دینا جناح کون تھیں؟ پہلا حصہ



یہ 14 اور15اگست 1919ءکی درمیانی شب کی بات ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اپنی اہلیہ رتن بائی کے ساتھ تھیٹر گئے ہوئے تھے کہ ڈرامہ کے دوران رتن بائی نے قائد کو مطلع کیا کہ وہ درد زہ محسوس کررہی ہیں اور انھیں فوراً میٹرنٹی ہوم پہنچایا جائے۔ قائد نے ایسا ہی کیا اور اسی رات ان کے گھر ایک خوب صورت بچی نے جنم لیا جس کا نام دینا رکھا گیا۔
دینا ابھی ساڑھے نو برس کی ہوئی تھیں کہ ماں کے سائے سے محروم ہوگئیں۔

رتن بائی اپنی بیٹی کو اڈیار (مدراس) میں تھیوسیوفیکل اسکول میں داخل کروانا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مکمل معلومات بھی حاصل کرلی تھیں مگر قائداعظم کی مداخلت کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا۔

دینا جناح نے ابتدائی تعلیم بمبئی کے ایک کانوینٹ اسکول میں حاصل کی۔ دینا اگرچہ بیشتر اپنی نانی کے پاس رہتی تھیں اس کے باوجود محمد علی جناح نے دینا کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے ایک گورنس کو ملازم رکھا تھا جس کا نام اسٹیلا تھا۔ وہ بمبئی کی رہنے والی کیتھولک تھی۔ محمد علی جناح کی پیشہ ورانہ اور سیاسی مصروفیات کی بنا پر ان کو دینا کے ساتھ رہنے کے بہت کم مواقع ملتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود دینا اپنے والدین سے شدید محبت کرتی تھیں اور ان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے والدین کے پاس ہی رہیں۔ وہ ہر سال گرمیوں میں اپنے والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کشمیر جاتی تھیں جبکہ دو مرتبہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ لندن بھی گئیں۔

رتی کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد 1930ءمیں قائداعظم ہندوستانی سیاست سے دل برداشتہ ہوکر انگلستان منتقل ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے دینا کو بھی لندن بلوا لیا۔
لندن میں قائداعظم کی زندگی بڑی خاموش اور پرسکون تھی۔ جو بقول اسٹینلے وولپرٹ مشابہت میں قبر کی خاموشی سے کسی طرح کم نہ تھی۔ وہاں ان کا دل بہلانے والی صرف دینا تھی۔ لیکن وہ گھر سے دور بورڈنگ میں رہتی تھی اور کبھی کبھار چھٹیوں میں گھر آتی تھی۔ وہ سیاہ آنکھوں والی خوب صورت، نازک اور دلکش لڑکی تھی۔ وہ اپنی ماں کی طرح ہنستی تھی اور اپنے مخاطبین کی طرح شوخی یا تنک مزاجی سے کام لیتی تھی۔ وہ باپ کے لاڈ سے بگڑی ہوئی بیٹی تھی اس کے پاس دو کتے تھے ایک سیاہ رنگ کا دوبرمین اور دوسرا سفید رنگ کا ویسٹ ہائی لینڈ ٹیریئر۔

نومبر1932ءمیں قائداعظم نے کمال اتاترک کی زندگی پر ایچ سی آر مسٹرونگ کی کتاب ”گرے وولف“ پڑھی۔ کتاب ختم کرنے کے بعد انہوں نے کتاب دینا کو دی اور اس سے کہا ”لو بیٹی اسے پڑھو یہ بہت اچھی کتاب ہے“ اس کے بعد وہ کئی دن تک مسلسل کمال اتاترک کا ذکر کرتے رہے۔ دینا ان دنوں چھٹیاں گزارنے اسکول سے گھر آئی ہوئی تھی۔ قائداعظم نے دینا سے اس کتاب کا اتنا ذکر کیا کہ اس نے ان کا نام ہی گرے وولف رکھ دیا۔ ہر اتوار کو وہ بڑے پیار سے اپنے باپ کو مخاطب کرتی اور کہتی ”گرے وولف، مجھے ڈرامہ دکھانے لے چلیے۔ آخر میں بھی تو اپنی چھٹیاں منانے یہاں آئی ہوں“ اس کے بعد قائداعظم کے لیے پس و پیش کی کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی۔

دینا کو اپنی والدہ کی طرح سیر و تفریح اور سماجی تقریبات میں شرکت کرنے کا ازحد شوق تھا، قیام انگلستان کے دوران انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اس میدان میں خاصی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ قائداعظم کو دینا کے اخراجات کا گوشوارہ باقاعدگی کے ساتھ وصول ہوتا تھا قائداعظم زندگی کے تمام معاملات میں اصراف کے سخت مخالف تھے لیکن دینا کے بارے میں ان کا یہ رویہ بالکل جداگانہ تھا اور وہ ان کی سیر و تفریح، تھیٹر، سینما، قیمتی لباس اور دیگر تمام اخراجات خندہ پیشانی سے ادا کیا کرتے تھے۔

دینا چھٹی کے روز دوپہر اور رات کا کھانا اچھے سے اچھے ریستوران میں کھایا کرتی تھیں، بہترین ہوٹلوں میں قیام کرتی تھیں اور ایام تعطیلات میں کسی نہ کسی تھیٹر یا سینما گھر میں اعلیٰ ترین کلاس کا ٹکٹ خرید کر روز بلاناغہ شو دیکھا کرتی تھیں۔ مس فرانسس براؤن نے 30 جنوری 1932ءکو دینا جناح کے اخراجات کی جو تفصیل قائداعظم کو ارسال کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے دسمبر 1935ءمیں ایک ہفتہ کی تعطیلات لندن میں گزاریں اور اس دوران ہر روز شام کو وہ مہنگا ترین ٹکٹ خرید کر سینما گھر یا تھیٹر میں جاتی رہیں، قائداعظم نے یہ تمام اخراجات بڑی فراخ دلی سے بغیر کسی اعتراض کے ادا کردیئے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قائداعظم اپنی اکلوتی بیٹی سے کس قدر محبت کرتے تھے۔

3ستمبر 1936ءکو مس فرانسس براؤن نے قائداعظم کو ایک اور خط تحریر کیا جس میں انہوں نے مطلع کیا کہ وہ اپنی صحت کی خرابی اور ممکنہ آپریشن کی وجہ اسے اپنا اسکول بند کررہی ہیں۔ مس براؤن نے لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ دینا اس خبر سے دلبرداشتہ ہوگی کیونکہ اسے اپنے اسکول سے بڑی محبت ہے۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

اسی خط میں مس فرانسس براؤن نے قائداعظم کو دینا کی ”پراگریس“ سے بھی مطلع کیا اور بتایا کہ وہ تاریخ اور انگریزی میں اچھی ہونے کے باوجود امتحان میں پاس نہیں ہوسکی ہے کیونکہ اس کی فرنچ، ریاضی اور نباتیات بہت کمزور ہے۔

اسی دوران 1934 ءمیں قائداعظم واپس ہندوستان آگئے تھے ان کی واپسی سے پہلے ہی بمبئی کے مسلمانوں نے انہیں اپنی زندگی کے لیے مجلس قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرلیا تھا۔ چنانچہ واپس آتے ہی وہ سیاسی سرگرمیوں میں بری طرح مصروف ہوگئے اور ان کا اور محترمہ فاطمہ جناح کا زیادہ تر قیام دہلی میں رہنے لگا۔

1936ءمیں دینا کا اسکول بند ہوجانے اور دینا کے فیل ہوجانے کے باعث قائداعظم نے اسے ہندوستان واپس بلالیا۔ قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر دینا کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اسے اس کی ننھیال میں چھوڑ دیا جائے۔ یہ فیصلہ اس حوالے سے تو بڑا اچھا ثابت ہوا کہ دینا کو ایک محبت سے بھرپور فضا میسر آگئی مگر اس حوالے سے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ ایک سراسر غیر اسلامی ماحول میں ڈھل گئیں۔

سر ڈنشا پیٹٹ اور لیڈی پیٹٹ پارسیوں کے انتہائی معزز ارکان میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا خاندان بڑا آزاد خیال اور جدت پسند واقع ہوا تھا۔ دینا آہستہ آہستہ اس ماحول کے رنگ میں رنگتی چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ رفتہ رفتہ اسلام اور اس کے رسوم و رواج حتیٰ کہ اپنے والد کے اصولوں سے دور ہٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ اس نے ایک پارسی نژاد عیسائی شخص نیول واڈیا سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔

جب قائداعظم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو انہیں سخت فکر لاحق ہوئی۔ انہوں نے پہلے تو خود دینا کو اس روش پر چلنے سے روکنا چاہا۔ اسے سمجھایا، بجھایا، افہام و تفہیم سے کام لے کر اسے اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد انہوں نے مشہور مسلمان رہنما مولانا شوکت علی کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ دینا کو اسلام کے زریں اصولوں اور ان کی اہمیت سے روشناس کروائیں۔ مگر وہ بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دینا کے خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہے۔

قائداعظم کے ایک دوست جسٹس ایم سی چھاگلہ نے اپنی سوانح حیات ”ROSES IN DECEMBER“ میں لکھا ہے کہ‘
”جناح نے حسب معمول اپنے نادر شاہی انداز میں دینا سے کہا ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکے موجود ہیں اور وہ جسے پسند کرے اسی کے ساتھ اس کی شادی کردی جائے گی“ اس پر دینا نے جو حاضر جوابی میں اپنے باپ سے بڑھ کر تھی، برجستہ کہا ”ابا جان! ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکیاں موجود تھیں، آپ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی تھی؟ “

دینا نے اپنی شادی کے ایک طویل عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ :
”پاپا نے میری بات سکون سے سننے کے بعد انتہائی متانت سے جواب دیا ”میری پیاری بیٹی، تمہاری ممی نے بھی مجھ کو منتخب کرنے کے بعد اپنے ڈیڈی سے شادی کی اجازت طلب کی تھی جو انہوں نے بطیب خاطر دے دی تھی۔ میں بھی تمہیں اس کی خوشی کے ساتھ اجازت دوں گا لیکن شرط ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا ہونے والا شوہر اسلام قبول کرلے تاکہ تمہارا نکاح اسلام کی شرط کے مطابق ہوسکے۔ “ پھر پاپا نے نہایت شفقت سے مجھے متاہل زندگی کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ مذہبی عقائد میں ہم آہنگی سے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں بہت مدد ملتی ہے“۔

”پاپا نے یہ سب باتیں کسی قسم کے جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہایت پرسکون لہجے میں کہیں۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ پاپا کا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔ میں نے دل میں کہاکہ یہ میری زندگی کا پہلا فیصلہ کن مرحلہ ہے، میں نے پاپا سے وعدہ کیا کہ میں اپنے شوہر کے اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گی اور اگر ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں پایا کی رہنمائی بھی حاصل کروں گی“۔

”جب میں نے مسٹر واڈیا سے شادی سے پہلے اسلام قبول کرنے کے متعلق کہا تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف صاف انکار کردیا۔ اب میرے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو میں اپنے باپ کی خواہشات کے مطابق مسٹر واڈیا سے شادی کرنے سے انکار کردوں یا مسٹر واڈیا سے شادی کرکے باپ کی ناراضی مول لے لوں۔ میں نے دل میں کہا، واڈیا سے شادی کرلینی چاہیے باپ آخر باپ ہے چند دن، مہینے، ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ناراض رہنے کے بعد خود بخود مان جائیں گے چنانچہ میں نے ایک دن پاپا کو اپنے اس ارادے سے مطلع کردیا“۔

میری باتیں سننے کے بعد پاپا نے برف کی سی ٹھنڈک کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ”بیٹی، تم جانتی ہو کہ تمہارے سوا میری اور کوئی اولاد نہیں۔ مجھے تم سے جتنی محبت ہے اس کا اندازہ لگانا تمہارے لیے ممکن نہیں۔ میرا بیٹا بھی کوئی نہیں اس لیے لے دے کے زندگی میں تم ہی میری آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہو لیکن اب تم بالغ ہو۔ میں تمہارے فیصلے میں حارج ہونا پسند نہیں کرتا۔ اب تم میرا فیصلہ بھی سن لو اگر تم نے جان بوجھ کر برضا ورغبت ایک غیر مسلم سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تم شرع محمدی کے مطابق مسلمان نہیں رہ سکتیں۔ تم مرتد قرار پاؤگی۔ اسلام خون کے رشتوں کو قبول نہیں کرتا اس لیے اس کے بعد تم میری اصطلاحی بیٹی تو شاید کہلا سکو۔ لیکن درحقیقت تم میری بیٹی اور میں تمہارا باپ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس فیصلے کے بعد جونہی تم میرے گھر کی چہار دیواری سے باہر پاؤں رکھوگی تمہارے اور میرے درمیان تمام تعلقات منقطع متصور ہوں گے“۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد پاپا نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا ”کاش میں تمہیں تمہارے فیصلے سے باز رکھ سکتا۔ کاش، تمہیں معلوم ہوتا کہ میرے سینے میں باپ کے دل کی جس کی ایک ہی بیٹی ہو کیفیت کیا ہے، لیکن میں اسلامی احکام کے آگے اپنے آپ کو بے بس اور لاچار پاتا ہوں“ یہ کہہ کر پاپا گردن جھکائے ہوئے میری سسکیوں کے درمیان اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔

جب میرے پاپا مجھ سے یہ گفتگو کررہے تھے تو میں یوں محسوس کررہی تھی کہ اس وقت وہ پاپا نہیں تھے جن کے گلے سے لپٹ کر میں خر خر کیا کرتی تھی۔ ان کی آنکھیں، ان کا چہرہ کسی اور ہی دنیا کے نظر آتے تھے۔

دینا نے اسلام ترک کردیا اور15 نومبر1938ءکو نیول واڈیا سے شادی کرلی۔ قائداعظم نے اس شادی میں شرکت نہیں کی مگر اپنی بیٹی کی زندگی کے اس اہم دن پر اسے گلدستہ بھیجنا نہیں بھولے۔ انہوں نے اسے یہ گلدستہ اپنے ڈرائیور عبدالحئی کے ذریعے بھجوایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).