جب عورتیں جذباتی تشدد اور استحصال کرتی ہیں۔۔۔


میں نے پچھلے بلاگ میں ماں بیٹے کے رشتے کا ایک نیا رخ سوچا تو اتفاق سے کل ایک ایسی بزرگ خاتون سے ملاقات ہو گئی جو روایتی سوچوں سے بندھی ہوئی تھیں، بندھی بھی کیا جکڑی ہوئی تھیں۔ اب بیٹے کا سہارا کھوجتی ہیں مگر بہو آڑے آ جاتی ہے۔ ان کی باتوں کے کسی کسی پہلو میں تو سٹار پلس کے ڈرامے کے کرداروں کا سا گمان بھی گزرا۔ مگر اس روایتی قصے کو سنتے سنتے مجھے یہ جو مرد حضرات پر اندرون خانہ تسلط کی جنگ ہے اس میں ایک اور کردار بھی دکھائی دیا، اور وہ تھی، جذباتی تشدد کرنے والی عورت۔ عورت بھی تو فرد ہے نا۔ جہاں اچھی ہیں تووہاں کچھ بری بھی تو ہوں گی۔ وہ بزرگ خاتون کہنے لگیں کہ میرا بیٹا کیا ہے، بس ایک جورو کا غلام ہے۔ اف تک نہیں کرتا اس کے آگے۔ اس کی ناانصافی بھی نظر آ جائے تو بولتا نہیں۔ میں نے پہلے پہل تو ہلکے پھلکے لیا، کہا کہ آخر کیسے میاں کو ایسے قابو کیا جاتا ہے ، کچھ ٹوٹکا مجھے بھی تو بتائیں، اپنی بہو کو دیکھ کر کیا سیکھا آپ نے۔ مگر مجھے ان کی مزید باتیں سنتے سنتے ادراک ہوا کہ ارے یہ خاتون اور ان کا بیٹا تو شدید ترین اموشنل ابیوز کا شکار ہیں۔ میں اس موضوع پر پہلے بھی اپنی ایک دوست کے حوالے سے لکھ چکی تھی جس میں اس کے پورے سسرال نے اسے جذباتی تشدد کا نشانہ بنایا تھا، یہ بات دیکھ چکی تھی کہ اکثر خواتین کو شادی کے رشتے میں اس تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور یہ بھی جانتی تھی کہ مرد حضرات بھی خواتین کے ہاتھوں اموشنلی ابیوز ہوتے ہیں اور کوئی بھی رویہ کسی بھی صنف کے ساتھ نتھی نہیں کیا جا سکتا، مگر اس بات کو اصل زندگی میں ابھی ہی دیکھا۔

 ہم اکثر اپنے ارد گرد یہ کردار دیکھتے ہیں کہ ایک شوہر ہے جو بیوی کے آگے بول نہیں پاتا۔ صرف اس کے کہے پر چلتا ہے اور ایک توازن کے رویے سے ہٹ کر نظر آتا ہے اس کا کردار۔ میاں بیوی کا رشتہ تو میری نزدیک ایک متوازن دوستی اور ساتھ کا ہے جس میں کسی کی اجارہ داری بھی نہ ہواور ایک دوسرے کا سہارا بھی رہے، مگر ہم نے اکثر اپنے اردگرد دیکھا ہو گا کہ کچھ مردوں کے بارے میں ہمارے ہاں اکثر جورو کا غلام، بیوی کے نیچے لگا ہوا جیسی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں، مگر بنا غور کئے۔ عموما ایسے مرد حضرات کو مردوں کی ایک کمزور قسم قرار دے کر ان کا مذاق تو اڑا لیا جاتا ہے مگر اس سے ایک درجہ آگے نہ یہ علم ان اشخاص کو ہوتا ہے اور نہ ان کے اقربا کو کہ ان حضرات کو اکثر صورتوں میں کس قسم کے جذباتی استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ابیوز، ہراسانی اور استحصال کے رویے ایک برتری اور کنٹرول لینے کی خوہش سے جڑے ہوئے ہیں اور ان میں جب کچھ لوگ ایک خاص حد پھلانگ لیتے ہیں تو وہ بس اپنے شکار یا نشانے کو مسلسل تکلیف دے کر اس سے ایک حظ اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ کسی نہ کسی بیمار نفسیاتی رویے سے ہی جڑا ہوا ہوتا ہے مگر ایسے حضرات اور خواتین کا نشانہ بننے والوں کے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ وہ ایک بیمار شخص کے قابو میں ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کا انہیں سوچنا چاہیے۔

 ہمارے ہاں شادی کے موقع پر لڑکیوں کے بارے میں بس شکل کی حد تک ہی سوچا جاتا ہے، شخصیت یا عادات کو جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان کی بہو بھی بہت بھلی صورت کی تھی اور ابتدا میں اس نے خود کو انتہائی بے ضرر بھی ظاہر کیا، مگر شادی کے فورا بعد وہ مکان جو ان بزرگ خاتون اور ان کے میاں نے اپنی روایتی سوچ کے تحت اپنے اکلوتے بیٹے کے نام پر تعمیر کیا تھا، اس کو اپنے نام کروایا اور اس دوران ایک بیٹے کی پیدایش بھی ہوگئی ۔ ایک خاص برتری ان لوگوں پر حاصل کرنے کے بعد اب وہ خاتون ان لوگوں کو مسلسل ایک اموشنل ابیوز کا نشانہ بناتی ہیں۔ لوگوں کے سامنے وہ ایک دو رخی چہرہ رکھتی ہے اور ان سے ایک نرم اور میٹھے رویے سے پیش آتی ہے مگر اصل زندگی میں وہ ان کو سخت تذلیل کا نشانہ بناتی ہے۔ وہ ان کو بتاتی ہے کہ وہ اس گھر سے ان سب کو نکال دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ وہ ان کی کمزریوں پر ہنستی ہے، مگر کوئی اس کی کمزوریوں کے متعلق بات نہیں کر سکتا۔

اس کا اپنے میاں کے ساتھ جو رویہ ہے اس میں اس نے ان کو مسلسل تصویر کا ایک رخ دکھا کر اس تصویر پر یقین کر لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ رویہ انگریزی اصطلاح میں گیس لائیٹنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس رویے میں استحصال کرنے والا فرد اپنے شکار کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ وہ جو سوچ رہا ہے، جو دیکھ رہا ہے، وہ سب ویسا نہیں ہے جیسا کہ اسے دکھائی دے رہا بلکہ حقیقت وہ ہی ہے جوکہ یہ ابیوزر (استحصالی کردار) بتا رہا ہے۔ اس کے میاں کو یقین ہے کہ وہ اس کی سب سے بڑی خیر خواہ ہے۔

وہ اپنے میاں کے روپے پیسے کو مکمل طور سے اپنے تصرف میں رکھتی ہے اور انہیں بتاتی ہے کہ ان میں یہ روپیہ پیسا ڈھنگ سے خرچنے کی اہلیت نہیں ہے۔ وہ کسی کو عزت نہیں دیتی اور کسی کے جذبات کی پروا نہیں کرتی۔ وہ کبھی کسی کی بات نہیں مانتی اور کبھی کسی کی رائے سننے تک تیار نہیں ہوتی۔ وہ ان کے خاندان کی چھوٹی چھوٹی کمزوریاں ہر آئے گئے شخص کے سامنے بیان بھی کرتی ہے اور اس پرطنزیہ ہنسی بھی ہنستی ہے۔ کسی بھی چھوٹی سی بات پر وہ بھڑک جاتی ہے اور بے نقط سناتی ہے۔ اگر اس کو یہ ڈر محسوس ہو کہ کہیں اس سے قطع تعلق نہ کر لیا جائے تو فورا اپنے بیٹے کو ڈھال بنا کر لے آتی ہے کہ اگر مجھے چھوڑا تو اس سے ملنے نہیں دوں گی یا پھر گھر تو میرے نام ہے تم لوگ چلے جاو یہاں سے۔

یہ بزرگ خاتون اس کے آگے بولنے کی ہمت اس لئے نہیں رکھتیں کہ وہ گھر سے بے دخل نہیں ہونا چاہتیں اور ان کا بیٹا اس لئے نہیں بول پاتا کیونکہ وہ اس رویے کا تجزیہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

جذباتی تشدد کا شکار ہونے والے فرد کے لئے سب سے پہلا قدم تو یہ ہے کہ وہ اس تشدد کا ادراک کرے۔ اس سے اگلے قدم پر کوئی مدد، فاصلہ اختیار کرنے یا راہنمائی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ کسی بھی بڑے یا چھوٹے مسئلے کا ادراک ہو جانے کے باوجود اس کے حل کے لئے کوئی مددگار نظام موجود نہیں ہے۔ اس خاص قصے میں بھی اگر شاید مکان ہی ان بزرگ خاتون کے نام واپس آ سکتا تو ان کی صورتحال میں کچھ بہتری آ جاتی مگر قانونی مدد لینے میں حائل مشکلات کی وجہ سے ایک بزرگ خاتون کو یہ مشورہ دینا بھی مشکل تھا۔ ان کے بیٹے کو میں زیادہ جانتی ہی نہیں اس لئے اسے اس ابیوز کا ادراک کروانا بھی مشکل تھا جو کہ اس صورتحال سے باہر موجود شخص کو صاف دکھائی دے رہا ہے۔ مشورہ تو اس شخص کے لئے یہی صائب تھا کہ وہ کسی نفسیاتی مددگار کو ملے اور رہنمائی لے اور اس ابیوزر خاتون سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا سوچے۔

جوں جوں دنیا قریب آ رہی ہے شعور بڑھ رہا ہے، آگہی بڑھ رہی ہے تو کچھ آسانیاں آ رہی ہیں اور کچھ الجھنیں بن رہی ہیں۔ اس دوڑ میں جو لوگ آگے ہیں، جب ہم بہت سے معاملوں میں ان کی سوچیں سوچ کربھی دیکھ لیتے ہیں تو رکاوٹ وہاں پر آتی ہے جہاں اصول اور ضابطے ان سے فرق نکلتے ہیں۔ ایسے میں دنیا میں قسمت یا مقدر کا انتظار کر کے بھی جب سزا ملتی نظر نہیں آتی اور کوشش کرنے سے بھی منصفی نہیں ملتی، تو کچھ انصاف اس زندگی پر ہی چھوڑنے پڑتے ہیں جس میں برے کو سزا دینے کا وعدہ ہے۔

 اس کے بغیر تو نا انصافی شاید جینے نا دے۔

 یہی جواب ان بزرگ خاتون نے دیا جب میں نے پوچھا کہ اب کیا کریں گی آپ؟ کہنے لگیں کہ دعا کروں گی کہ ہدائت دے میری بہو کو میرا سوہنا رب، نہیں تو اگلے جہان میں تو بہتری ہے ہی۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim