ایک برستی شام میں کوؤں کی کہانی


دو کہانیاں ہیں۔ ایک کہانی تو بارش کی ہے اور دوسری کہانی کوؤں کی ہے۔ برستی بوندیں اسلام آباد ایسے خاموش شہر کی پہچان ہیں۔ دس سال پہلے جب اس شہر میں قدم رکھا تو پہلی یاد جو اب بھی ستاتی ہے وہ کچھ بھیگی بوندیں تھیں جو دسمبر کی ایک سرد رات میں گالوں اور پلکوں پر پڑی تھیں۔ مسافرت کے دن تھے۔ سینہ چاکان چمن سے ابھی کوئی شناسائی نہ تھی۔ وقت گزاری کے لئے ایف نائن پارک ایسی خاموش جگہ کا ایک بینچ تھا اور ہم تھے دوستو۔

امجد اسلام امجد کے فاصلوں کی صلیب توتھی مگر ’و ہ میرے نصیب کی بارشیں‘ کسی اور کی چھت پر نہیں برسیں بلکہ باربار وہ مدہم پھوار اپنے چہرے پر ہی محسوس کی۔ اسی بینچ کے پاس ایک ٹھیلہ تھا جس پر ایک کوا ہمیشہ بیٹھا رہتا تھا۔ پاس ہی ایک چھوٹی سی مصنوعی جھیل۔ تجربی اور استقرائی اصول کی گتھی پہلی بار اسی جھیل اور اس کوے سے سلجھی تھی۔

سائنس کہتی ہے پانی اپنی سطح برقرار رکھتا ہے۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فٹے فیتے لے کر سارے دریاؤں اور سمندروں کی سطح ناپنے کا قصد کیا جائے اور ایک طریقہ سامنے موجود ہے۔ برستے بارش کا پانی ادھر ادھر سے ہوتا ہوا اس چھوٹی جھیل میں گرتا ہے۔ اس جھیل میں نشیب بھی ہیں اور فراز بھی مگر پانی سطح برقرار ہے۔ اس کو کہیں بھی آزما لیجیے۔ کسی ناہموار برتن میں پانی ڈال لیجیے۔ کسی تجربہ گاہ میں دس جار لے کر اس میں پانی ڈال لیجیے، نتیجہ یہی نکلنا ہے۔

ادھر دیکھیے سامنے ٹھیلے پر بیٹھا کوا کالا ہے۔ کیا کوا کالا ہی ہوتا ہے؟ اصولی بات یہ ہے کہ ایک کالے کوے کو دیکھ کر تو نہیں کہا جا سکتا کہ سارے کوے کالے ہوتے ہیں۔ مگر میں دیوسائی گیا تھا۔ دیوسائی کے سرے پر ہزاروں پھولوں کے نخلستان میں ایک مردہ بھیڑ پڑی تھی۔ اس بھیڑ پر دسیوں کوؤں کا غول جمع تھا اور وہ سارے کوے کالے تھے۔ میں تھر گیا تھا۔ میں نے تھر کی صحرا میں ایک مردہ اونٹ دیکھا تھا۔ اس اونٹ کی لاش پر جمع کوؤں کے جھنڈ میں کوئی بھی کوا سفید یا نارنجی نہیں تھا بلکہ سارے کالے تھے۔

ہزاروں کالے کوؤں کو دیکھ کر مجھے کہنے دیجیے کہ کوے کالے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہیں ایک آدھ سفید کوا بھی پایا جاتا ہولیکن اس سے اصول پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ استثنیٰ کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ استقرائی منطق سے حاصل ہونے والا علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہوتا ہے۔ چھوڑیئے فنی مباحث کو، کام کی بات کرتے ہیں۔

انسان ایک ذی شعور مخلوق ہے۔ انسانی شکل و ثقافت کے بارے میں عمومی رائے دینے کے لئے تو استقرائی منطق استعمال کی جا سکتی ہے مگر انسانی فکرکے بارے میں استقرائی اصول دلیل کی دنیا میں بہت بڑا جرم ہے۔ مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ افریقہ کے باشندے کالے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سوڈان کے باشندے کالے ہیں۔ مصر کا باشندے کالے ہیں۔ یوگینڈا، ایتھوپیا، الجیریا اور نگر کے باشندے کالے ہیں۔ یورپ کے باشندے گورے ہوتے ہیں۔

کیونکہ فرانس کے باشندے گورے ہیں۔ سپین کے باشندے گورے ہیں۔ فن لینڈ، پولینڈ، اٹلی اور برطانیہ کے باشندے گورے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے باشندوں کا لباس شلوار قمیض ہے۔ کیونکہ پشین کے باسی شلوار قمیض پہنتے ہیں، چمن کے باسی شلوار قمیض پہنتے ہیں۔ کوئٹہ، مکران، خضدار، تربت اور ڑوب کے باشندے شلوار قمیض پہنتے ہیں۔ اس لئے بلوچستان کے باشندوں کی پوشاک شلوار قمیض ہے۔ لیکن کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ افریقی ا قوام بد اخلاق ہوتی ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپی اقوام چور ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عیسائی متشدد ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں؟ یہ تو انسانوں کو کوے سمجھنے والی بات ہے۔

وطن عزیز میں کچھ اچھے دانشوروں نے انسانوں کو بھی کوے سمجھ لیا ہے۔ پہلے تو مجرد اصطلاحات پر محنت کر کے مقتدر معنی تخلیق کیے گئے اور پھر انسانوں پر منطبق کر کے کوے بنانے کی فیکٹری ایجاد کر لی۔ قوم ایسی معروف اصطلاح کو وطن سے الگ کر مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد مذہب قرار پایا۔ کہا گیا ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو ایک ریاست کے اندر نہیں رہ سکتے لیکن اسی سانس میں پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو ایک قوم پاکستانی قرار دیا گیا۔

اس کے بعد ریاست کو نظریات کا چولا پہنا کر انہی غیر مسلم پاکستانیوں کو اقلیتی پاکستانی قرار دے کر ان کی حدود متعین کر دی گئیں۔ لسانی اکائیوں کے محروم طبقات کی آواز دبانے کے لئے ایک یونٹ بنا دیا گیا اور پھر لسانی محروم طبقات کی سیاست کرنے والوں کو حب الوطنی کے شکنجے میں کس دیا گیا۔ بدلتی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سوشل ازم ابھرنے لگا۔ سوشل ازم کی توڑ کے لئے سرمایہ داروں نے صف بندی کر لی تو وطن عزیز نے اسی صف میں کھڑا ہونا پسند کیا جسے داہنے بازو (رائٹ) کی صف کہا جانے لگا۔

سوشل ازم ایسی خالص سیاسی فکر کو مذہب مخالف قرار دے کر سوشلسٹ سیاست کے علمبرداروں کو مذہب دشمن قرار دیا گیا۔ وطن عزیز کے آمریت پروردہ دانشوروں نے سوشل ازم کی ایسی پامال تشریحات کیں کہ اب سنتے ہیں لیفٹ کو ’مذہب بیزار‘ اور رائٹ کو اسلامسٹ کہا جاتا ہے۔ آمریت ہی کے بطن سے اسلام دوستی کا نعرہ پھوٹا۔ اسلامی سیاست داغ بیل ڈالی گئی۔ نئی اصطلاحات رواج پا گئیں۔

یوں ہے کہ سوشلسٹ کو لامذہبیت کے ہم معنی قرار دے دیا گیا، اب ہر سوشلسٹ لامذہب ہے اور کوا ہے۔ نیشنلسٹ غداری کے ہم معنی ہوئی۔ اب ہر نیشنلسٹ غدار ہے یا ’غداری وائرس سے متاثر‘ ہے۔ یہ کوے ملک کی نظریاتی سرحدوں کے لئے خطرہ ہیں۔ روشن خیالی کو مادر پدر آزادی کا ہم معنی لکھا جاتا ہے۔ جو روشن خیالی کی بات کرے گا اور کوا کہلائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس ملک میں مادر پدر آزادی لا کر اسلامی اقدار پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔

سیکولزازم مذہب بیزاری ہے۔ ہر سیکولر کوا دراصل سیکولر ازم نہیں چاہتا بلکہ مذہب بیزار ہے۔ دلیل کی تذلیل یہاں تک پہنچ گئی کہ جمہوریت کو اب کفری نظام لکھا جاتا ہے۔ لبرل اب لبرل فاشسٹ ہے۔ میڈیا کو دجالی لکھا جاتا ہے۔ کسی ادارے کے حدود سے تجاوز کا سوال غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ ایمان کے پیمانے کے لئے لٹمس ٹیسٹ اب جنازے ہیں۔

یادش بخیر! کل ہی کی بات ہے کہ فیس بک پر ایک میسیج ملا جس کی چار سطروں میں مقتدر اداروں، رجعت پسند قوتوں، مزاحمتی گروہوں، عملی فیصلہ جات، ریاستی پالیسی، مزاحمتی تحریک، مذہبی شدّت پسندی، کمیونسٹ فلسفہ، انسانی حقوق، سول سوسائٹی، مغربی جمہوریت، عراق، ویت نام، افغانستان، لیبیا، لبرل ازم کے پردے میں چھپا سرمایہ داری نظام، متبادل نظام، لاٹھی اور ہانکنے جیسی اصطلاحات موجود تھیں۔ اتنے گنجلک موضوعات کو ایک ہی لکیر میں پرو کر ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے جیسے لہجے پر یہی عرض کر سکا کہ خاکسار کو چھ کلمے یاد ہیں۔

صرف و نحو کے گردان یاد ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا ہے، یاد ہے۔ قومی ترانہ ازبر ہے۔ اقبال کی لب پہ آتی ہے دعا بھی یاد ہے۔ قائد اعظم کے بارے میں خاکسار علی اعلان کہتا ہے کہ قائد اعظم نے گیارہ اگست کو کوئی تقریر نہیں کی۔ خاکسار لبرل کا ترجمہ ’لادین‘ ہی درست سمجھتا ہے۔ ان میں سے کسی معاملے پر روشنی ڈالنی تو حاضر ہوں وگرنہ علمی سوالوں سے معذرت درکار ہے۔

داغستان کے رسول حمزہ توف کی ’آرزو‘ یاد آ جاتی ہے۔ ’سب انسان جولاہے ہیں۔ اپنی سانسوں کے تانے بانے سے زندگی کا کپڑا بنتے ہیں۔ کسی کا کپڑا تھوڑا ہے کسی کا زیادہ۔ نادان اس کپڑے سے کفن بناتے ہیں۔ لیکن میں اس سے آزادی کے سرخ سویرے کا پرچم بناؤں گا‘ ۔ عرض ہے کہ ہم نے اس دیس میں انسان کی آزادی کا خواب دیکھا ہے۔ انسان کی برابری کا خواب دیکھا ہے۔ امن کا خواب دیکھا ہے۔ ہم سوچتے سمجھتے انسان ہیں۔ مقتدر دانشوروں سے دست بستہ درخواست ہے کہ جناب عالی!

انسانی افکار پر استقرائی حاشیہ آرائی بذات خود دلیل کی تذلیل ہے۔ آپ معروف و مقبول بیانیہ لکھ کردین و دنیا کا ’نفع‘ ضرور کمایئے لیکن اصطلاحات کو اپنے مطلب کے معنی پہنا کر فتوؤں کا کاروبار تو نہ کیجیے۔ ہم جیتے جاگتے انسان ہیں۔ آپ کی سی رفعت نظر اور بلند آشیانی اور شاہین کی پرواز نصیب نہیں ہو سکی مگر کوے تو نہیں ہیں۔

Mar 13, 2016

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments