لائبریری کے لائف ممبرز کی طویل لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ہندوستانی آدمی ہونے کے ناطے شعوری یا لاشعوری طور پر وہ مجھے ایک قدم پیچھے ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس سوچ کو نکلنے میں‌ وقت لگے گا۔
سوال: سسرال اور پڑوسیوں کےبارے میں‌ بتائیں؟
جواب: شادی ہونے کے بعد مجھ پر چاروں‌ طرف سے دباؤ تھا۔ ہر کسی کو خوش کرنے میں‌ لگی رہتی تھی اور بہت سی خواتین میری مدد کرنے یا ہاتھ بٹانے کے بجائے محض تنقید کرتیں اور خود سے موازنہ کرتی تھیں حالانکہ ان کی عمر اور تجربہ مجھ سے بہت زیادہ تھے۔
گھر کے کام کرنے میں‌ یا بچوں کا خیال کرنے میں کوئی مدد نہیں کرتا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایک بچہ گود میں‌ تھا اور ایک پیٹ میں۔ ان حالات میں خود کو سنبھالنا اور گھر کو چلانا مشکل کام تھے۔ سسرال والے بھی چھ چھ مہینے آکر ہمارے گھر ٹھہر جاتے۔ ان کو کھلانا پلانا، گھر کا خیال رکھنا ساری ذمہ داری میرے اوپر تھی جس کے لئیے کوئی شکرگذار نہیں تھا۔ تمہارے ابو کی کنسٹرکشن کمپنی بہت کامیاب ہوگئی تھی اور ان کو کافی پیسہ ملنے لگا تھا۔ میں‌ نقشے بنانے میں‌ ان کی مدد کرتی تھی۔ ہم لوگوں‌ نے ایکدم ترقی کرلی تھی اور مرزا صاحب ذہین بھی تھے، وہ نئی چیزیں جلدی سیکھ لیتے تھے اس لئیے ہمارے پاس جدید سہولیات تھیں جو ابھی اتنی عام نہیں ہوئی تھیں۔ یہ سب کچھ ہونے کی وجہ سے رشتہ دار اور پڑوسی انتہائی حسد کا شکار ہوگئے تھے اور کسی نہ کسی طرح‌ تکلیف پہنچانے کی کوشش میں‌ لگے رہتے تھے۔
سوال: آپ ان نئی نوجوان بیویوں کے شوہر یا رشتہ داروں‌ کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گی؟
جواب: یہ نصیحت ان لوگوں پر اثر نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ جانتے نہیں ہیں۔
سوال: لیکن یہ لوگ خود بھی تو کبھی نوجوان تھے وہ کیوں‌ نہیں سمجھیں گے؟
جواب: فاصلہ رکھیں، اپنا بوجھ ان پر نہ ڈالیں۔ اگر کسی مشکل یا ضرورت میں دیکھیں تو ہاتھ سے نہ کرسکیں تو زبان سے نصیحت کریں۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو بالکل غیر ضروری ہیں اور ان میں‌ دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جان بوجھ کر تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ گھر میں‌ پانی آنا بند ہوگیا تھا تو ایک لمبے پائپ سے کئی گھر چھوڑ کر پانی ہمارے گھر تک پہنچتا تھا۔ آپ نہانے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ لوگ جان بوجھ کر پانی بند کردیتے تھے۔ بلاوجہ ہر وقت ڈانٹنے کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ آپ اپنی زندگی گذار رہے ہیں، نہ یہ لوگ آپ کے بل دیتے ہیں، نہ سہارا۔ ان پر اپنا دروازہ بند کرلینا چاہئیے۔
سوال: آپ کے کتنے بچے ہوئے؟
جواب: سارے حمل ملا کر میرے ساری زندگی میں 11 بچے ہوئے ہیں۔
سوال: گیارہ؟ لیکن ہمیں‌ تو صرف چھ کا پتا ہے جن میں‌ سے ایک تین مہینے کی فوت ہوگئی تھی۔
جواب: تمام مس کیرج ملا کر اتنے ہی ہوئے۔ عمر بہت کم تھی اور تعلیم اور انفارمیشن بالکل نہیں تھی کہ بچوں کے درمیان وقفہ کیسے کرنا ہے، اپنی صحت کا کیسے خیال کرنا ہے۔ ان بچوں کو کیسے سنبھالنا ہے اور ان تمام باتوں‌ میں‌ کوئی مدد میسر نہیں تھی۔ سب کی انگلیاں‌ تھیں‌ کہ مجھے کیا کیا کرنا نہیں آتا ہے چاہے وہ میرے رشتہ دار تھے یا سسرال والے یا پڑوسی۔ ایک بھائی جو باہر نکل گئے تھے انہوں‌ نے مشورہ دیا کہ برتھ کنٹرول کے لئیے لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔ دکھایا تھا اور کوشش کی تھی لیکن معیاری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے علاج نے اثر نہیں کیا۔ جب سترہ سال کی عمر میں تم سکھر کے مشن ہسپتال میں‌ پیدا ہوئیں تو مجھے ٹانکے آئے تھے اور وہاں میں ڈاکٹروں، نرسوں اور ان کے آلات سے شدید خوفزدہ ہوگئی تھی اس لیے اس کے بعد خود بھی اپنا علاج کروانے سے کترانے لگی تھی جس سے اور نقصان ہوا۔ ابھی تیس کی دہائی ہی تھی اور میری طبعیت اتنی خراب رہتی تھی کہ عمرے پر گئے تو بھائی نے وہیل چئر کو دھکا لگا کر میرا عمرہ کرایا۔
مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2