ایوب خان کے جرنیل اور بیگم ناہید مرزا کی بلیاں


اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کی اقتدار سے چھٹی کروا کر ایوب خان کی مدد سے ملک پر قبضہ تو کر لیا لیکن اس کے بعد وہ بمشکل بیس دن ہی صدر رہ سکے اور ان کا مطلق العنان حاکم کے طور پر حکمرانی کا منصوبہ پٹ گیا۔ سیاست میں مکافات عمل نام کی کوئی چیز اگر ہوتی ہے تو مرزا جتنی جلدی قدرت کے اس انتقام کا نشانہ بنے اس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملے گی۔ مارشل لا نافذ ہونے کے بعد چند ہی دنوں میں انھیں اندازہ ہوگیا کہ طاقت کی اصل کنجی تو کمانڈر انچیف کے پاس ہے، جو اب ان کی عنایت سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی ہے. انھوں نے پھر اس کے خلاف سازش رچانی چاہی، جس کی مدد سے کبھی ان کی سازشوں کا چراغ جلا کرتا تھا، لیکن اب وہ خود مقابلے پر تھا. اس لیے لینے کے دینے پڑ گئے۔ ایوب خان نے کھلے عام سکندر مرزا کو جتلا دیا کہ طاقت کا سرچشمہ اب ان کی ذات گرامی ہے۔ غیر ملکی صحافیوں کو دونوں سورما انٹرویو دے رہے تھے، جس میں مستقبل کے فیلڈ مارشل نے واضح کیا : ’’اگر صدر یا ان کا جانشین کسی خرابی کی صورت میں موثر کارروائی نہیں کرتے یا خدانخواستہ کوئی غیر معقول حرکت کرتے ہیں اور سیاست دانوں سے مل جاتے ہیں تو میں کارروائی کروں گا اور فیصلے کا اختیار بھی میرے پاس ہو گا۔ ‘‘ الطاف گوہر کے بقول ’’ یہ الفاظ دراصل اسکندر مرزا کے لیے ایک تنبیہ تھی جو انھیں سرعام دی جا رہی تھی۔ ‘‘

واضح رہے کہ جون 1958ء میں جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد اسکندر مرزا نے بطور صدر اپنے ہاتھ سے لکھ کر انہیں دو برس کی توسیع دی تھی۔  اس ضمن میں قدرت اللہ شہاب کی گواہی وزن رکھتی ہے جو اس وقت صدر کے سیکریٹری کے طور پر کام کر رہے تھے۔ 9 جون 1958 کی سہ پہر قدرت اللہ شہاب اپنے دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ صدر اسکندر مرزا حسب معمول پورے ایک بجے اپنے کمرے سے اٹھ کر قدرت اللہ شہاب کے دفتر کی کھڑکی کے پاس آئے اور پوچھا۔ ”کوئی ضروری کام باقی تو نہیں؟” شہاب نے نفی میں جواب دیا تو اسکندر مرزا خدا حافظ کہہ کر ایوان صدر میں اپنے رہائشی حصے کی طرف روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دور چل کر وہ اچانک رکے اور مڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتے واپس قدرت اللہ شہاب کے کمرے میں آ گئے۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی بولے۔ “میں ایک ضروری بات تو بھول ہی گیا”۔ یہ کہہ کر انہوں نے قدرت اللہ شہاب کی میز سے پریذیڈنٹ ہاؤس کی اسٹیشنری کا ایک ورق اٹھایا اور وہیں کھڑے کھڑے وزیراعظم فیروز خان نون کے نام ایک دوسطری نوٹ لکھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کے احکامات فوری طور پر جاری کردیے جائیں۔ اس پر انہوں نے most immediate کا لیبل اپنے ہاتھوں سے پن کیا اور قدرت اللہ شہاب کو حکم دیا کہ وہ ابھی خود جا کر یہ نوٹ پرائم منسٹر کو دیں اور ان کے عملے کے حوالے نہ کریں۔

اس واقعے کو جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب “جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی” میں بڑے منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔

’’9 جون 1958 کو سیکرٹری دفاع نے مجھے بتایا کہ آپ کے عہدے کی معیاد میں 2 برس کی توسیع ہوگئی ہے ۔ اس کا اعلان دوپہر کو ہوگا ۔ یہ توسیع کس طرح عمل میں آئی اور اس کے بارے میں میرا رد عمل کیا تھا اس کی کیفیت مندرجہ ذیل سگنلز سے معلوم ہوگی۔‘‘

وزیراعظم فیروز خان نون کی جانب سے کمانڈر ان چیف پاک آرمی کے نام مورخہ 9 جون 1958۔

’’مجھے بڑی خوشی ہے کہ آپ نے دو برس تک ہماری افواج کے کمانڈر ان چیف کے عہدے پر رہنا منظور کر لیا ہے۔ آپ ابھی بہت کم عمر ہیں، آپ کی عمر ابھی صرف 51 سال ہے لیکن تجربے اور قابلیت میں نہایت پختہ کار ہیں۔ پاکستان موجودہ حالات میں آپ کی خدمات سے محرومی کا نقصان کسی طرح برداشت نہیں کرسکتا اور مجھے یقین ہے کہ پہلے کی طرح ملک کا دفاع آپ کے ہاتھوں میں محفوظ رہے گا۔‘‘

کمانڈر ان چیف کا جواب

’’میں اپنی ملازمت کی توسیع پر آپ کے تعریفی اور حوصلہ افزا پیغام پر شکر گزار ہوں۔ ذاتی طور پر مجھے سبکدوشی پر بھی ویسی ہی خوشی ہوتی جیسے اس عظیم الشان فوج کی خدمت کا مزید موقع ملنے پر ہوئی جس کی تعبیر میری عمر بھر کی تمنا رہی ہے۔

بہر حال میں نے 31 برس تک فوج کا نمک کھایا ہے اور میں نے جو کچھ حاصل کیا اس کی بدولت اور وہ اسی کی ملکیت ہے۔ آپ مطمئن رہیں میری بہترین خدمات فوج اور اس کے ذریعے ملک کی خدمت کے لیے وقف رہیں گی۔‘‘

ایوب خان کی ان صلاحیتوں کے بارے میں قائد اعظم کی رائے کچھ مختلف تھی۔ 1948 میں قائداعظم نے ایوب خان کو مہاجرین کی آبادکاری کی سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی۔ سردار عبدالرب نشتر نے قائداعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خان نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔ قائد اعظم یہ اطلاع ملنے پر برافروختہ ہو گئے۔ انہوں نے سیاہ روشنائی سے موٹے حروف میں فائل پر لکھا۔

’’میں اس آرمی افسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘‘

باخبر ذرائع کے مطابق یہ خفیہ فائل اور اس پر لکھا قائد اعظم کا نوٹ ابھی تک کیبینٹ ڈویژن میں موجود ہے۔

بیگم ناہید مرزا اور ایوب خان

بہرصورت اکتوبر 1958 کے آخری ایام تک اسکندر مرزا کو معلوم تو ہو گیا کہ ان کے دن گنے جا چکے لیکن جاتے جاتے بھی وہ نہ جانے کس دھیان میں تھے کہ ایوب پر وار کرنا چاہا جو اوچھا پڑا۔ ایوب خان کو صدر کی ریشہ دوانیوں کی خبر ہوئی تو انھوں نے ان سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنی نگرانی میں یار خاص کا استعفا ٹائپ کرایا۔ تین معتمدانِ خاص، جنرل اعظم خان، جنرل واجد علی برکی اور جنرل کے ایم شیخ کو اسکندر مرزا سے جبری استعفا لینے کے لیے ایوان صدر بھیجا۔ یہ بھی طے پایا کہ اعظم خان استعفے کی فائل مرزا کے سامنے رکھیں گے۔

کمانڈر انچیف کے فرزند ارجمند گوہر ایوب نے اس عظیم مہم پر روانہ ہوتے وقت اپنا ریوالور ان کو پیش کیا جس میں چھ گولیاں تھیں۔ گوہر ایوب کے بقول ،جنرل برکی نے اس مہم جوئی پر روانہ ہوتے وقت کہا کہ ’یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اسکندر مرزا کے ساتھ ایک تھالی میں کھانے کے بعد اسے دبوچنے جارہے ہیں۔‘ تین رکنی جرنیلی ٹیم، ہمراہ ایک جونئیر افسر عبدالمجید ملک ( بعد میں لیفٹینٹ جنرل بنے اور وفاقی وزیر بھی رہے ) جنہوں نے استعفا ٹائپ کیا تھا اوراب استعفے کی فائل تھامے ہوئے تھے، قصر صدارت پہنچی۔ معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اوپر والی منزل پر محوِاستراحت ہیں۔ ان کی نیند خراب کرنے کا حکم دیا گیا۔ مرزا نے بیدار ہونے کے بعد بیدار مغز مہمانوں کو پیغام بھیجا کہ اوپر آ جائیں تو جواب ملا، نہیں، آپ نیچے اتر آئیں. اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ صدرکو جنرل اعظم خان نے ورود مسعود کا سبب بتایا۔ اسکندر مرزا نے پس وپیش سے کام لیا تو اعظم خان نے اپنی انگلی استعفے کے خاص حصہ پر رکھ کر کہا : ’’ یہاں دستخط کر دیجیے‘‘ اس حکم سے سرتابی کی میزبان کو مجال نہ تھی، اس لیے مانتے ہی بنی۔ شوہر کی تو جان پر بنی تھی اور ادھر عزیز از جان بیگم ناہید مرزا نے جب یہ سب دیکھا تو انھیں نہ جانے کیا سوجھی کہ چلانے لگیں ’’ ہائے! میری بلیوں کا کیا ہو گا ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).