لنڈے کا لبرل دیس کے غریبوں کا دوست ہے


نکولائی گوگول نے ’اوورکوٹ‘ کے عنوان سے ایک کہانی لکھی تھی۔ اس افسانے کے بارے میں دوستوئے فسکی نے کہا تھا، ’ہم سب نکولائی گوگول کے اوورکوٹ سے نکلے ہیں‘۔ دوستوئے فسکی کا اشارہ اپنے علاوہ آئیوان ترگنیف اور لیو ٹالسٹائی کی طرف تھا۔ اردو لکھنے پڑھنے والوں کی عالمی ادب تک رسائی ہوئی تو گوگول کا ’اوورکوٹ” ہمارے یہاں بھی آن پہنچا۔ کون ہے جس نے غلام عباس کا افسانہ اوور کوٹ نہیں پڑھا؟ راجندر سنگھ بیدی نے بھی ’گرم کوٹ‘کے نام سے ایک افسانہ لکھا۔ ہمارے یہاں موسم سرما یورپ جیسا سخت نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں تو موسم سرما درحقیقت موسم گرما کی عارضی وضع داری کا نام ہے۔ لیکن غریبوں کے لیے اتنی سردی بھی قیامت ہوتی ہے۔ ’چراغوں کا دھواں” میں انتظار حسین نے لکھا کہ پاکستان پہنچنے کے کچھ روز بعد سردیاں آن پہنچیں، کپڑے لتے تو وہیں میرٹھ میں رہ گئے تھے۔ کچھ اسباب از قسم لحاف، دلائی جو ہمراہ لیا تھا، ہجرت کی افراتفری میں ریلوے سٹیشن پہ گم ہو گیا عسکری صاحب سے بات ہوئی تو وہ اپنے ہمراہ لنڈے بازار لے گئے۔ چند روپوں میں سردیوں کے کپڑے خرید لیے۔ لنڈے کے یہ کپڑے کڑکڑاتی سردیوں کو ایک مہاجر کا مسکت جواب تھے۔ پاکستان میں پہلی سردیاں گزارتے ہوئے انتظار حسین کو احساس نہیں ہوا کہ اس ملک کے عوام کٹے ہوئے ڈبے کے مسافر ہیں۔ اس شہر افسوس میں مہاجرت مستقل ہے اور لنڈے بازار سے نجات نہیں۔

ان دنوں سردیوں کی آمد آمد ہے۔ لنڈے بازار میں بھیڑ بڑھ جائے گی۔ لنڈے کی اپنی ایک نفسیات ہے۔ بچپن میں میری اماں بہت احتیاط سے دائیں بائیں دیکھ کر لنڈے کی اترن خریدتی تھیں۔ اسے ہم بچوں کو بیرونی پوشاک میں زیر جامے کے طور پہ پہنایا جاتا تھا۔ اندر کی سردی دور کرنے کے لیے لنڈے کی کم قیمت اترن اور باہر سفید پوشی کا بھرم۔ لباس پر کیا موقوف ہے، ہمارے تو لفظ بھی لنڈے کا مال ہیں۔ اب دیکھیے، معلوم ہی نہیں ہوا کہ اردو زبان میں منظر، منظر نگاری اور منظر نامہ کی باریک لکیر کب مٹ گئی؟ تناظر اور پس منظر کو بھی ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ نامعلوم کس خدائی فوج دار نے عوام کو پہلی بار مونث باندھا تھا۔ اب ہر طرف سے صدا سنائی دیتی ہے ’عوام پوچھتی ہے…. عوام کہتی ہے‘۔ گویا عوام کو غریب کی جورو سمجھ لیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اردو میں تذکیر تانیث کی لغزش بھلی معلوم ہوتی تھی۔ عمران خان کی اردو میں کچا پن اس لیے کھلتا ہے کہ خان صاحب کے لہجے کی قطعیت سے لگا نہیں کھاتا۔ اس میں حویلی بارود خانہ کی اس ثقافت کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو میاں امیر الدین اور ایم اسلم کی روایت سے انحراف ہے۔

انگریزی کے الفاظ پیراڈائم اور اسٹریٹجی ہمارے ہاتھوں رسوا ہو چکے۔ جنرل ضیاالحق کی موت کے بعد قوم کو معلوم ہو گیا تھا کہ پیراڈائم نہیں بدلے گا۔ پیراڈائم بدلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسٹریٹجی کو جنرل مشرف اور جنرل اشفاق کیانی نے بھنبھوڑ کے رکھ دیا۔ اب بیانیے کو بھی بیان اور موقف کے معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ سبزی فروش سے جھگڑے میں بھی سنائی دیتا ہے کہ ’اس نے میرا بیانیہ ماننے سے انکار کر دیا‘۔

برادر مکرم یعنی ہمارے ہردلعزیز ڈاکٹر صاحب ان دنوں لبرل اور سیکولر عناصر پر بہت زناٹے سے برس رہے ہیں۔ لکھتے ہیں، ’روشن خیال، سیکولر، اینٹی روحانیت لابی ایسی باتوں سے الرجک ہے کیونکہ بدقسمتی سے انہوں نے مطالعہ تو کیا ہے لیکن ان کا دامن کسی ایسے تجربے سے خالی ہے جسے ہم سپرنیچرل یا آسمانی خبر یا روحانی تجربہ کہتے ہیں….‘۔ ادب سے عرض کی جاتی ہے کہ صاحب ہزاروں برس کی تاریخ میں روحانی تجربے سے مالامال نفوس کی تعداد تو گنوائیے۔ ہم عامتہ الناس تو دربار کی ڈیوڑھیوں میں پامال تھے۔ ہمیں محل سرا کی دہلیز پر پھٹکنے کی اجازت نہیں تھی۔ گوشت پوست کے انسانوں سے محبت کرنے والے جلا وطن کر دیے جاتے تھے۔ لوگوں کے خواب اپنی آنکھوں میں سجانے والے تازیانوں کی باڑھ پہ رکھ دیے جاتے تھے۔ عوام کے دکھوں کا احساس کرنے والوں کے سر سولیوں پر بلند کیے جاتے تھے۔ مخلوق خدا سے محبت ایک گہرا راز ہے۔ خدا کچھ لوگوں کے دل میں بستا ہے اور کچھ اسے لنڈے کے کوٹ کی طرح اوڑھ لیتے ہیں۔ لنڈے کے کوٹ کی نفسیات اندر سے منقسم ہوتی ہے۔ خالق سے قرب پانے کے لیے مٹی سے جڑی گھاس جیسی عاجزی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ مخلوق سے اوپر اٹھ جائیں تو زمین سے رشتہ کٹ جاتا ہے اور دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔

ہمارے ملک پر ان دنوں کڑی آزمائش کے دن ہیں۔ لبرل اور سیکولر، قدامت پسند اور جدت پسند تو مانگے تانگے کے استعارے ہیں۔ ہماری نسل کی قامت ان بیٹے اور بیٹیوں سے طے پائے گی جنہیں بھائی عبدالقادر حسن نے اکتوبر 1999 میں ’یہ جمہوریت مانگنے والے‘ قرار دیا تھا۔ بھائی، جمہوریت مانگنے والے دستور ساز اسمبلی سے جمہوریت کا مطالبہ کرتے تھے۔ بھابھڑہ اور ہشت نگر میں جمہوریت مانگتے تھے۔ ڈیرہ بگتی سے حیدر آباد کے پکے قلعے تک یہ سوال اٹھاتے تھے۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہمارا سوال 16 اکتوبر 1951ءکو مسترد کیا گیا۔ 23 مارچ 1973ءکو پامال کیا گیا۔ 27 دسمبر 2007 ءکو شہید کیا گیا۔ یہ سوال تو لمحہ موجود کا تضاد ہے۔ صاحبان اختیار کہتے ہیں کہ فلاں جماعت سے 60 ارکان اسمبلی عنقریب الگ ہو جائیں گے۔ پوچھنا چاہئیے کہ ان خواتین و حضرات کا کرپشن سے پاک ہونا طے پا گیا ہے یا سیاسی وابستگی تبدیل کرنے کے بعد ان کے گناہ دھل سکیں گے۔ روز نامہ جنگ کے ادارتی صفحے پر جولائی 2011 میں کرپشن سے پاک سیاست دانوں کی ایک فہرست دی گئی تھی۔ یہ نام اس برس نومبر اور دسمبر میں جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ کرپشن مالی بدعنوانی کا معاملہ نہیں، کرپشن جمہوریت کو آمریت سے جدا کرنے والی لکیر پہ نصب پتھر ہے۔ لیاقت علی خان تو کرپٹ نہیں تھے۔ تین ضخیم وائٹ پیپر ذوالفقار علی بھٹو پر ایک پائی کی کرپشن نہیں دکھا سکے۔ جام صادق علی پر البتہ الزامات تھے اور انہیں 1990 میں گلے لگایا گیا۔ خبر ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ہمارے مشرقی ہمسائے کو کرپشن میں دنیا کا پہلا نمبر عطا کیا ہے۔ شمالی ہمسایہ ہر برس سینکڑوں منصب داروں کو کرپشن کے الزام میں موت کی نیند سلاتا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ بحیرہ عرب کے پار شہزادے اور وزیر بھی کرپشن سے آلودہ ہیں۔ یہ باتیں راز کی ہیں قبلہ عالم بھی پیتے ہیں…. کرپشن تو محض پیوستہ مفاد کا لنڈے بازار کی بولی میں اظہار ہے۔ کرپٹ نہ کہیے، غدار وطن کہہ لیجیے۔ دشمن دین قرار دیجیے۔ انقلاب دشمن کہہ لیجیے۔ نظریاتی غدار کہیے۔ سامراج اور بورژوا کہیے۔ ضیاالحق نظریہ پاکستان کا مخالف قرار دیتے تھے۔ آپ سیکولر اور لبرل کہتے ہیں۔

سیکولر اور لبرل پاکستان کی فیروز سنز پارٹی ہیں۔ فیروز سنز لاہور کی مال روڈ پہ کتابوں کی ایک دکان تھی، اب نہیں رہی۔ لنڈے کے لبرل کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فیروز سنز کے ساتھ سول اینڈ ملٹری گزٹ کا دفتر تھا، اب نہیں رہا۔ لبرل اور سیکولر صحافت کی آزادی مانگتے ہیں۔ غلام عباس کے افسانے اوور کوٹ کا ہیرو اس سڑک پر موسیقی کی ایک دکان میں گیا تھا۔ فیروز سنز پارٹی موسیقی کی بازیابی چاہتی ہے۔ غلام عباس کے ہیرو نے پھٹے پرانے بنیان پر لنڈے کا اوور کوٹ پہن رکھا تھا۔ لنڈے کے لبرل اور سیکولر دیس کے غریبوں کے لیے قبائے خواجہ اور ڈیرہ اسمعیل خان کی مظلوم بیٹی کے لیے ردائے بانو مانگتے ہیں۔ لنڈے کے لبرل دیس کے غریبوں کے دوست ہیں۔ فیروز سنز پارٹی قائد اعظم کی جمہوریت مانگتی ہے۔

Nov 7, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).