1971ء کی جنگ اور کیپٹن صفدر صاحب


10 اکتوبر 2017 کو کیپٹن صفدر صاحب نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی اور اس میں بہت سے ایسے موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی جن کا انہیں کچھ بھی علم نہیں۔ اسی بد حواسی کے عالم میں انہوں نے 1971کی جنگ کا ذکر کیا اور کہنے لگے

”اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ جب ہم 71ء کی جنگ لڑ رہے تھے تو 10 کور کمانڈر جنرل عبد العلی اور اس کا بھائی قادیانی اور میں تو حیران ہوں کہ چوہدری ظفر اللہ۔۔۔ ایئر فورس کا چیف وہ بھی قادیانی۔ تو کیا یہ لوگ جو ہمارے نبی ﷺ کی ختم نبوت پر رکیک حملے کرتے ہیں تو کیا اس کے نام پر بننے والے ملک کے ساتھ وفاداری کر سکتے ہیں۔ “

اور پھر انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوج میں احمدیوں کی بھرتی پر پابندی لگائی جائے کیونکہ احمدیوں کے عقیدے میں جہاد فی سبیل اللہ کا کوئی تصور موجود نہیں۔ بلکہ انہوں نے تو ’جھوٹے مذہب‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔

سب سے پہلے تو کچھ تاریخی غلطیوں کی درستی ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پاکستان کے پہلے وزیر ِ خارجہ تھے ایئر فورس کے چیف نہیں تھے۔ ایئر مارشل ظفر چوہدری ایئر فورس کے چیف تھے اور وہ بھی 1971ء کی جنگ کے بعد بنے تھے اور جنرل عبدالعلی صاحب کے بھائی جنرل اختر ملک صاحب تھے جو کہ اس جنگ سے پہلے ہی ایک حادثہ میں فوت ہو چکے تھے۔

Lt. General-iftikhar-Khan-janjua

اب ہم صفدر صاحب کے نظریات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی ملک کی فوج میں اس ملک کے ہر علاقے کے لوگ شامل کیے جاتے ہیں اور عقیدے کی بنیاد پر کسی کو قومی ادارروں میں شامل ہونے سے روکا نہیں جاتا۔ اس بحث کو چھوڑتے ہوئے کہ کون جہاد کا قائل ہے اور کون نہیں؟ اس الزام کا جائزہ لیتے ہیں کہ چونکہ احمدی جہاد کے قائل نہیں اس لیے انہیں فوج میں بھرتی نہیں کرنا چاہیے۔ 1971ء کی جنگ کی بات ہو رہی ہے تو اگر صفدر صاحب کی بات درست ہے تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جس محاذ پر احمدی جرنیل تھے وہاں احمدی جرنیل محاذ چھوڑ کر بھاگ جاتے کیونکہ وہ جہاد کے قائل نہیں تھے۔ اور جہاں پر دوسرے مسالک سے وابستہ جرنیل قیادت کر رہے تھے وہاں عظیم کامیابیاں ملتیں کیونکہ جہاد پر ان کا پختہ ایمان تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اس سانحہ پر ایک کمیشن قائم ہوا تھا اور اس کی رپورٹ ’حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں اُس وقت جنگ میں شامل جنرل صاحبان کی کارکردگی کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں ایک احمدی جرنیل جنرل افتخار جنجوعہ بھی ایک محاذ پر پاکستانی فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ اور انہوں اپنے ملک کی خاطر لڑتے ہوئے جام شہادت بھی نوش کیا۔ اور پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد جرنیل تھے جنہوں نے شہادت کا درجہ پایا۔

Lt. Gen. Akhtar Hussain Malik

سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں بیسیوں جرنیل ایسے گذرے ہیں جن کے متعلق کیپٹن صفدر صاحب کا خیال ہے کہ وہ جہاد کے قائل تھے اور صرف چند احمدی جرنیل گذرے ہیں اور صفدر صاحب کا الزام ہے کہ وہ تو جہاد کے قائل نہیں لیکن جس جرنیل نے اپنی جان قربان کر دی وہ احمدی تھا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایک جرنیل کی کارکردگی اچھی ہو یا بری ہو، زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ خفیہ نہیں رہ سکتی۔ صفدر صاحب 71 کی جنگ کے حوالے سے احمدی جرنیلوں کے خلاف اتنا زہر اُگل رہے ہیں تو یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ اس جنگ میں احمدی جرنیلوں کی کارکردگی کیسی تھی۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں سارے حقائق اور تمام کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ جنگ میں شکست اور ہتھیار ڈالنے کا لازمی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کوئی جرم کیا گیا ہے یا کسی غفلت کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں یہی نتیجہ نکالا گیا تھا کہ 1971 کی جنگ میں مجرمانہ کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ اور اس کمیشن نے بہت سے افسران کے نام درج کر کے ان پر مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی کیونکہ وہ یہ وسائل اور مواقع رکھتے تھے کہ پاکستان کا دفاع کرتے لیکن انہوں اپنے فرائض ادا نہیں کیے اور اس کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہو گیا۔ صفدر صاحب کو چاہیے کہ یہ فہرست ذرا غور سے پڑھیں۔ اس میں ایک بھی احمدی نہیں تھا۔ سب ان مسالک سے تعلق رکھتے تھے جن کے بارے میں صفدر صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ جہاد کے قائل تھے اور وہ یہ الزام لگا رہے تھے کہ احمدی تو جہاد کے قائل نہیں تھے، اس لیے انہیں فوج میں بھرتی نہیں کرنا چاہیے۔

(The Report of the Hamoodur Rehman Commission, published by Vanguard, page 518-527)

Lt.-Gen.-Retd-Abdul-Ali-Malik-(First-from-Left)

1971ء کی جنگ میں بلکہ پاکستان کی کل تاریخ میں ایک ہی جرنیل نے جام ِ شہادت نوش کیا تھا اور وہ ایک احمدی جنرل افتخار جنجوعہ صاحب تھے اور ان کے متعلق اسی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں “Bold and capable commander”کے الفاظ استعمال کیے گئے۔

(The Report of the Hamoodur Rehman Commission, published by Vanguard, page 214-215)

یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیپٹن صفدر صاحب اس بات پر کیوں تلملا اُٹھے کہ جنرل عبدالعلی ملک کو 1971ء کی جنگ میں محاذ پر کیوں لگایا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ صفدر صاحب نے ملٹری اکیڈمی میں قیام کے دورا ن تاریخ غور سے نہیں پڑھی تھی۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ  1965ء کی جنگ میں جنرل عبد العلی ملک صاحب کا کیا کارنامہ تھا؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ چونڈہ کی جنگ کی پاکستان کی عسکری تاریخ میں کیا اہمیت ہے۔ اس وقت مدمقابل افواج کی چال کا غلط انداز ہ لگا کر حکام نے عبدالعلی ملک صاحب کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ یہ محاذ چھوڑ کر نارووال چلے جائیں۔ مگر وہ محسوس کر رہے تھے کہاگر انہوں نے یہ محاذ چھوڑا تو سیالکوٹ خطرے میں پڑ جائے گا۔ اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ان کا اندازہ صحیح تھا۔ اور پھر انہوں ہمت کر کے بھارت کی افواج پر حملہ کر دیا۔ اور اس طرح چونڈہ کی جنگ میں (جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی) پاکستان کو بڑی فتح حاصل ہوئی۔

(Crossed Swords by Shuja Nawaz, published by Oxford, 2008 p 226-225)

Air-Marshal-Zafar-Ahmed-Chauhdry

اور صفدر صاحب شاید جانتے ہوں کہ 1965 کی جنگ کے دوران دوران کشمیر کے محاذ پر جہاں کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں کمان تبدیل کی گئی تھی۔ وہاں سے جنرل اختر ملک جو کہ دشمن کے علاقہ میں آگے بڑھ رہے تھے۔ انہیں ہٹا کر جنرل یحییٰ خان کو مقرر کیا گیا اور اس کے بعد اس محاذ پر پیش رفت رک گئی اور بعد میں جنرل موسیٰ صاحب جو کہ اس وقت پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف تھے اور کمان تبدیل کرنے کے فیصلہ میں شامل تھے اس بات پر اظہار افسوس کرتے رہے کہ جنرل یحییٰ پیش قدمی نہ کر سکے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یہاں جنرل موسیٰ خود اپنے آپ سے تضاد کر رہے ہیں جب انہوں نے دوران ِ جنگ کمان تبدیل کر دی تو پیش قدمی تو متاثر ہونی تھی۔ اس وقت کے ضیاع سے فائدہ اُٹھا کر مد مقابل افواج نے اپنے آپ کو اکھنور میں مضبوط کر لیا تھا۔

جنرل اختر ملک احمدی تھے اور صفدر صاحب کے نزدیک جہاد کے قائل نہیں تھے۔ صفدر صاحب کے نزدیک جنرل یحییٰ صاحب جہاد کے قائل تھے۔ اگر صفدر صاحب کا فلسفہ قبول کر لیا جائے تو فوج میں جنرل اختر ملک، جنرل عبد العلی اور جنرل افتخار جنجوعہ جیسے باصلاحیت لوگوں کو نہیں بھرتی کرنا چاہیے البتہ جنرل یحییٰ اور جنرل امیر عبداللہ نیازی صاحبان جیسے لوگوں کو رکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔

(Khaki Shadows, by General K M Arif, published by Oxford 2004p 59)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).