کیا آپ کے باپ بھائی نہیں ہیں؟


انسان مرد عورت کی تخصیص سے جدا اس وقت تک لائقِ احترام ہے جب تک کہ وہ کسی بھی اعتبار سے آپ کو ایذا نہیں دیتا۔ رشتے اور مرتبے کے لحاظ سے مرد و عورت کا ایک دوسرے پر احترام لازم ہے۔ یہ احترام دل سے ہو تا ہے کسی کو بہن یا بھائی بلانے سے نہیں۔ جو خاتون اپنے گھر کے مردوں کی عزت کرتی ہے وہ گھر کے باہر بھی مردوں کی عزت کرے گی۔ جیسی آپ کسی کو عزت دیتے ہیں ویسی ہی عزت آپ کے حصے میں آتی ہے۔

ہم آئے روز یہ فقر ہ تو کسی نہ کسی عورت کے منہ سے سنتے رہتے ہیں کہ ”کیا تمہاری ماں بہنیں نہیں ہیں“۔ لیکن کیا کسی مرد نے بھی کسی عورت سے کہا، کیا تمہارے باپ بھا ئی نہیں ہیں۔ مردوں سے بلا جواز اتنی نفرت سمجھ نہیں آتی۔ ظلم، خوشامد، اقربا پروی، کرپشن، بے حیائی، انتہا پسندی، جہالت سے نفرت کرنے والے خود ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جاتے لیکن مردوں سے نفرت کرنے والیوں کو قدم قدم پر مردوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
بقول شاعر مجھ سے اتنی نفرت ہے تو
میری حدوں سے دور نکل

جنس کے بارے میں اتنا چوکنّا رہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہر مردانہ آنکھ آپ پر گڑی ہے اور اگر ایسا ہے تو قید کر دیجیے خود کو سات پردوں میں۔ باغ میں حسین پھولوں کو دیکھ کر ہر ایک کا ردّ عمل مختلف ہوا کرتا ہے لیکن پھولوں کو نگاہ بھر کے دیکھے بنا گزرنا فطری حسن کی تحقیر جیسا ہے۔ سوچیے غور کیجیے ہمارے گھر کے مردوں اور ان کی گھر میں ہونے والی بے تکلف باتوں پر دھیان دیجیے۔ کبھی کبھی آپ ہی کے گھر میں آپ ہی کے کسی رشتے دار کے ذریعے آپ کے بچوں کی بعض شوخ حرکتوں کا بھی آپ کو پتہ چلتا ہو گا۔ آپ کیا کرتی ہیں اسے پیار سے دیکھتی ہیں اور دل میں کہتی ہیں بڑا بد معاش ہو گیا ہے۔ اور بس، گھر میں ہو نے والی تقریبات میں اور دوستوں کی محافل میں کھلم کھلا مذاق چل رہا ہو تا ہے۔ لیکن آپ کمال بے اعتنائی سے خود کو لبرل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہو ئے ایک بڑا قہقہ لگا دیتی ہیں۔

آج ہم جس ہموار رستے پر گامزن ہیں اس کے پتھر اس مردانہ معاشرے نے ہی ہٹائے ہیں۔ ہمارے ارادے کی مضبوطی اور شخصیت کے اعتماد میں کسی نہ کسی طور ہمارے گھر کے مردوں کی تربیت کا ہی ہاتھ ہے۔ ہاں چند خواتین کہہ سکتی ہیں کہ ان کی تربیت صرف ان کی ماں نے کی ہے لیکن کوئی ان کی ماں سے پوچھے کہ تربیت کا یہ انداز اس نے کہاں سے کشید کیا۔ ہم کوئی آسمان سے نہیں ٹپکے ہمارے اس جیتے جاگتے وجود، بدن میں دوڑتے لہو، ہماری شخصیت اور عادت و اطوار کی بُنت میں ہم اس ہستی کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے، جس کے بنا ہم اس دنیا کی رنگینی میں خود کو شامل کرنے سے قاصر رہتے۔

خواتین اگر خود کے لیے عزت کی طلبگار ہیں تو انہیں مردوں کو بھی ویسی ہی عزت دینا ہو گی۔ جہاں عورتیں اپنے ساتھ ہونے والی بد سلوکی اور ہراس منٹ کے خلاف احتجاج کرتی ہیں وہاں وہ یہ کیوں بھول جا تی ہیں کہ ایسے بہت سے مرد بھی ہیں جو عورت کے اس احتجاج میں اپنی توانا آواز شامل کرتے ہیں۔ عورت کو عورت رہتے ہوئے اپنے عورت پن کو وقار دینا ہے تو یہ ہائے اللہ اور اوئی اللہ سے نکل کر مردوں کی بڑائی ان کی ہمت و برداشت، ان کی مشکلات اور خود کی ذندگی میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا، ان کی فطرت بھی سمجھنی ہو گی۔

عورتوں کی طرح مردوں کے مزاج کے بھی سو رنگ ہو تے ہیں۔ کچھ مردوں کی خواتین میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ خواتین کے بہت اچھے دوست ثابت ہو تے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں عورتوں کی بہ نسبت مجھے مردوں سے باتیں کرنا ہمیشہ سے زیادہ پسند رہا۔ کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین کے پاس محدود موضوعات ہیں جو کپڑوں، جوتوں، ٹی وی ڈراموں سے شروع ہو کر ان کے بچوں کے تعلیمی گریڈز اور کھانے پکا نے کی ریسیپیز پر ختم ہو جا تے ہیں۔

یہ جو ہائے اللہ اوئی اللہ ٹائپ خواتین ہو تی ہیں وہ شرمین عبید چنائے کی طرح ایک دن عیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ کوئی بیس سال پہلے کا واقعہ ہے جب موبائل فون عام نہیں تھے۔ نوید کے دوست آئے یہ گھر پر نہیں تھے، ہم نے کہہ دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ وہ دوست چلے گئے۔ جب نوید آئے تو ہم نے بتایا کہ فلاں دوست آئے تھے۔ پوچھا کہ تم نے انہیں چائے پانی کو پوچھا تھا، ہم نے کہا اکیلی تھی بچے سو رہے تھے، کوئی آجا تا تو کیا سوچتا۔ کہنے لگے تمہیں لوگوں کی پڑی تھی سوچو کیا اسے اپنی عزت اور مجھ سے دوستی عزیز نہیں اگر تم اسے گھر میں بلاتیں تو تمہارے اعتماد کو دیکھ کر اس کے دل میں تمہارا احترام اور بڑھ جاتا۔ اس نے کیا محسوس کیا ہو گا بھابھی ویسے تو مجھ سے اتنی بے تکلف ہیں لیکن انہوں نے دروازے ہی سے لوٹا دیا، ویسے بھی تمہارے بلانے پر وہ خود بھی نہ آتا لیکن تمہیں تو اخلاق کا مظاہرہ کرنا چا ہیے تھا۔

اسی طرح کی اور باتیں جو ہمارے میاں نے سکھائیں اور احترامِ ’ آدمیت ‘ میں اضافہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو اپنے گھر کے مردوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ کیسے خواتین کے احترام میں کن باتوں کو ملحوظ رکھیں اور مردوں کو اپنے گھر کی خواتین کو مردوں کی نفسیات اور مزاج کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے کیوں کہ ان سے بہتر کوئی مرد کو نہیں جان سکتا لیکن ہمارے ہاں الٹ ہوتا ہے۔ خواتین اپنی بیٹیوں کو مردوں سے بچا ؤ کے طریقے تو بتاتی ہیں، ان کا احترا م نہیں سکھا تیں۔ اپنے باپ بھا ئی کے علاوہ ہر مرد انہیں غنڈہ بد معاش اور ان کی عزّت کے درپے لگتاہے۔ ہمارے باپ بھائی اور بیٹوں کی طرح یہ بھی کسی کے پیارے ہیں۔

اور سلام ہے ایسے اداروں کو جو اس کہاوت کو اپنے ایمان کا حصہ بنا ئے بیٹھے ہیں کہ client is always right آغا خان کے ایڈمنسٹریٹر سے عرض ہے کہ گاہک ہمیشہ ہی صحیح نہیں ہو تا۔ شرمین کے ٹوئٹ نے ڈاکٹر کو صرف بے روزگار ہی نہیں، ذہنی اذیت سے بھی دوچار کیا ہے۔ فیس بک پر کتنی ہی لڑکیوں کو اور اپنی، مریضاؤں کو اس نے ریکویسٹ بھیجی ہو گی۔ لیکن اگر کسی بھی مریضہ نے اس کی شکائت کر دی ہو تی تو شاید اسے ہاسپٹل سے معمولی سرزنش کر دی جا تی، نہ تو نوکری جاتی اور نہ خفّت اٹھانا پڑتی، لیکن وہ ٹھہریں شرمین جس کے اس ڈاکٹر جیسے کتنے ہی لوگ مداح ہوں گے۔ اور ڈاکٹر بھی اس خاندان کو مزید جاننے کے لیے اس کی بہن سے دوستی کی درخواست کر بیٹھا۔ اب جب وہ کسی نئی نوکری کے لیے اپلائی کرے گا تو فارم میں نوکری چھوڑنے کی وجہ کیا لکھے گا۔ Sent a friend request to a wrong person۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).