کیا پشاور میں ڈینگی کے حملے کے پیچھے مسلم لیگ نواز ہے؟


محکمہ صحت کے اہلکار دبے پاؤں مسلح پولیس کی حفاظت میں بڑھے، گھر کے گرد گھیرا ڈال دیا اور پھر خانہ تلاشی کا عمل شروع ہو گیا۔ ایک اہلکار نے ایک کمرے کی دیوار سے لگے روم کولر کی جالی ہٹائی تو اندر وہ شے موجود تھی جس کی اطلاع پر یہ بڑا آپریشن کیا گیا تھا۔ پانی میں زیبرا دھاریوں والے ڈینگی مچھر کے لاروے تیرتے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیڈر ارباب خضر حیات خان کے گھر سے پشاور میں ڈینگی پھیلانے کی سازش برآمد کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔

پشاور پہلے ہی خودکش حملوں کی زد میں ہے۔ ایسے میں یہ انکشاف کہ ایک لیڈر بھی اپنے گھر میں ڈینگی پال رہا ہے، نہایت خوفناک تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈینگی مچھر اپنی جائے پیدائش سے 200 میٹر کے اندر ہی زندگی پوری کر دیتا ہے۔ یعنی یہ لیڈر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی خطرے میں ڈال کر بھی ڈینگی پھیلا رہا تھا۔ کولر سے نکل کر یہ مچھر سب سے پہلے سیدھے ارباب صاحب کے اپنے کمرے میں ہی جاتے۔ ارباب صاحب نے لاکھ کہا کہ ان کے علاقے کے دیگر گھروں سے بھی ڈینگی برآمد ہوا ہے اور یہ صوبائی حکومت کی نااہلی ہے کہ ڈینگی پورے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، مگر تحریک انصاف والے تو سازش پکڑ چکے تھے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف والے کئی ماہ سے یہ بات بتا رہے تھے کہ صوبے میں ڈینگی مچھر مسلم لیگ نواز بھیج رہی ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ شاپنگ بیگ اور ایسی معصوم دکھنے والی چیزوں میں ڈینگی مچھروں کی پوری کی پوری کالونی لاہور سے لائی جاتی ہے اور پشاور میں پھیلا دی جاتی ہے۔ پاکستان میں ڈینگی کی وبا سب سے پہلے کراچی میں پھیلی تھی۔ اگلے سال لاہور کا نمبر آیا تو پتہ چلا کہ ڈینگی مچھر ٹرین میں بیٹھ کر لاہور آ گئے ہیں۔ لیکن ڈینگی کو پشاور پہنچانے کے لئے شاپنگ بیگ کا استعمال پہلی مرتبہ سننے میں آیا۔ مسلم لیگ نواز والے واقعی نت نئے طریقوں سے گڑبڑ کرنے کے ماہر ہیں۔

اگر ہم ڈینگی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو تحریک انصاف کے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہ بیماری مسلم لیگ نواز کی سازش ہے۔ سپینی لفظ ڈینگی کا منبع نامعلوم ہے۔ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سواحلی زبان کے لفظ ”کاڈنگا پیپو“ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے بدروح۔ افریقہ سے یہ بیماری نکلی لیکن 1970 تک دنیا کے صرف نو ممالک اس سے متاثر ہوئے تھے اور دنیا بھر میں کل پندرہ ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ آج سو سے زیادہ ممالک میں یہ بیماری پھیل چکی ہے اور سالانہ سوا دو کروڑ کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔

آپ اگر 1970 کے عدد پر غور کریں تو حیران ہوں گے۔ یہ وہ وقت ہے جب میاں نواز شریف اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر کاروبار اور سفر کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ کیا ہم یہ گمان کرنے میں غلط ہوں گے کہ گورنمنٹ کالج میں مائیکروبیالوجی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے والے میاں نواز شریف اس وائرس اور اسے پھیلانے والے مچھر سے ناواقف تھے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جیسے جیسے ستر کی دہائی سے اتفاق انڈسٹریز کا کاروبار پھیلتا گیا، ویسے ویسے ہی ڈینگی بھی دنیا بھر میں پھیلتا گیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ لوہے کا سکریپ لانے اور لے جانے والے بحری جہازوں پر ایک سازش کے تحت شاپنگ بیگ میں ڈینگی مچھر رکھ کر بھیجے جاتے رہے ہوں؟

آپ ڈینگی سے متاثرہ ممالک کے نقشے پر غور کریں۔ افریقہ میں تو چلیں اس بیماری کی پیدائش ہوئی تھِی۔ آپ برازیل، میکسیکو، مڈغاسکر، عدن، یمن، ہندوستان، ملائشیا، جاپان، کوریا اور پاناما وغیرہ پر نظر ڈالیں۔ کیا یہ وہی ممالک نہیں ہیں جہاں اسی لوہے اور سکریپ کا کاروبار کیا جاتا ہے جس سے اتفاق انڈسٹریز وابستہ رہی ہے؟آپ نوٹ کریں گے کہ پاکستان میں سندھ، پنجاب اور پختونخوا ڈینگی سے متاثر ہیں، مگر بلوچستان اور گلگت بلتستان میں یہ بیماری نہیں ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ ان دو خطوں میں میاں نواز شریف کا نہ تو کاروبار ہے اور نہ ہی سیاسی مفادات؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ کراچی میں یہ وبا اس وقت پھیلی تھی جب الطاف حسین کا ستارہ عروج پر تھا اور میاں نواز شریف سے ان کی چشمک چل رہی تھی؟

میاں نواز شریف کے کچھ معتقدین کہیں گے کہ یہ بیماری تو نواز شریف کے گڑھ لاہور میں بھی پھیلی تھی۔ ہم ان کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی طاقت جب کوئی تباہ کن ہتھیار بناتی ہے، تو سب سے پہلے اس کا تجربہ اپنے کسی علاقے میں کرتی ہے تاکہ اس کے تباہ کن اثرات اور اس سے بچاؤ کے طریقے جان سکے۔ اب لاہور میں یہ بیماری بہت کم دکھائی دیتی ہے کیونکہ میاں برادران اسے کنٹرول کرنا سیکھ چکے ہیں جبکہ پشاور میں یہ پھیلنے لگی ہے کیونکہ میاں برادران اسے شاپنگ بیگ میں بھر کر دور دراز علاقوں میں بھیجنے کی پیچیدہ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں اور عمران خان اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ڈینگی کا سیاسی استعمال نہایت افسوسناک ہے۔ آپ نوٹ کریں کہ جب سے پشاور میں ڈینگی کی موجودگی خبروں پر چھائی ہے اس وقت سے میڈیا کی ساری توجہ پاناما سے ہٹ کر ڈینگی پر مبذول ہو گئی ہے۔ ہر ذی شعور شخص کو یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ تحریک انصاف نے اس معاملے میں بڑی دانشمندی سے کام لیا ہے اور مسلم لیگ نواز کے ایک لیڈر کے گھر سے ڈینگی مچھر کا لاروا پکڑ کر سارا معاملہ پانی کر دیا ہے۔ اب بارِ ثبوت مسلم لیگ نواز پر ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ پشاور اور باقی دنیا میں یہ بیماری نہیں پھیلا رہی ہے۔ آصف زرداری کو بھی اس معاملے میں تحریک انصاف کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ کل ان کے صوبے میں بھی شورش پھیلانے کی غرض سے ڈینگی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اکیس کروڑ عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سنگین معاملے کی چھان بین کے لئے جے آئی ٹی بنائی جائے اور دنیا بھر میں ڈینگی کی بیماری کے پھیلاؤ میں میاں نواز شریف کے کردار کی چھان بین عدالت عظمی کے معزز جج صاحب کی نگرانی میں نیب سے کروائی جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar