مجاز کا مسئلہ شراب تھا یا سوشلسٹ انقلاب


شراب کسی فرد کے شخصی رویےکو بدل سکتی ہے مگر جبلت تبدیل نہیں کر سکتی ۔

شراب نے اسرارالحق مجاز(19اکتوبر1911-5دسمبر1955)کےحسی ادراک کو مرتعش کیا،ان کےتخیل کو توانائی عطا کی،ذہن کے بند دریچوں کو کھولا ۔ حیات و کائنات کا نیا عرفان عطا کیا ۔ ان کی ادراکی قوت میں افزونی شراب ہی کی رہین منت ہے ۔ شراب سے انہوں نے رشتہ نہ جوڑا ہوتا تو خمار رسوم و قیود سے باہر نہ نکل پاتے اور نظام کہن میں قید ہو کر رہ جاتے ۔پھر بھی مجاز کی ذہنی ساخت حیاتیاتی وراثت سے منحرف نہیں ہوئی ۔انہوں نے اپنے جبلی اقدار اور سماج کی ثقافتی ذہنیت کا پاس رکھا :

”پینتالیس سال کی عمر میں ایک دفعہ بھی تو ایسا نہ ہوا کہ انہوں نے ایک دفعہ بھی زندگی کی شکایت کی ہو یا کسی کا شکوہ کیا۔زندگی میں ایسا زبردست اعتماد اور اپنی زندگی سے اتنی بے نیازی۔ تلخیاں سہتے ہوئے عمر بیتی اور مزاج میں ذرا تلخی نہ پیدا ہوئی۔“(مجاز میرا بھائی-حمیدہ سالم)

بیتھوون، الڈوس ہکسلے،کولرج،پال گوگین،ڈیلن تھامس،جیمس جوائس، ہیمنگوے، فرانسس بیکن کی طرح مجاز نے بھی psycho active drugs کا استعمال کیا اور غالب کی طرح یہ سوچا کہ :

بے مے کسے ہے طاقت آشوب آگہی

مگر یہی مے رفتہ رفتہ مجاز کی موت کا باعث بن گئی ۔ جس شراب نے مجاز کے شعری تخیل کو نئی زندگی دی تھی،اسی نے حقیقی زندگی کی مدت کو اتنا مختصر کر دیا کہ مجاز کے لئے زندگی اور موت دونوں مترادف بن گئے ۔

شراب کے پہلے گھونٹ میں ہی اس اسرار الحق کی موت ہو گئی تھی جس نے ردولی ضلع بارہ بنکی میں چودھری سراج الحق کے گھر میں جنم لیا تھا ۔مگر مجاز مر مر کر جیتا رہا اور بالآخر شراب نے سردی کی ٹھٹھرتی رات میں آخری سانسیں بھی توڑ دیں ۔

در اصل مجاز کا پورا وجود ہی غم کدے میں بدل چکا تھا ایسے میں مے کدہ ہی ان کی اندوہ ربائی کر سکتا تھا ۔ حمیدہ سالم نے لکھا ہے :

”دلی کے قیام کے دوران جگن بھیا کے دل نے ایک ایسی چوٹ کھائی جس کا زخم ان کی زندگی میں کبھی بھر نہ سکا ۔ مرہم اور پھاہے کا ذکر کیا اس پر مزید چوٹیں لگتی رہیں اور دھیرے دھیرے ان کا پورا وجود ایک ناسور بن کر رہ گیا۔ ان کے اپنے لئے، گھر والوں کے لئے اور سماج کے لئے ۔ انہوں نے محبت کی، ایسی گہری ایسی پائیدار کہ آخر لمحہ تک ان کے دم کے ساتھ رہی ۔لیکن قسمت دیکھو ہاتھ بھی بڑھایا تو شجر ممنوعہ کی طرف ۔ دلی کے چوٹی کے خاندان کی اکلوتی بیٹی چنچل، البیلی اور خوبصورت ،لاڈ و پیار میں پلی ہوئی، عیش و عشرت کی عادی ۔ایک عدد بھاری بھرکم شوہر کی ملکیت یا مالک جو کچھ بھی سمجھئے ۔ یہ بیل منڈھے چڑھتی تو کیونکر “
مجاز کا سارا مسئلہ dislocation کا تھا ۔نظم ’آوارہ ‘اسی کا تخلیقی اظہار ہے ۔ یہی وہ نظم ہے جس میں مجاز کے شخصی اور شعری کردار میں بہت حد تک مماثلت ملتی ہے ۔ یہ مجاز کے نفسی ما فیہ کا بہترین اظہا ریہ ہے :

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میں چل
پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

مجاز کا مزاج ایک ہی محور پر مرکوز نہیں رہا ۔ ان کی ذہنی اور قلبی کیفیت میں تبدیلی آتی رہتی تھی ۔ ان کا دل ایک محشر تھا اور شوق شوریدہ کے ہنگامے ان کے ذہن و دل کی کیفیات بدلتے رہتے تھے ۔

مجاز کی شاعری کا بہت سا معاملہ ’کیف نظر ‘سے جڑا ہو ا ہے ۔ وہی نظر جو مناظر کے ساتھ اپنے زاویے بدلتی رہتی ہے ۔ ان کا نشاط، سر مستی سب اسی ’کیف نظر‘ کا کرشمہ ہیں ورنہ وہ تو ٹوٹے ہوئے دل کی آواز تھے ۔ ان کی شاعری میں جو کیف صہبائے طرب ہے،اس کے پیچھے غموں کی ایک دنیا ہے ۔خواب نشاط کی شکست کا فسانہ ہے ۔ مجاز کی پوری شخصیت کے ساز میں یہی سوز ہے:

سوز کو ساز کے پردے میں چھپا رکھا ہے

 وہ تا حیات کشتگان غم دل اور آشفتگان عشق کی منزل میں ہی رہے ۔ فرش گل کی تلاش میں انگاروں پہ ہی چلتے رہے ۔ وہ طفلی کے خواب سے کبھی باہر نہیں نکلے۔

طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں
اک روز سوز و ساز کی محفل میں ہم بھی ہوں
دل ہو سیر گیسوئے عبنر سرشت میں
الجھے انہیں حسین سلاسل میں ہم بھی ہوں

مجاز نے شکستگی دل کی داستان لکھی مگر فانی کی طرح نہ موت کی انجیل لکھی اور نہ ہی زندگی کو موت کی زبان میں لکھا ۔ وہ جوش حیات کے شاعر تھے ۔ انہوں نے کہا تھا :

بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
کار فرما ہے کوئی تازہ جنون تعمیر
دل مضطر ابھی آماجگہ یاس نہیں

 مجاز کی نظم ’رات اور ریل ‘ان کی اسی کیفیت اور احساس کی تخلیقی تعبیر ہے ۔ یہ جمود کے خلاف انقلاب،استقدام اور اضطراب کی تحریک ہے۔ یہ مستقبلیت پسندی کی طرف ایک اشارہ ہے۔اس نظم میں ان کا مدعا یہ ہے کہ جو قومیں ایک ہی منظر،منزل میں منجمد ہو جاتی ہیں ان کے لئے ارتقا کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ ہر لمحہ ایک نئی منزل اور مقام کی جستجو ہی قوموں کو حیات نو عطا کرتی ہے ۔ رات اور ریل شروع یوں ہوتی ہے :

پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیر لب گاتی ہوئی

اس نوع کی اور بھی نظمیں ہیں جن میں انقلابی تحرک اور باغیانہ توانائی ہے :

دیکھ شمشیر ہے یہ،ساز ہے یہ جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ
صدائے تیشہ مزدور ہے ترا نغمہ
تو سنگ و خشت سے چنگ و رباب پیدا کر
بہے زمیں پہ جو میرا لہو تو غم مت کر
اسی زمیں سے مہکتے گلاب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر

 کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ شاعر مزدور و دہقاں مجاز کے اندر روس کے انہدامیت پسند انقلابی sergey gennadiyevich nyechayev کی روح حلول کر گئی ہے کہ وہ اس رجزیہ یا رزمیہ آ ہنگ میں بھی شعر کہنے لگتے ہیں :

لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں ‘ اے وحشت دل کیا کروں
بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں اس کا شبستاں پھونک دوں
تخت سلطاں کیا میں سارا قصر سلطاں پھونک دوں

 اس کے باوجود ان کی شاعری اس انہدام پسند انقلابی کے catechism سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ہے ۔ ان کے یہاں تو بس جنون تعمیر ہے ۔ویسے بھی مجاز اس طرح کے انقلاب کے متحمل نہیں تھے ۔ فیض احمد فیض نے لکھا ہے کہ :

”شمشیر زنی کے لئے ایک خاص قسم کی دماغی زہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن مجاز کی طبیعت میں زہد کم ہے لذتیت زیادہ ۔ شمشیر زنی کو میں انقلابی شاعری کے معنوں میں استعمال کر رہا ہوں ۔ دماغی زہد سے میری مراد ہے ایک مخصوص انقلابی مقصد کے نشر و اظہار میں کلی ذہنی اور جذباتی یکسوئی،تمام غیر متعلق جذبا تی ترغیبات سے پرہیز، یہ کٹھن اور محنت طلب عمل ہے ۔ مجاز ہم سب کی طرح لا ابالی اور سہل نگار انسان ہیں “
مجاز کے یہاں نظموں کی دو لہریں ملتی ہیں ۔ کچھ داخلی محرکات کے زیر اثر ہیں توکچھ میں خارجی عوامل ہیں۔ کہیں کہیں ان کی خارجیت، داخلیت سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ یہ صرف ذہن کے خارجی تلازمات ہیں جنہیں داخلی موزونیت نے شعروں میں ڈھال دیا ہے ۔ انقلاب کا بھی مجاز کی داخلیت سے زیادہ رشتہ نہیں ہے ۔ یہ محض ماحول، معاشرہ یا مارکسیت کا اثر ہے ۔ مجاز کی داخلی جبلت ایسی نظموں کی نفی کر تی ہے ۔ مجاز کی داخلیت تورومانیت سے جڑی ہو ئی ہے وہی رومانیت جس کی تعبیر پروفیسراحتشام حسین کے لفظوں میں یوں ہے :

”رومان سے مراد حسن و عشق، افلاطونی تخیل بیان نہیں بلکہ روایات سے بغاوت، نئی دنیا کی تلاش، خوابوں اور خیالوں سے محبت، ان دیکھی حسن کی جستجو، وفور تخیل، وفور جذبات، رومانیت میں ڈوبی ہوئی انفرادیات، آزادی خیال حسن سے تا بہ مقدور لطف اٹھانے میں ناآسودگی کا احساس اور کرب“

اور ممتاز ناقد حسن عسکری کے یہاں بھی رومانیت کا مفہوم کچھ ایسا ہی ہے:

 ”سچی رومانیت کے معنی ہیں زندگی اور انسانیت سے گہری محبت، فطرت کا شدید احساس، انسان کے مستقبل کو روشن بنانے کی آرزو، دنیا کے ظلموں کے خلاف بغاوت اور انسانوں کے روح کو سمجھنے کی صلاحیت، ان کے مصائب پر غم کھانا، دنیا کے دکھ درد کو یکسر مٹانے کی خواہش، ایک نئی اور بہتر دنیا کی تلاش، حسن اور حقیقت کی جستجو۔‘

نذر دل،نوجوان خاتون سے،پردہ اور عصمت جیسی نظمیں اسی رومانی انقلابیت کا مظہر ہیں ۔ یہ نظمیں کسی انقلابی فکر کے زیر اثر نہیں بلکہ داخلی محرومی کے احساس سے وجود میں آئی ہیں کہ مجاز کی محبت کی راہ میں یہی حجاب،پردہ اور کنج قفس حائل رہے ہیں ۔ یہ صرف مجاز کی نگاہ عشق تھی جو ہر قید و بند سے آزاد ہونے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ تبھی تو مجاز کہتے ہیں :

حجاب فتنہ پرور اب اٹھالیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھا
تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا
اگر خلوت میں تونے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل
بھری محفل میں آکر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

 انقلاب کے آہنگ میں یہاں عشق بول رہا ہے۔ وہ عشق جس کے خواب نے مجاز کے نصیب میں عذاب ہی عذاب لکھ دیے ۔

شراب کی کثرت اور شبستاں سے محرومی نے ان کی پوری ذہنی کیفیت ہی بدل دی تھی ۔جنوں زار محبت سے حقیقی جنوں کی منزل تک پہچانے میں اسی تشنگی اور محرومی کا دخل رہا ہے ۔ بقول حمیدہ سالم ”جنسی محرومی کے تماشے دلی والوں نے خوب خوب دیکھے ۔جس انسان نے عالم ہوش میں کبھی کوئی چھچھوری اور رکیک حرکت نہ کی تھی ‘ وہ ہر لڑکی کے پیچھے بھاگ رہا تھا “ان کے شبستاں میں کوئی ثریا بخت،زہرہ جبیں،ماہ طلعت،ماہ تمام،لیلی ناز ہوتی ۔ کوئی نو بہار ناز ان کے دامن کی کلی یا آنگن کی مہکار بن جاتی ۔ کوئی مست خرام منزل جاناں مل جاتی ۔ نگاہ شوق کی گرمی کو روئے نگار کی نرمی مل جاتی تو مجاز پر نروس بریک ڈاون کا حملہ نہ ہوتا۔

شبستاں آباد ہو تو قلب و نظر کی دنیا شاداب ہو جاتی ہے مگر مطرب بزم دلبراں مجاز اسی شبستاں سے محروم رہے ۔ مجاز کے سر کو جس شانے کی ضرورت تھی، وہی نہیں ملا ۔حمیدہ سالم نے بہت درد بھرے لہجے میں لکھا ہے:

”جگن بھیا کو ایک ساتھی نہ مل سکا جو ان کے دل کی آواز کو سمجھ سکتا۔ان کو سہارا دے سکتا ۔ جس کی ڈھارس سے وہ زندگی کی تھکن کو دور کر سکتے ۔کاش ان کا ہاتھ کسی نے تھام لیا ہو تا ۔ ان کے لئے ساز بیداری اٹھا لیا ہو تا “

مجاز کو بھی اس کا احساس تھا کہ انہیں محبت کے مرہم کی ضرورت ہے ۔

مرے بازو پہ جب زلف شبگوں کھول دیتی تھی
زمانہ نکہت خلد بریں میں ڈوب جاتا تھا
مرے شانہ پہ جب سر رکھ کے ٹھنڈی سانس لیتی تھی
مری دنیا میں سوز و ساز کا طو فان آتا تھا
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب مسکراتی تھی
مرے ظلمت کدے کا ذرہ ذرہ جگمگاتا تھا
(ایک غمگین یاد )

 نشاط شب مہتاب سے محروم مجاز کا ہی ایک شعر یوں ہے :
میں نے سوچا تھا کہ دشوار ہے منزل اپنی
اک حسیں بازوئے سیمیں کا سہارا بھی تو ہو

مجاز کو خلوت کدہ ناز میں شرف نیاز مل جاتا تو دل کو تھوڑی سی راحت مل جاتی :

دیکھنا جذب محبت کا اثر آج کی رات
میرے شانے پہ ہے اس شوخ کا سر آج کی رات
پھول کیا خار بھی ہیں آج گلستاں بکنار
سنگریزے ہیں نگاہوں میں گہر آج کی رات
نرگس ناز میں وہ نیند کا ہلکا سا خمار
وہ مرے نغمہ شیریں کا اثر آج کی رات
ان کے الطاف کا اتنا ہی فسوں کافی ہے
کم ہے پہلے سے بہت درد جگر آج کی رات

لیکن کسی ناہید کسی پروین کی جنبش مژگاں‘ مجاز کے دھڑکتے دل سے ہم آہنگ نہ ہو سکی ۔ آذر فطرت کی صناعی کے زندہ شاہکار ان کی زندگی کے کینوس میں رنگ نہ بھر سکے ۔

وصال سے محرومی کتنی مشکلات اور مسائل پیدا کرتی ہے یہ تو ماہرین جنسیات ہی بتائیں گے مگر اس بدیہی حقیقت سے تو سبھی واقف ہیں کہ جنسی عمل ایک حیاتیاتی ضرورت ہے ۔ اس کے فوائد و فضائل سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ یہی عمل انسان کو بہت سے اعصابی اور نیو راتی امراض سے محفوظ رکھتا ہے ۔ ذہن کے ساتھ ساتھ جسم کی بھی کتھارسس کر تا ہے ۔ یہ ایک تھریپیائی عمل ہے ۔ مجاز جنسی ناآسودگی کے شکار نہ ہوتے تو شاید ان کی تخلیقیت کچھ اور رنگ دکھاتی ۔ اور ان کے جنوں کا انداز کچھ اور ہوتا.

 مجاز کی اظہاری ہیئت ان کے ہم عصر شاعروں سے الگ ہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ بیماری اور جنوں کے باوجود ان کے الفاظ کی قوت اور افکار کی شوکت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ طبیعت میں اختلال ہوتے ہوئے بھی اظہار میں انتشار نہیں بلکہ ارتباط کی کیفیت ہے ۔ اس کا ثبوت وہ غزل ہے جو انہوں نے رانچی کے مینٹل ہاسپٹل سے اپنی بہن حمیدہ سالم کو بھیجی تھی :

خاک اک زمزمہ خلد تپاں ہے کہ جو تھی
خاک دل سرمہ شہناز جواں ہے کہ جو تھی

 ان کی تشبیہات ‘تلمیحات کا جواب نہیں ۔ نمائش اس کی نمایاں مثال ہے :

وہ محرابیں سی سینوں پر نمایاں
فضائے نور میں کیوپڈ کے شہپر
نفس کی آمد و شد سے تلا طم
شب مہتاب میں جیسے سمندر
کسی میں عکس معصوم کلیسا
کسی میں پرتو اصنام آدر
یہ شیریں ہے وہ نوشابہ ہے شاید
نہیں یاں فرق فرہاد و سکندر
یہ اپنے حسن میں عذرائے وامق
وہ اپنے ناز میں سلمائے اختر

’مادام ‘ میں جمالیاتی پیکر تراشی کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں :

زلف شبرنگ لئے صندل و عود و عنبر
خم ابروئے حسیں دیر کی محراب لئے
لب گلرنگ و حسیں جسم گداز و سیمیں
شوخی برق لئے لرزش سےماب لئے
ایک صیاد خوش اندام سواد مشرق
زلف بنگال لئے طلعت پنجاب لئے

فیض احمد فیض نے ’آہنگ ‘ کے دیباچہ میں لکھا تھا :

”کامیاب شعر کے لئے آج کل کے زمانے کے لئے شمشیر کی صلابت اور ساز و جام کا گداز دونوں ضروری ہیں ۔ “

(حقانی القاسمی معروف صحافی، ممتاز ادیب اور تنقید نگار ہیں،یک موضوعی کتابی سلسلسہ ‘انداز بیا ں ‘ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔)

بشکریہ؛ دی وائر اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).