ہندی سنیما میں یہودیوں کا کردار


ہندوستانی سنیما میں یہودیوں کی شراکت داری پر  دستاویزی فلم  بنانے والےہدایت کار  ڈَینی بین موشے سے بات چیت۔

آسٹریلیائی دستاویزی  فلم  ہدایت کار ڈینی بین موشے گزشتہ ۱۱ (گیارہ)سالوں سے ایک فلم بنا رہے ہیں۔ شَیلام بالی وُڈ: دَ انٹولڈ اسٹوری آف اِنڈین سنیما نامی یہ دستاویزی  فلم  ہمیں بے آواز فِلموں کے دَور سے ۲۰ویں صدی کے آخر تک ہندوستانی سنیما میں یہودیوں کی کہانیوں کو  بیان کرتی ہے۔

بین موشے نے دَ وایر سے بات چیت کی اور بتایا کہ دستاویزی  فلم  کے لئے اس موضوع کا انتخاب انہوں نے کیسے کیا۔ اس فلم کو بناتے وقت انہوں نے کیا نیا تلاشا اور کس طرح سے بالی وُڈ میں یہودیوں کی تاریخ، اس تاریخ سے کہیں بڑی کہانی چھِپائے ہوئے ہے۔ ایک ایسی کہانی جسے کہا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آخر وہ فلم کو کراؤڈسورس کیوں کرنا چاہ رہے ہیں؟ پیش ہیں بات چیت  کے کچھ اہم اقتسابات :

آپ نے اپنی دستاویزی  فلم  کے لئے ایک ایسا موضوع منتخب کیا ، جو غیرمعمولی تو ہے ہی، عام طور  پر کسی کے ذہن میں آنے والا بھی نہیں ہے۔ اس انتخاب کی کیا خاص وجہ رہی ۔؟

اس موضوع کے غیر معمولی پن نے ہی مجھے اسکی طرف متوجہ کیا۔ یہ حیرت انگیز اور پہیلی نما (ایک معمہ)  تھا۔ مجھے یہ کہانی پوری طرح  پتہ نہیں تھی، لیکن 2006 میں جب میں نے نادِرا کو خراج تحسین پیش کی (حقیقی نام فلورینس ایزیکیل) تو میرے دماغ میں پہلا خیال آیا، ‘وہ یہ کہ اس  پر فلم بنانا کافی دلچسپ ہوگا۔’ لیکن جب میں ہندوستان گیا، تب مجھے پتہ چلا کہ وہ بالی وُڈ کی واحد  یہودی اداکارہ نہیں تھی۔ وہ ایک روایت کی آخری کڑی تھیں جس کی شروعات کافی پہلے بے آواز فلموں کے دَور میں سُلوچنا سے ہوئی تھی۔ اس طرح میں اس کہانی کے جِتنے اندر اترتا گیا، یہ اتنی زیادہ دلچسپ ہوتی گئی۔

چونکہ، کئی یہودی اداکاروں نے بے آواز فلموں کے دَور میں کام کیا اور کچھ آزادی کے بعد سرگرم رہے، اُن کی فلموں کی ریلوں کو حاصل کرنا  یقینا کافی مشکل رہا ہوگا- خاص طور پر  ہندوستان  میں فلم آرکائیز کی جو بدحالی ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے۔ اس کام میں اور کون سی رکاوٹیں آئیں؟

آرکائِیز کا مسئلہ بہت بڑا تھا۔ یہ مشکل اس وجہ سے اور بڑھ گئی کہ سارے یہودی ستاروں کی موت ہو چکی ہے۔ اس حقیقت کے مدنظر کہ کسی زمانے میں وہ گھرگھر مشہور تھے، مجھے یہ یقین تھا کہ ریڈیو پر اُن کے انٹرویو ضرور ہوں گے۔ یا اُن کی فلموں کی تقریبات کے نیوز فُوٹیج ہوں گے۔ مثال کے لئے سُلوچنا کو 1973میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا تھا۔ لیکن، کچھ بھی حاصل کر پانا نامُمکِن ثابت ہوا۔ پھالکے انسٹی ٹیوٹ نے میرے اِی-میلزاور فون کالزکا جواب تک نہیں دیا۔

