مدارس سے میں کیا چاہتا ہوں؟


وشنو پربھاکر کے معروف ناول ”آوارہ مسیحا“ میں صفحہ نمبر 201 سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

”میں جانتا ہوں کہ جسم کے خاص حصے لوگوں کو کھول کر نہیں دکھائے جاتے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ زخمی حصے بھی نہیں دکھائے جاتے۔ سماج میں اگر کوئی ایسا ڈاکٹر ہے جس کا کام زخموں کا علاج کرنا ہے تو کیا وہ کسی کی سنتا ہے؟ جو پک گیا ہے اسے باندھے رکھنا دوسروں کی نظروں کو اچھا تو لگ سکتا ہے، لیکن جس آدمی کے جسم میں گھاؤ ہے، اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ “

مدارس اسلامیہ کے حوالے سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی۔ نئے نکات اور دلائل سامنے رکھے گئے، بعض سطحی تبصروں سے قطع نظر گفتگو میں خاصا مواد تھا، جس سے بہت سوں کو بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ہو گا۔ میرے مضامین پر بھی تنقید ہوئی جس کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ مدارس اسلامیہ کے سلسلہ میں جو بحث ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے، کہ مدارس کے حوالے سے ہمارے یہاں ایک جماعت حد درجہ محتاط اور حساس ہے۔ شاید اسی لیے بعض اوقات یہ افراد تنقید کو مذمت سمجھنے لگتے ہیں۔ ان سب کا خلوص اپنی جگہ لیکن ان حضرات کا خاص طور پر شکریہ، جو تنقید پر غور کرکے بحث کو صحت مند انداز میں آگے بڑھانے کے عادی ہیں۔ ہمیں مدارس اسلامیہ پر گفتگو کے حوالے سے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں اصلاح ضروری ہو، وہاں اصلاح بہرحال ہونی ہی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، ان میں سوچنے اور سوال کرنے کی صفت منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ سوال کرنے کے ایک نہیں متعدد فوائد ہیں۔ اس سے غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہے، معلومات میں اضافے کی راہ نکلتی ہے؛ اصلاح کا امکان رہتا ہے، اور معاشرے میں مکالمے کو فروغ ملتا ہے۔ ایسے معاشرے کی اصلاح بہت مشکل ہے، جہاں صحت مند تنقید کے بجائے منہ میں ریوڑیاں ڈال لی جاتی ہوں۔ اصلاح طلب باتوں کو دیکھ کر بھی لب پر مصلحت پسندی کا ٹیپ چپکا لیا جاتا ہو اور اصلاحات پر زور دینے کے بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہو۔ یہ بات بھی ذہن نشیں کرنے کی ہے کہ کوئی بھی دنیاوی نظام کامل نہیں ہے اور ہر ایک میں اصلاح کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ صحت مند تنقید کو سن کر اس میں سازشی تھیوری تلاش کرنے کے بجائے اصلاح کی کوشش کرنا ہی صحت مند اذہان کی نشانی ہے۔

مدارس کے حوالے سے میری تمام بحث کو اس طرح دیکھا جانا چاہیے، چوں کہ میں خود برسوں مدرسے کے ماحول میں رہا ہوں، اس لیے یہ میرا حق بھی ہے اور فرض بھی، کہ وہاں جو کمیاں کوتاہیاں میں نے محسوس کیں، ان پر بات کروں۔ میں نے یہ نہیں سیکھا ہے، کہ شکاری کو آتا دیکھ کر شتر مرغ کی طرح اپنی گردن ریت میں چھپالی جائے۔ یہ سوچ کر مطمئن ہوجانا کہ میں شکاری کو نہیں دیکھ رہا، اس لیے وہ بھی مجھے نہیں دیکھ پا رہا ہوگا۔ میں نے صحت مند تنقید اور سوال کرنے کا سلیقہ اسلامی تعلیمات سے مستعار لیا ہے اور میں اپنی یہ روش محض اس خوف سے ترک نہیں کرسکتا، کہ مجھے کئیوں کی گالیاں سننا پڑیں گی۔

مدرسے میں اپنے قیام اور فراغت کے بعد، افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اتنے سال اس ماحول میں رہنے کے باوجود مجھ میں خود اعتمادی پیدا نہ ہوسکی۔ یہ مجھ اکیلے کا درد نہیں ہے۔ میرے ساتھ مدارس سے نکلنے والی ایک بڑی تعداد ہے، جو اس اذیت ناک تجربے سے گزرتی آئی ہے۔ میرے مضمون کی اشاعت کے بعد مدارس سے فارغ نوجوانوں نے جس انداز سے اپنا دُکھڑا سنایا ہے، وہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ میں سرے سے مدارس کی افادیت کا منکر نہیں ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں اس افادیت کا بھی معترف ہو جاوں جو ان میں ہے ہی نہیں۔ مدارس پر میرے مضمون کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے گئے، ان میں کچھ ایسے ہیں جن کا جواب میرے سابق مضمون میں موجود ہے۔ ایسے برادر میرے مضمون کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں، ان کو تسلی بخش جواب مل جائے گا۔ ہاں! کچھ سوالات ایسے ضروری ہیں جو وضاحت چاہتے ہیں۔ بعض اشخاص نے استفسار کیا، کہ کیا میں اپنے مضمون میں اسکول اور مدارس کا موازنہ کررہا ہوں؟ ظاہر ہے انھوں نے میرا مدعا سمجھا ہی نہیں۔ ان کی آسانی کے لیے اپنے گزشتہ مضمون کے نکات الگ کرکے بیان کرتا ہوں:

اول: مدارس کے طلبہ کی ذہنی سطح؟
دوم: مدارس کے فارغین کے اندر بنیادی صلاحیتوں کے فقدان کے اسباب؟
سوم: مدارس کے نصاب میں ضروری اصلاحات
چہارم: مدارس کے فارغین کو سماجی اعتبار سے بیدار کرنے کی تدابیر
پنجم: احساس کم تری؛ احساس برتری؛ مدارس کی تنزلی کی جڑوں کی کھوج

مجھے سمجھ نہیں آیا، ان مندرجہ بالا نکات میں ایسا کیا تھا، جس پر مدارس سے متعلق افراد اتنے بگڑ گئے؟ میں نے مندرجہ ذیل سوالات تو نہیں اٹھائے تھے:

اول: مدارس کے انتظام میں آمرانہ رویے
دوم: طلبہ کو اپنے مسلک کے کنویں میں دھکیل کر دوسرے سے حتی الامکان بدظن کرنے کی روش
سوم: مدارس کے بیت المال میں شفافیت کا فقدان
چہارم: تبرے بازی، مناظرے بازی اور تکفیر بازی کا چسکا، وغیرہ

میری گزارش یہ تھی اور ہے، کہ مسلمانوں کی قیادت انھی فارغین مدارس کے ہاتھوں میں ہے، اس لیے وہ ان امور سے بے خبر نہیں رہ سکتے، جنھیں مدارس کے ذمہ داران دنیاوی کہہ کر ایک طرف ڈال دیتے ہیں۔ اب یہی معمولی سی مثال لے لیجیے کہ آج بھی اسٹیشنوں، بینکوں، تھانوں میں پیش ہونے والے مدرسوں سے فارغ التحصیل سائلین دکھائی دیتے ہیں، جو اپنا فارم تک نہیں بھرسکتے۔ گرچہ یہ تلخ بات ہے لیکن حقیقت ہے۔ اس کے جواب میں وہ بھی ہیں جو سوشل میڈیا کو چٹکیوں میں ہینڈل کر رہے ہیں، لیکن اول الذکر جماعت کو بھی تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو بہرحال ہمارا ”اثاثہ“ ہیں۔

بعض محتاط افراد کو یہ شبہ گزرا کہ ہم نے مدرسے کے بارے میں کمیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کرکے آر ایس ایس اور اس طرح کے دوسرے افراد و اداروں کو مدارس کے خلاف مواد فراہم کیا ہے۔ اب یہیں میرا اختلاف شروع ہوجاتا ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ چرچ میں پادریوں کے ذریعے بچوں کے ساتھ جنسی جرائم پر کیا آپ یہی سوچ کر چپ ہوتے ہیں؟ مندروں اور ہندو اسکولوں میں کوئی خرابی اگر آپ کے علم میں آئے، تو کیا آپ لبوں پر یہ سوچ کر تالا لگا لیتے ہیں کہ اس سے فلاں فلاں کی بدنامی ہوگی؟ میں مدارس کی کمیاں کون سا آر ایس ایس کی شاکھا میں جا کر بیان کر رہا ہوں؟ مدارس والے جو پورٹل اور رسائل پڑھتے ہیں، میں نے ان پر اپنی آرا رکھی ہے۔ احباب بضد ہیں کہ جیسے چل رہا ہے ٹھیک ہے تو پھر نتیجہ بھی ویسا ہی ہوگا، جیسا کہ پچھلے تین سو سال سے سب کے سامنے ہے۔

بے عملی کے نتیجہ میں پیدا جمود اور بات برائے بات کے لیے، علما اپنی تقریروں اور بیانوں میں مسلمانوں کی سائنسی خدمات پر تقریریں کرتے ہیں، اور ہر ایجاد کا سرا کسی مسلم سائنسداں سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں، کہ جن اہل اسلام کے ناموں پر مسلمانوں کو ناز ہے، ان میں سے بیشتر یا تو ملحد تھے، یا معتزلہ، یا پھر اپنے اپنے دور میں ذلیل خوار کرکے موت کے سزاوار قرار پائے، یا ملک بدر کردیے گئے۔ عہد وُسطی کے کچھ سائنسدان تو اپنے خیالات کے سبب بہت ستائے گئے اور جنھوں نے ستایا، وہ کوئی اور نہیں مسلمانوں کا صحیح العقیدہ طبقہ کہلاتا ہے۔ شاید ہی کوئی مشہور مسلمان سائنس دان اپنے ملک میں عزت سے جیا ہو، مرا ہو۔ کل تو کل تھا، آج بھی سادہ لوح مسلمان آج کے مسلم سائنسدانوں کے لیے کیسے کیسے سوچتے ہیں، اس کے لیے ہند و پاک میں اے پی جے عبد الکلام کے بارے میں رائے لیجیے، تو ہماری قلعی کھل جائے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں، کہ ذکر اللہ کا کام مدارس میں تو ہو رہا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زمین و آسمان کی خلقت پر طلبا مدارس کی توجہ حقیقی معنوں میں مبذول کرائی گئی ہو۔ کیوں کہ ان پر غور و فکر کے لیے دور حاضر کے علوم سے وابستگی انتہائی ضروری ہے، جس کا عشر عشیر بھی حالیہ مدارس کے نصاب میں داخل نہیں ہے، اور ذمہ داران شاید داخل کرنا چاہتے بھی نہیں۔ فارغین مدارس اس کائنات پر کیا غور و فکر کررہے ہیں، اس کائنات کے بارے میں وہ سوائے اس کے اور کیا جانتے ہیں کہ اسے خدا نے بنایا ہے، اس کائنات میں جو خدا کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں، ان کا کتنا ادراک انھیں ہوا، اور انسانوں کی فلاح کے لیے کیا کچھ انھوں نے کیا؟

سائنس تو چھوڑیے! ریاست یا سماج ہی کو لے لیتے ہیں، جس میں ہم رہتے ہیں، اس میں چلنے والے نظام اور اس کے اسٹرکچر سے اہل مدارس کی ناواقفیت اور عدم دل چسپی کا رویہ ہے۔ اس کی بات کہی ہے، جس میں انتظامیہ، عدالت، قانون، تھانہ، بینک کے علاوہ، ضرورت کی اشیا میں کھانے پینے سے لے کرکے علاج کی چیزیں، بیماری سے بچاو، لباس، سواریاں، دفتر میں کام آنے والی اشیا وغیرہ سب ہیں۔ اس میں ہماری حصے داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا مدارس سے فارغ ہونے کے بعد طلبا اپنے آپ کو اس پوزیشن پر پاتے ہیں، کہ حالات زمانہ سے نبرد آزما ہوسکیں اور باطل طاقتوں سے پنجہ آزمائی کرسکیں؟

میں کیا اور میری بساط کیا، سرسید کو ملحد، کافر اور ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جن مولویوں نے سرسید کو جدید تعلیمی ادارہ بنانے سے روکنے میں سر دھڑ کی بازی لگادی، انھی کی اگلی نسلیں مسلم یونیورسٹی میں جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر آج بھی کھا کما رہی ہیں۔ سوال برائے سوال والے دریافت کرتے ہیں، کہ مدارس کے طلبا فراغت کے بعد یونیورسٹی میں بی اے، ایم اے کر لیتے ہیں، کیا یونیورسٹی کے فارغ مدارس میں عالمیت فضیلت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اب اس سوال ہی کو دوبارہ پڑھیے، اور جواب پا لیجیے۔ اگر مدارس کا نصاب کافی ہے تو سیکڑوں ہزاروں فارغین کو مدارس سے عالمیت فضیلت کرنے کے بعد بھی یونیورسٹی میں پرائیویٹ داخلے کیوں لینے پڑ رہے ہیں؟ یونیورسٹی کے فارغ کو بھلا کیا پڑی ہے، جو ان مدارس کا رُخ کرے جہاں کے طلبا یونیورسٹی میں داخل ہونے کو بے تاب ہیں۔ ایک جملہ اور طبیعت سے دُہرایا جاتا ہے، مدارس کے طلبا ہر شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ بہت عمدہ، لیکن پورے میں ملک کے لاکھوں فارغین مدارس میں دو ایک کے وکیل، ایک آدھ کے اکاؤنٹینٹ اور آٹھ دس برس میں کسی ایک کے سرکاری افسر بن جانے کو استثنا کہا جائے گا۔ یہ بھی یاد رکھیے گا، کہ یہ دو چار لوگ بھی یونیورسٹی میں آکر اس منزل تک پہنچے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم اہل مدارس ایک عجیب احساس برتری دماغ میں لیے گھومتے ہیں۔ آپ ہم سے سوال کیجیے اور اگر جواب نہ بن پڑ رہا ہو، تو فورا کہیں گے کہ اسلام کی کتنی کتابیں پڑھی ہیں اب تک؟ پہلے کسی قابل ہو جاو، پھر سوال کرنا۔ کیا یہ عمل رسول اسلام کی سیرت سے میل کھاتا ہے؟ مدارس والوں کا معاملہ دُہرا ہے، اول تو انھوں نے علم کو دو حصوں میں تقسیم کی وکالت کی، اپنے یہاں علم نافع کے بجائے اسے جدید علوم کا نام دے کر اس کی تضحیک کی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں کی ٹانگیں بھی جم کر کھینچیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں سب سے زیادہ خدمات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہیں۔ اس وقت کے علما اور مدارس نے سرسید کا کیسا جینا حرام کیا تھا؟ کبھی پڑھیے تو پتا چلے۔

اپنی کمی کا اعتراف کرنے کے لیے شرافت اور کلیجہ دونوں چاہئیے۔ جب تک کوئی شخص یہ مانے ہی گا نہیں کہ وہ بیمار ہے، تب تک اس کے علاج کا عمل کیسے شروع ہوگا۔ مدارس والے جس اعتماد سے کہتے ہیں کہ ہمارا نظام کامل ہے اور اس میں تو کوئی کمی ہے ہی نہیں، اس پر تو ہاورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کو بھی غش آجائے۔ دُنیا بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پر گام زن ہے، ایسے میں اگر مدارس والوں نے طے کرلیا ہے، کہ وہ اپنے یہاں اصلاحات نہیں کریں گے، تو اس سے دنیا کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ مدارس والوں کی کٹ حجتی کسی اور کے ساتھ نہیں، بلکہ اپنے طلبا کے مستقبل کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ اعادہ کر لیں کہ دنیا اب واپس نہیں ہوسکتی، اسے آگے ہی جانا ہے، تو مدارس کی بہت سی مشکلیں آسان ہوسکتی ہیں۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah