شوبز انڈسٹری اور جنسی ہراسانی کے الزامات کی حقیقت


انسان زندگی میں بہت سے تجربات اور مشاہدات سے گزرتا ہے۔ ایک بار کا قصہ سنیے۔ ان دنوں میں پنڈی میں رہتا تھا، اور ایک ڈرامے کی رِکارڈنگ کے لیے لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھیرا ہوا تھا۔ ہوٹل کا وہی کمرا میرا ”آفس“ بھی تھا۔ سب وہیں اکٹھے ہوتے اور شوٹنگ لوکیشن پر پہنچ جایا کرتے۔ ایک رات ہم شوٹ سے لوٹے تو ایک اداکارہ نے کہا، ”آج مجھے گھر نہیں جانا، اگر اسی ہوٹل میں ساتھ والا کمرا بک کروالو، تو میں تمھارے پیسے پورے کر دوں گی۔“ میں ہنس پڑا اور اس کی پیش کش کو مذاق میں ٹال دیا۔ جب اس نے اصرار کیا تو میں نے ایک میٹریس منگوایا، اور اسے کہا یہیں اسی کمرے میں سوجائے۔

میرے کیمرا مین عمر اور تجربے میں مجھ سے کہیں بڑے تھے؛ اُن کا احترام واجب تھا۔ اگلی صبح وہ آئے تو خاتون کو فرش پر بچھائے میٹریس پر سوتا دیکھ کر میری طرف معنی خیز نظروں‌ سے دیکھا کیے۔ معلوم نہیں مجھے اپنی پارسائی جتلانا تھی، یا بے گناہی ثابت کرنا مقصود، انھیں حقیقت احوال سنا دیا۔ شوٹ جاری تھی، بیچ بیچ میں جب جب وقفہ آتا، تو کیمرامین باآواز بلند اس اداکارہ سے پوچھتے، ”ظفر تمھیں کمرا لے دیتا، تو تم اس کے پیسے کیسے پورے کرواتیں؟“ آج بھی وہ آنکھیں یاد آتی ہیں، جو مجھے شکوہ بھری نظروں سے دیکھتی رہیں، تو اپنی غلطی پر ماتم کرتا ہوں؛ کیا تھا جو میں کیمرامین کو نہ بتاتا۔ آپ کہیے میں اپنے اس ظلم کا ماجرا سناتے ہوئے،  Me too کا ہیش ٹیگ لگاوں؟

ہاروی وائن سٹین کا جنسی اسکینڈل سامنے آتے ہی کچھ اور اداکاراوں نے اپنے تجربات بیان کرنا شروع کیے۔ پروڈیوسر ہاروی وائن سٹین کے بارے میں بتایا جارہا کہ وہ بہت سی خواتین سے دراز دستی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہالی وُڈ کی اداکارہ جینیفر لارنس نے شکوہ کیا، کہ ”جب وہ ایک فلم کے لیے آڈیشن دینے گئیں تو انھیں ایک خاتون پروڈیوسر نے کہا کہ وہ عریاں ہو کر قطار میں کھڑی ہو جائیں۔“ لارنس نے کہا کہ ”یہ تجربہ ‘باعثِ ذلت’ تھا کیوں کہ ان کے قریب کھڑی لڑکیاں ان سے دُبلی پتلی تھیں۔“ اخباری رپورٹ کے مطابق جینیفر لارنس نے کہا، کہ انھیں شہرت ملنے سے پہلے ان جگہوں پر کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ جوں جوں ان کی شہرت بڑھتی گئی، انھیں اس قسم کی حرکتوں سے پناہ ملتی گئی۔ انھوں نے مزید کہا، ”میں اپنی آواز کسی بھی لڑکے، لڑکی، مرد، عورت کے لیے بلند کروں گی جو محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنا تحفظ نہیں کر سکتے۔“ وہ بتاتی ہیں کہ پروڈیوسر نے انھیں کہا، کہ وہ اپنی عریاں تصاویر لیں اور انھیں اپنی خوراک کم کرنے کے لیے بطور ‘تحریک’ استعمال کریں۔ جینیفر لارنس کے اس بیان کا ہاروی وائن سٹین کے جنسی اسکینڈل سے کیا تعلق تھا، میں سمجھنے سے قاصر رہا؛ مجھے تو اتنا سا تعلق محسوس ہوا کہ ایسے موقع پر جب کوئی گڑھے میں گرا ہو، اسے پتھر مارنے سے باز نہ آیا جائے۔

اسی حوالے سے بالی وڈ کی اداکارہ پوجا بھٹ کا کہنا ہے کہ ”خود بالی وڈ میں کئی ہاروی وائن سٹین ہیں، لیکن لوگ آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔“ بالی وُڈ اداکارہ ٹسکا چوپڑا نے کہا کہ ”اپنے ساتھ جنسی زیادتی کی ذمہ دار خود عورتیں ہی ہوتی ہیں۔“ آپ ذہن میں رکھیے گا، پوجا بھٹ ان میں سے ہیں جو اپنا بھرپور کیریئر گزارچکی ہیں۔ اپنی ناکامیوں یا رِٹائرمنٹ کے بعد بہت سوں کو ”سچ“ یاد آنے لگتے ہیں۔

شوبز میں یہ سننا حیرت کا باعث نہیں کہ کوئی غیر معروف اداکارہ کہے، اسے مرکزی کردار میں چنا جائے، بدلے میں جو چاہیں لے لیجیے؛ اس پیش کش کا اور کیا مطلب لیا جاسکتا ہے؟ جی ہاں! وہی معنی ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ لڑکیاں ڈراموں میں کام کرنے کے لیے یا اہم کردار لینے کے لیے ایسی پیش کش کرتی ہیں، جسے مشہور ہونے کے بعد ‘جنسی حملہ’ قرار دیں۔ اسی طرح ان کی کمی نہیں جو کسی کو پروموٹ کرنے کے لیے ایسی شرط رکھ دیتے ہیں۔ ایسے ہی غیر معروف لڑکے اداکار بننے کے لیے رقم کی پیش کش کرتے ہیں، یا وہ اہم شخصیات جو کسی کو انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں، وہ ہم جنس پرست ہوں، وہاں ایسے لڑکوں کو ”ترقی“ کرنے کے رقم دینے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ ایسا نہیں ہے کہ سب اداکار، سب اداکارائیں اسی مرحلے سے گزر کے آگے بڑھی ہوں، بہت سے فن کار ہیں جنھوں نے صبر کا، محنت کا طویل راستہ چنا ہے، انھی کا احترام ہوتا ہے؛ سب کو ایک ہی ترازو میں تولنا ناانصافی ہو گا؛ لیکن کیا ہے کہ پورا سچ میرا اور آپ کا خدا جانتا ہے۔ یہ شوبز انڈسٹری ہے، اس چکاچوند کے پیچھے جو اندھیرا ہے، اس میں سب دھندلا ہے، کبھی صاف تصویر نہیں دکھائی دیتی۔

جینفر لارنس سے پوچھا جانا چاہیے تھا، کہ کیا ان کے کپڑے زبردستی اتروائے گئے؟ ان کے بیان سے ایسا ثابت نہیں ہوتا۔ جب کوئی اداکار یا اداکارہ آڈیشن کے لیے جاتا ہے، تو آڈیشن لینے والا جہاں اس کی بول چال، آداب نشست و برخاست دیکھتا ہے، وہیں اس کے جسم کے اعضا پر بھی غور کرتا ہے۔ ہمارے یہاں کئی بار ایسا ہوتا کہ کوئی لڑکی آڈیشن کے لیے آتی ہے تو برقع میں ملبوس ہوتی ہے؛ اسے کہا جاتا ہے کہ برقع اتار دیں۔ ایسا اس لیے بھی کہ انھیں اسکرین پر برقع پہن کر تو آنا نہیں ہے۔ ہالی وڈ ہو بالی وڈ یا دُنیا کی کوئی بھی شوبز انڈسٹری ہو، وہاں آڈیشن لیتے وقت اعضا کی پیمایش معنے رکھتی ہے۔ ایسی انڈسٹری جہاں کپڑے اتار کر اسکرین پر آنا معمول ہو، وہاں کپڑے اتروا کے آڈیشن دینے  پر شکایت کرنا سمجھ نہیں آیا، اور اگر ‘ذلت’ اس بات پر محسوس ہوئی کہ ساتھ کھڑی برہنہ لڑکیاں ان کی نسبت دُبلی تھیں، تو یہ پروڈیوسر کا دوش تو نہیں۔ اداکار کا جسم ہی اس کی ”فیکٹری“ ہے۔ اس کی دیکھ بھال کرنا، خیال رکھنا اس کی جاب کا حصہ ہے۔

آپ اتفاق کریں یا نہ کریں؛ کسی بھی دوسرے شعبے کی نسبت، شوبزانڈسٹری میں جنسی بے راہ روی کا شور تو مچایا جاسکتا ہے، لیکن جنسی ہراسانی کے واقعات کم کم ہوں‌ گے، اور ان میں سے بھی بہت سے جھوٹے الزامات۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran