مجیب الرحمان شامی کی تاریخ دانی اور سر ظفراللہ خان


مجیب الرحمان شامی دائیں بازو کی صحافت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے، خوب ڈٹ کر متعصب واقع ہوئے ہیں۔ دقیانوسی بھی بلا کے ہیں۔ دائیں بازو سے تعلق نیز قوم اور مذہب پرستی سے طبیعت میں ایک قسم کی قبض واقع ہو جاتی ہے۔ تیور چڑھ جاتے ہیں اور منہ پھولا پھولا سا رہتا ہے۔ اور انصاف اور رواداری کے احساس میں شدید کمی واقع ہو جاتی ہے۔ دائیں بازو کے اصحاب کو تاریخ کا مضمون ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مجیب الرحمان شامی صاحب بھی اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ اخباروں، جریدوں کے نامی گرامی مدیر ہیں لیکن تاریخ کے مطالعے سے کتراتے ہیں۔

ایک حالیہ کالم میں موصوف پاکستان کے وزرائے خارجہ کی تاریخ گھڑتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سر ظفراللہ خان ‘کابینہ کی اجازت کے بغیر سیٹو میں شامل ہونے کا اقرار کر کے واپس آئے‘۔ یعنی پاکستان کو سوویت بلاک سے الگ رکھنا اور امریکی بلاک کا حصہ بنانے کا سہرا سر ظفراللہ خان کو عطا کر رہے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سر ظفراللہ خان نے 1954 کی منیلا کانفرنس میں شرکت کی اور پاکستانی وفد نے بڑے زور و شور سے معاہدے کی اس شق کی مخالفت کی جس میں سوویت یونین کی جارحیت کے نتیجے میں فوری فوجی کارروائی کا معاہدہ شامل تھا اور کسی غیر اشتراکی ملک کی جارحیت پر فوری کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر کو روس کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت سینیٹ سے ملی ہوئی ہے۔ کسی اور ملک سے جنگ کے لئے دوبارہ اجازت لینی پڑے گی۔ اس پر سر ظفراللہ خان نے معاہدے پر دستخط سے معذوری ظاہر کی۔

چونکہ پاکستان کو بھارتی جارحیت کا اندیشہ تھا اور اس قسم کے معاہدے میں ہمارے رہنماؤں کو امید تھی کہ جنگ کی صورت میں حلیف ممالک مدد کو آئیں گے۔ اس معاہدے پر دستخط کے فوائد سب پر ظاہر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ سن پینسٹھ کی جنگ میں امریکہ اور اس کے حلیفوں نے کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ اس قصے کا سر ظفراللہ سے کوئی واسطہ نہیں۔

سیٹو معاہدے کا مسودہ سر ظفراللہ نے ایک نوٹ لکھ کر پاکستان ارسال کر دیا۔ نوٹ یہ تھا کہ ‘حکومت پاکستان کو ترسیل کرنے کے لئے دستخط کئے جاتے ہیں تاکہ حکومت اپنے آئینی ضابطے کی تحت (معاہدہ میں شامل ہونے کا) فیصلہ کر سکے‘۔ (بحوالہ تحدیث نعمت از چودھری سر ظفراللہ خان)

سر ظفراللہ منیلا سے نیویارک روانہ ہوگئے تا کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شامل ہو سکیں۔ ان کی غیر موجودگی میں کابینہ نے سیٹو میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ معلوم نہیں شامی صاحب کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ سر ظفراللہ خان جیسے بے مثال مدبر پر الزام لگاتے ہیں۔ یہ بات تو سچ ہے کہ سر ظفراللہ خان جیسا عظیم المرتبت مدبر، سیاستدان اور محب وطن، فہیم اور انتھک وزیرخارجہ پاکستان کو پھر نصیب نہ ہوا۔ ان کی بدولت پاکستان کو اقوام عالم میں ایک وقار عطا ہوا۔ رواں برس میں ہم نے اقوام متحدہ میں اپنے وفد کی کارکردگی ملاحظہ کی۔ کہاں وہ دن جب سر ظفراللہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو چاروں شانے چت کرتے تھے۔ شاہ فیصل اور دیگر عرب رہنما آپ کی تعظیم میں فرش راہ ہوتے اور کہاں یہ دن کہ دنیا ہمیں دہشت گرد فیکٹری قرار دیتی ہے اور پوچھتی ہے کہ آپ نے کون سے دنیا کے محسن اور ہیرو پیدا کئے؟ ہمارا وفد اگر دو نام ہی لے دیتا تو ان کے منہ بند ہو جاتے۔ سر ظفر اللہ خان، عرب ممالک کا محسن ظفراللہ، انسانی حقوق کا چیمپین سر ظفراللہ خان۔ عالمی عدالت کا جج ظفراللہ۔ مطالبہ پاکستان کا حامی ۔۔۔سر ظفراللہ خان۔

دوسرا نام پروفیسر عبدالسلام کا ہے۔

دونوں احمدی، دونوں ہماری تاریخ سے خارج اور ہمارے قومی شعور سے محو کر دئے گئے۔ اور اس کارنامے کا سہرا مجیب الرحمان شامی اور ان کی قبیلے کے صحافیوں کو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).