مجھے اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ فِلم فیئر ایوارڈ کے آرکائیز میں کہیں نہ کہیں ڈیوِڈ اور نادِرا جیسے اداکاروں کی تصویریں ہوں گی۔  اداکار ڈیوِڈ (ڈیوِڈ ابراہم چیُلکر) ایوارڈ نائٹس کو ہوسٹ کیا کرتے تھے۔ نادِرا کی انمیں ہمیشہ موجودگی رہتی تھی۔۔۔یا سُلوچنا کو دادا صاحب ایوارڈ سے نوازے جانے کے وقت کی تصویر۔۔۔لیکن، مجھے ان میں سے کچھ بھی نہیں مِلا۔ اس لئے میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے یہ فلم ہندوستان میں سرکاری چینلوں کی مدد کے بغیر بنانی ہوگی۔

اور اگر ایمانداری سے کہوں، تو اگر آپ سفید فام ہیں، تو یہاں ہر کسی کو یہ لگتا ہے کہ آپ امیر ہیں اور آپ سے رشوت  لی جا سکتی ہے۔ اس لئے یہ تھوڑا جھٹکا دینے والا تھا۔ لیکِن، ایک بار جب میں اس الجھن سے باہر نکلا، تو میں یہ طے کر چکا تھا کہ مجھے اپنے دم پر یہ فلم بنانی ہے۔ اِس لئے میں اس فلم کے لئے مَیٹیریل کی تلاش میں دوسری جگہوں پر گیا۔ اور اس نے اس بات کو متاثر کیا کہ یہ فلم کس طرح کہی جائے گی؟ کیونکہ فلم ریلوں یا تصویروں کی غیرموجودگی میں میں نے یہودی ستاروں کی زندگی کی کہانی کہنے کے لئے اینیمیشن کا استعمال شروع کیا۔

یہودیوں نے ہندوستانی فلموں میں مختلف طریقوں سے اہم کردار ادا کیا: اداکاروں کے طور پر- سُلوچنا،  ہندوستان کی پہلی خاتون سُپر اسٹار تھیں۔ روز، مقبولِ عام اداکارہ تھیں، پرمِلا، پہلی مِس اِنڈیا تھیں۔ نادِرا، ہندی سنیما کی اصلی وَیمپ تھیں، جنہوں نے راج کپور کی کئی فلموں میں کردار نبھایا۔ مصنف- جوسیف ڈیوِڈ پینکر، جو نغمہ نگار کے ساتھ اسکرپٹ  رائٹر بھی تھے، جنہوں نے ہندوستان کی پہلی بولتی فلم عالم آرا ء لکھی تھی۔ پبلیسِسٹ- بَنّی روبین۔ کیا اس کے علاوہ بھی لوگ دوسرے  میدانوں میں تھے؟

ان کے علاوہ یہودی کیمرامین تھے۔ ایک کافی مشہور ہدایت کار ایزرا میر تھے۔ انہوں نے 1930 کی دہائی میں ستارا نام کی ایک فلم بنائی تھی، جس میں سب سے زیادہ بوسہ تھا، جس کی وجہ سے اس فلم کو بین کر دیا گیا تھا۔ سُلوچنا ایک پروڈیوسر بھی تھیں۔ پرملا بھی پروڈیوسر تھیں۔ ان کی ‘سِلوَر فلمس’ نام سے ایک پروڈکشن کمپنی تھی۔ فلم انڈسٹری کوایک  پہچان  دینے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ سینسر بورڈ نے لگاتار پرمِلا کو پرفارم کرنے سے روکنے کی کوششیں کی۔ پارلیمان میں سُلوچنا کو لیکر ایک بحث ہوئی تھی، جو کافی مشہور ہوئی تھی۔ (ایسی افواہ تھی کہ وہ بامبے کے گورنر سے زیادہ پیسے کماتی تھیں)۔ وہ کافی بولڈ اور اپنے وقت سے کافی آگے تھیں۔

ایک لائق  ِتوجہ بات ہے کہ بالی وُڈ میں یہودی 1930 اور 1940 کی دہائی میں سرگرم تھے، جب دنیا کے دوسرے حصوں میں یہودی مخالفت اپنے عروج پر تھی۔

ہندوستان میں یہودی ہزاروں سالوں سے بھلے نہ رہ رہے ہوں،سیکڑوں سالوں سے تو ضرور رہ رہے ہیں۔ اس لئے یہ پوری طرح سے ایک الگ تجربہ ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہودی مخالفت سے خالی اس زمین کی وسیع کہانی ہے، کیونکہ شاید دوسرے ممالک میں کوئی سُلوچنا نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ایک یہودی اسٹار کو قبول نہیں کرتے۔ نہ ہی وہ اپنے ملک کی پہلی بیوٹی کوین کے طور پر ہی کسی یہودی کو قبول کرتے۔ اس لئے یقینی طور پر یہ ایک مثبت کہانی ہے۔

میں پہلی بار 2006 میں اس فلم کو ریسرچ کرنے کے لئے ہندوستان آیا تھا اور اب 2017 ہے۔ اور وہ پیغام پہلے سے بھی کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

شَیلام بالی وُڈ کے لئے ریسرچ کرتے وقت یا اسے فلماتے ہوئے ، آپ کو کہانی کے کس حصے نے،بالی وُڈ میں یہودیوں کی کہانی یا بیتے دنوں کی ہندی فلم انڈسٹری یا دونوں کے بیچ کے آپسی گفتگو، سب سے زیادہ متوجہ کیا؟

کچھ اتفاقیہ باتوں  نے میرا دھیان کھینچا: جیسے لوگوں کو بریک ملنے کا طریقہ۔ پرمِلا سیٹ پر اپنے رشتہ دار روز کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کولکاتا میں ایک یہودی اسکول میں ٹیچر تھی۔ پہلی مِس اِنڈیا یا ایک سُپر اسٹار بننے کی انہوں نے کوئی اسکیم نہیں بنائی تھی۔ اس کے علاوہ، اِن لوگوں کے بعد کی زندگی میں جو ہوا وہ بے حد افسوس ناک تھا۔ جب آپ کی شہرت  ماند پڑ جاتی ہے، جب آپ کا حسن چلا جاتا ہے، لوگ آپکو بہت جلدی  فراموش کر  دیتے  ہیں۔

اِن سبھی نے ایسے کیریئر کو  منتخب  کی قیمت چکائی۔ لیکن، جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ یہ کہ ان کی زندگی ایک طرح سے فن کے ذریعہ زندگی کی تقلید کی مثال تھی۔ نادِرا پردے پر شراب اور سگریٹ پینے کے لئے مشہور تھیں۔ وہ اپنی حقیقی زندگی میں بھی کافی شراب اور سگریٹ پیتی تھیں۔ روز کو جدید مغربی اینگلو انڈین خاتون کے طور پر دکھایا گیا۔ اپنی حقیقی زندگی میں بھی وہ ایسی ہی تھیں۔

آپ اس فلم کے لئے کراؤڈسورسِنگ (پیسہ عوام سے اکٹھا) کر رہے ہیں۔ اس فلم کے لئے پروڈیوسر تلاش کرنا اِتنا مشکل کیوں ثابت ہوا؟

میں کمیشنڈ فلمیں بناتا ہوں۔ میرے ساتھ براڈکاسٹر آ جاتے ہیں اور وہ مجھے کئی سو ہزار ڈالر دے دیتے ہیں اور میں فلم بناتا ہوں۔یہاں یہ مشکل تھا، کہ میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں اور اس فلم کی کہانی ہندوستان کی ہے۔ میرے پاس ایسے براڈکاسٹر نہیں تھے، جِن کی اس میں دلچسپی تھی۔ اس لئے جب میں نے اس فلم کا خیال اُن کے سامنے رکھا، تو انہوں نے کہا،‘یہ کافی تاریخی ہے۔ اسے زیادہ حالیہ بنایئے۔’’

تب میں نے اسے زیادہ سامیِک بنایا اور ایک دوسرے براڈکاسٹر کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا،‘یہ کافی سامیِک ہے، اسے زیادہ اتاریخی  بنائیے۔ پھر کسی نے کہا، یہ کافی ہندوستانی  ہے، اسے زیادہ یہودی نُما بنائیے۔’

پھر یہ سب ایک ایسے نقطہ نظر پر پہنچ گئے، جہاں میں نے خود سے کہا، ‘ٹھیک ہے، میں اس کہانی کو اس طرح سے کہوں گا، جیسے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ اس طرح کہوں گا، جیسا میں سوچتا ہوں کہ یہ ہے۔’ اور کچھ وقت کے بعد کافی غور و خوض   کی بنیاد پر  آزادانہ طریقہ سے یہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).