12 اکتوبر 1999ء کو ہائی جیکر کون تھا؟


 جرمنی سے کینیڈا گئے ابھی چند ماہ ہوئے تھے۔ اخبار اور کتاب کا نشہ ہمیں بچپن ہی میں لگ گیا تھا۔ نشے کی تسکین کے لئے انٹرنیٹ پر دستیاب اردو اخبارات پڑھنا معمول تھا۔ انٹرنیٹ عام نہیں تھا اور اردو کی بھی صرف دو چار سائیٹس ہی موجود تھیں۔ ٹی وی چینل بھی عام نہیں تھے۔ سو کالج سے آ کر گھر کے نزدیک لائبریری جانا محبوب مشغلہ ٹھہرا۔

ان دنوں اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب کے امیرالمومنین بننے کی خبریں اور تبصرے کبھی کبھار شائع ہوا کرتے تھے۔ غلام اسحق خان اور فاروق لغاری کے تجربوں کے بعد ایوان صدر میں وزیراعظم کی مرضی کا صدر موجود تھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ایسے میں کارگل جنگ کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ مجاہدین تھے، فوج تھی، شہ رگ سے پکڑ لیا، کشمیر ہندوستانی تسلط سے آزاد سمجھو، کلنٹن کی مداخلت، جنگ بندی وغیرہ وغیرہ قسم کی سنسنی خیز قسم کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔

پھر جنگ جیت رہے تھے، جنگ ہار رہے تھے، وزیراعظم نے رنگ میں بھنگ ڈال دی، فوج نے پلاننگ نہیں کی، قسم کے محدود یا ڈھکے چھپے انداز میں منفی اور مثبت تبصرے شروع ہوئے۔ لیکن وہ تبصرے اتنے ملفوف ہوتے تھے کہ ان پر کینیڈا میں بیٹھا ایک طالب علم کوئی واضح رائے قائم نہیں کر سکتا تھا۔

12 اکتوبر 1999ء کو جیسے ہی جنگ اخبار کی سائیٹ کھولی، ٹرپل ون برگیڈ نے وزیراعظم ہاﺅس پر قبضہ کر لیا ہے، جنرل مشرف کا جہاز بحفاظت کراچی اتار لیا گیا ہے، جنرل پرویز مشرف تھوڑی دیر میں قوم سے خطاب کریں گے، جیسی خبریں چل رہی تھیں۔ ایک دفعہ پھر فوج، مشرف کون ہے، کیا کرے گا جیسے سوالات لئے ہم کالج سے جلدی پہنچتے کہ اب کیا ہو گا۔

ضیاءالحق کے مارشل لاء کے حوالے سے پاکستان کے سیاہ ترین دور کی بچپن کی کچھ یادیں ذہن میں تھیں اسی طرح ایوب خان کی حکومت کے 65ء کی جنگ، ڈیم، سٹیل مل اور معاشی ترقی جیسے کارنامے بھی سن رکھے تھے۔ بلکہ کہنے دیجئے کہ ہمارے خاندان کے بزرگ ایوب خان کے دور کو عقیدت کی حد تک پاکستان کا آج تک کا سنہری دور سمجھتے ہیں اور یہی اثر ہم پر بھی تھا بلکہ اب تک ہے۔

دیارِ غیر میں اردو کے ٹی وی پروگرامز کا آسرا نہیں تھا، کیلگری میں دوپہر کے وقت مقامی کمیونٹی چینل پر پنجابی اور اردو کے پروگرام چلا کرتے تھے لیکن خبروں کے لئے ان کا ماخذ بھی وہی ہوتا جو ہمارا تھا یعنی انٹرنیٹ کی محدود سائیٹس۔

جنرل مشرف صاحب سے اچھی امیدیں باندھیں۔ نواز شریف صاحب پر غصہ بہت تھا کہ ظالم نے اپنے ملک کے جہاز کو کیوں غیر ملک اور وہ بھی انڈیا کی طرف موڑنے کا حکم دیا؟ پٹرول ختم ہونے کے قریب تھا کیوں اتنی زندگیاں داﺅ پر لگائیں؟ اوپر سے چیف آف آرمی سٹاف بدلنے کا یہ کوئی طریقہ ہے کہ جنرل کو سری لنکا بھجوایا گیا اور پیچھے سے لنڈے بازار سے سٹار منگوا کر اپنی برادری کے ایک بندے کو چیف لگا دیا۔ وہ تو ہماری منظم فوج کو آخری وقت میں پتہ چل گیا وگرنہ ظلم ہو چکا تھا۔ (جنرل ضیاءالدین بٹ کو چیف لگائے جانے کے لئے جو بھونڈا طریق اختیار کیا گیا اس پر آج بھی گلہ ہے)

نواز شریف اور شہباز شریف کے بیڈ روم سے کیا کیا چیزیں اور کیسی کیسی ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ استغفراللہ اس دین دار معاشرے میں ایسے لوگ حکمران۔ احتساب اور پھر بے رحم احتساب کی خبریں آئیں۔ بعض خوش آئند باتیں بھی سننے کو ملیں۔ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ بھی چند دن واپس ہوا جو پہلی دفعہ سن رہے تھے۔ کچھ مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالے گئے جن کا خیرمقدم کیا۔ یونیورسٹیاں کھلنے لگیں، سڑکیں بننے لگیں، عوام گاڑیاں اور موٹر سائیکل خریدنے لگے، فریج، ٹی وی ہر گھر میں پہنچنے لگے۔ ملک کی ترقی کے سنہری خواب نظر آنے لگے۔

مگر یہ کیا یوٹرن کہ عدالت سے سزا یافتہ” ہائی جیکر“ راتوں رات سعودی عرب پہنچ گئے۔ نیب میں ڈیل کلچر شروع ہو گیا۔ امیر المومنین نواز شریف کے ساتھی سید پرویز مشرف سے فیض حاصل کرنے پہنچنے لگے۔ ایک ماہ سے چند ماہ کے وزیراعظم تک اور پھر گوہر نایاب وزیراعظم بیرون ملک سے امپورٹ ہوئے۔ دوچار اچھے لوگ اور دوچار اچھے کام بھی سرزد ہوئے لیکن اکثریت انہی لوگوں کی جو ہر حکومت میں ”مولا خوش رکھے، بھاگ لگے رہن“ کی صدا لگاتے پہنچ جاتے ہیں۔ اور اکثریت انہی کاموں کی جو صرف اپنے مشیروں کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

اس سب پر مستزاد کہ امریکہ بہادر کو افغانستان میں ”بخشو“ کی پھر ضرورت پڑ گئی۔ نہلا دھلا کر اپنے پاس کر کے بٹھایا۔ کچھ پیسے بخشو کی جیب میں”زبردستی“ ڈالے کہ بچوں کو مرونڈا لے دینا۔ بخشو نے بھی رسماً نہیں نہیں کر کے کرارے نوٹوں کے لئے دونوں ہاتھ آگے کئے اور حویلی کے نہ بتائے کام بھی کرتا پھرا۔ بخشو اتراتا اور ہر جگہ بتاتا پھرا کہ ہمارے چوہدری کی بڑی حویلی، بڑا رعب، بڑی زمینیں لیکن شلوار میری ہی پہنی ہوئی ہے۔

بخشو استعمال ہوتا رہا لیکن ہمارے خواب بیچ چوراہے پھوٹ چکے تھے۔ ہم ایک دفعہ پھرسے جمہوریت کے لئے اتاولے ہوئے جاتے تھے۔ سید مشرف کے ساتھیوں کو بے نظیر اور نوازشریف کے پاس لندن بھاگتے اور این آر او دیکھ کر ہم تذبذب کا شکار تھے بلکہ ابھی تک ہیں کہ ہائی جیکر کون تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).