تاج تیرے لیے ایک مظہرِ الفت ہی سہی!


حسن، کامل حسن، ہمیشہ تباہی لاتا ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ مجھے بے حد حسین چیزیں ہمیشہ خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ اخیر دسمبر کے دن، مارچ کی سہ پہریں، سمندر کنارے طلوعِ آ فتاب کا منظر، چیڑ کے درختوں پہ ٹنگے بادل اور کسی منڈیر پہ یونہی بے دھیانی میں بیٹھے جنگلی کبوتر۔ یہ سب اور وہ سب حسین مناظر، جو دن رات کے تھکے ہوئے مناظر کے درمیان غیر معمولی طور پہ اچانک جھلکتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں، مجھے بہت ڈراتے ہیں ۔یہ سب تباہی کے واہمے ہیں جو اچانک کسی عام منظر کو خاص بناتے ہیں صرف اس لیے کہ ہم آنے والی تباہی کو بھانپ جائیں۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ہم اس حسن میں کھو جاتے ہیں۔

حسن کا ایک ایسا ہی منظر، آ گرہ میں جمنا کے کنارے، سنگِ مر مر کی سلوں میں مقید ہے۔ ممتاز محل کا یہ مقبرہ، اسلامی فنِ تعمیر کی معراج ہے۔ جن لوگوں نے اسے قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کے دودھیا حسن میں کیسی کشش ہے۔ باوجود یہ کہ تاج محل ایک مزار ہے، مگر اسے دیکھ کر کبھی موت کا خیال نہیں آیا بلکہ ہمیشہ یہ ہی لگا کہ اس کی شکل میں محبت مجسم ہے۔

صدیوں تک تاج کا حسن، لوگوں کو مسحور کرتا رہا، پھر اسی ہندوستان میں، ساحر جیسا ایک ضدی شاعر بھی پیدا ہوا، جس نے تاج محل کو محبت کی علامت ماننے سے انکار کر دیا۔

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در دیوار، یہ محراب، یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے !

سنا ہے کہ ان کی یہ نظم فلم لیڈر کے لیے لکھی گئی تھی لیکن، تاج محل کے بارے میں ان خیالات کو فلم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یوں بنی ہوئی دھن کے باوجود، شکیل بدایونی سے نئی نظم لکھوائی گئی،

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

لیکن ساحر کی یہ نظم فوراً ہی فلم ‘غزل ‘ میں لی گئی۔ دونوں نظمیں اپنی اپنی جگہ شاہکار ہیں۔ تاج محل میں سوئی ممتاز محل کو قطعاً پروا ہ نہیں کہ اس کے عاشق بادشاہ کو دنیا کس کس نام سے پکارتی ہے اور تاج کی تعمیر کے دوران پڑنے والے قحط پہ کیا کیا مقالے لکھے جاتے ہیں۔

سوشلزم کا مرض ذرا مدھم ہوا تو تانیثیت پسندوں نے شور مچایا کہ واہ رے بادشاہ! کیا تیری محبت تھی؟ پندرہ برس کی شادی میں چودہ بچے؟ یہاں تک کہ وہ بے چاری مر ہی گئی۔ اس کے بعد تجھے یہ مزار بنواتے شرم نہ آ ئی؟ بہت اچھا ہوا اورنگ زیب نے تیری درگت بنائی اور تجھے قید میں ڈالا۔

یہ گرد ابھی دبی نہ تھی کہ کچھ لوگ ایک دور کی کوڑی لائی اور ناک کی پھننگ پہ پھسلتی عینک کو بار بار واپس ٹکاتے، یہ بتایا کہ جب شاہ جہاں یہ مزار بنوانے میں مشغول تھا، عین اس وقت امریکہ میں ہارورڈ یو نیورسٹی بن رہی تھی۔ نکمو، نا اہلو، عاشق مزاجو، اگر یہ تاج محل نہ بنتا تو یقیناً آ ج تم سب بھی امریکہ کی طرح سپر پاور ہوتے، مگر نہیں، تم کو تو عشق بگھارنا تھا، بگھارو !

پھر خبر سنی کہ تاج کے پتھر کو کینسر ہو گیا۔ یہ بھی ایک عجیب خبر تھی، بھلا پتھروں کو بھی کینسر ہوتے ہیں؟ اسی زمانے میں ہمارے ایک ماہر تعمیرات دوست نے یہ کہنا شروع کیا کہ تاج ایک ایرانی عمارت ہے جو غلطی سے ہندوستان میں بن گئی۔ اس کا کوئی بھی تعلق اس زمین سے نہیں۔ میں چونکہ کم عقل ہی نہیں باقاعدہ غبی ہوں، اس لیے یہ بات سمجھ نہ آ سکی اور آ ج تک حیران ہوں کہ اس بات کا کیا مطلب؟

ہمارے بچپن میں قریباً ہر گھر میں ایک تاج محل ضرور سجایا جاتا تھا۔ پھر شاید گزرتے وقت کے ساتھ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ تاج محل چونکہ پاکستان میں نہیں اس لیے اسے ہمارے گھروں میں نہیں ہونا چاہیے۔

تاج محل، کارنسوں اور مینٹل پیسز سے غائب ہوا مگر ذہن سے محو نہ ہو سکا۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ حال ہی میں یوگی آ دتیہ ناتھ جی نے بھی اعلان کر دیا کہ تاج محل، ہندوستانی نہیں۔ کیونکہ اس کے بنانے والا شاہ جہاں، نہ صرف مسلمان تھا، بلکہ مقامی بھی نہ تھا،گو اس کی اگلی اور پچھلی کئی نسلیں اسی ہندوستان میں رلتی پھریں لیکن اب جو حکم آ دتیہ جی کا۔

تاج محل کو اس اعلان سے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔ سیاحت کی رسالے سے اسے یکسر غائب کر دیا گیا، تب بھی تاج وہیں کھڑا ہے۔ جمنا کے کنارے، اکیلا، اپنے حسن میں خود ہی محو، حسنِ کامل۔ وہ ایرانی ہے، یا ہندوستانی؟ اسے کسی بات سے کوئی غرض نہیں، وہ تو جمنا کے پانیوں میں اپنا عکس دیکھ دیکھ کر خود ہی نہال ہوتا ہے۔ جایئے یوگی جی ! بھلا کوئی تاج پہ بھی سیا ست کرتا ہے ؟ ہنہہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).