سیکولر سٹیٹ۔۔۔ کچھ سوالات کے جوابات


پچھلے کالم میں نے پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے بارے میں کالم لکھا تو پڑھنے والوں نے بہت سوال اٹھائے۔ کچھ نے انگلش ڈکشنری سے اقتباس دکھائے جس میں سیکولرزم کی تعریف لادینیت ہی لکھی ہوئی تھی۔

میرا ان کو مشورہ ہے کہ سیکولر سٹیٹ کی تشریح کے لئے

   https://en.wikipedia.org/wiki/Secular_state

 کا پیج پڑھیں کہ ڈکشنری کے ایک دو جملوں سے اس کا مطلب پوری طرح واضع نہیں ہوتا۔

یہ درست ہے کہ سیکولر سٹیٹ کا مطلب مذہب کو ریاست سے الگ کرنا ہے۔ مگر جب ہم اسے اردو میں لادینیت کہتے ہیں تو اس کے حامی کو بھی لادین بنا دیتے ہیں۔ اسے پھر الحاد کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا حامی ملحد بنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ مسلمان ہو تو مرتد ہو جاتا ہے۔ جو کہ آج کے پاکستان میں انتہائی خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس لیے اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔

سیکولر کی اصطلاح کو ریاست کے علاوہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً سکول میں دینیات کا مضمون نان سیکولر Non-Secular یا مذہبی مضمون ہے مگر حساب، جغرافیہ اور سائنس سیکولر مضامین ہیں۔ ان مضماین کے نصاب کو عقیدے کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ا ن مضامین کا پڑھنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح سیکولر ریاست کا حامی ایک راسخ مسلمان بھی ہو سکتا ہے اور ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں وہ سیکولر ریاست کے حق میں ہیں۔ اُن ملکوں کے لبرل اور سیکولر بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اُن لبرل اور سیکولر لوگوں میں اپنے مذہب کے ماننے والے بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی عقیدوں پر پکے ہوتے ہیں۔ مولانا مودودی سے ایک بار یہ سوال کیا گیا کہ اگر انڈیا بھی مذہبی ریاست بن جائے اور ہندو مت کے اصولوں کی بنیاد پر حکومت چلائی جائے تو اُن کا کیا ردِ عمل ہوگا۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر آج کی جماعتِ اسلامی ہند سیکولر ریاست کی بہت بڑی حامی ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ سیکولر ریاست کے بغیر مسلمانوں کی حیثیت تیسرے درجے کے شہری کی ہوگی۔ امریکہ میں بہت سے کرسچن گروپ اس کے سیکولر قوانین کے خلاف ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہی لوگ بہت بولتے ہیں۔ اس کے برعکس سیکولر اور لبرل امریکی شہری مذہبی اقلیتوں کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں۔

کچھ قارئین کو یہ فکر تھی کہ چونکہ فرانس نے حجاب پر پابندی لگا دی ہے کہیں پاکستان سیکولر سٹیٹ بننے پر ایسا نہ کر دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سیکولر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نظام کے کوئی خاص قوانین ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے معاملات سے مذہب کے عمل دخل کو ختم کر دیا جائے۔ چرچ اور سٹیٹ، مسجد اور ریاست کو الگ کر دیا جائے۔ ایک سیکولر سٹیٹ میں مولوی کو دین کے بارے میں درس دینے کی اجازت ہوگی مگر عقیدے کی بنیاد پر قانون سازی کی نہیں۔ سب کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہوگی مگر نفرت اور انتشار پھیلانے کی نہیں۔ ایک قاری کے مطابق سیکولر ریاست سورۃ الکافرون کے مطابق ہوگی، یعنی میرے لیے میرا دین اور تمہارے لیے تمہارا دین۔

ہر ملک کے قوانین اس کی اسمبلی اس کے شہریوں کی مرضی سے بناتی ہے۔ مثلاً فرانس اور امریکہ دونوں سیکولر ملک ہیں مگر ان کے قانون مختلف ہیں۔ فرانس پبلک جگہوں پر مذہبی شعائر کے ظا ہر کرنے کے خلاف ہے۔ اسی لیے وہاں کے سکولوں میں حجاب، سکھوں کی پگڑی، یہودیوں کے سر کی ٹوپی اور کرسچن کی کراس پہننا منع ہے۔ اس قانون کو فرانس کی منسٹری آف ایجوکیشن اور اساتذہ کی یونین نے پاس کیا تھا۔ مگر ان کی آئینی کونسل نے حکم صادر کیا کہ کسی بھی سٹوڈنٹ کو اس بنا پر سکول سے نکالا نہیں جاسکتا۔

ا مریکہ مذہب کی آزادی کی حفاظت کرتا ہے۔ امریکہ میں آپ اگر یہ ثابت کر دیں کہ آپ اپنے مذہب کی وجہ سے نوکری کے حصول وغیرہ کے لیے تعصب کا شکار ہوئے ہیں تو عدالت اس بزنس کے خلاف آپ کا ساتھ دیتی ہے اور بعض دفعہ اس بزنس کو بہت بڑا ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

سیکولر ریاست نہ صرف اپنے شہریوں کو برابر کے حقوق دیتی ہے بلکہ مذہب کو بھی سیاست کی کرپشن سے دور رکھتی ہے۔ اس کی حالیہ مثال برما ہے۔ برما کے بدھ مت راہبوں کا اپنی فوج سے مل کر مسلمانوں کےقتل عام اور اُن سے نفرت کی تصویریں دیکھ کر پوری دنیا کے لوگ بدھ مت مذہب کے پرامن ہونے کے بارے میں شک میں پڑ گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان راہبوں نے ضرور بدھ مت کی تعلیم کی کسی شق کو اپنے ظلم کے لئے استعمال کیا ہوگا کہ بظاہر اپنے لباس اور رہائش سے وہ بدھ مت مذہب کے پکے پیروکار لگتے ہیں۔ بدھ مت کے راہبوں کے بارے میں اس سے پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ گیان دھیان سے اپنے نفس پر قابو پاتے ہیں اور امن اور سلامتی پر ایمان رکھتے ہیں۔ دلائی لامہ کی تبت کی آزادی کے لئے پرامن جدوجہد نے اس خیال کو مزید تقویت دی تھی۔ پوری دنیا میں بدھ مت کی تعلیمات بہت تیزی سے پھیل رہی تھیں۔ لیکن برما کے راہبوں کے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات نے اس مذہب پر بھی لوگوں کو شک میں ڈال دیا ہے۔

اسی طرح داعش اور طالبان کا اسلام کو بدنام کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جب کوئی اللہ اکبر کہہ کے لوگوں کے سر قلم کرتا ہے یا اپنا ٹرک نہتے شہریوں پر چڑھاتا ہے یا جب خود کش بمبا ر اپنے بے گناہ ہم وطنوں کو مارنا اپنا مذہبی فرض سمجھتا ہے تو اس سے ہمارا دین بدنام ہوتا ہے۔ اس وقت اگر دینِ اسلام کو خطرہ ہے تو وہ ان باتوں سے ہے۔ کرسچن ملکوں نے بھی ماضی میں صلیبی جنگیں لڑیں۔ اُن جنگوں کی وجہ سے عیسائیت کی بہت بدنامی ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے دو عالمی جنگیں لڑیں اور دنیا کے بہت سے ملکوں کو غلام بنایا۔ لیکن اب اگر ہم سیکولر امریکہ، برطانیہ، سپین اور فرانس کی تاریخ اور ان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو ہماری تنقید کا نشانہ عیسائیت نہیں بنتی۔

آج کل سیکولر، پروفیشنل فوجیں ملکوں کا دفاع کرتی ہیں۔ اگر ہم مذہب کو افغان جہاد سٹائل کے گروپس کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گروہ دوسرے ملکوں کو نقصان پہنچانے سے زیادہ اپنے ملک کو پہنچاتے ہیں کہ اُن کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اُن کے باقی ہم وطن کفر کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور حقیقی اسلام کا نفاذ اُن کا فرض بنتا ہے اور وہ اپنے لوگوں کے خلاف جہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔

کچھ قاریئن نے کہا کہ سیکولر ملکوں میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ سعودی عرب جیسے ملکوں میں کم ہے۔ اس کے لیے آپکو مختلف ملکوں کا موازنہ کرنا ہوگا۔ آپ سعودی عرب کا جاپان، سوئٹزر لینڈ اور ڈنمارک جیسے ملکوں سے موازنہ کریں۔ یہ سیکولر ممالک جرائم کے لحاظ سے بہت اچھا ریکارڈ رکھتے ہیں حالانکہ یہاں سر قلم کرنے، ہاتھ کاٹنے اور کوڑے مارنے کے قوانین نہیں ہیں۔ ان ملکوں میں عورتیں اور بچے بھی آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔

امریکہ کے جنسی جرائم کی زیادہ شرح پر بھی لوگوں نے اشارہ کیا ہے۔ امریکہ میں باقی سیکولر ملکوں کی طرح جرائم کے اعداد وشمار کو بہت احتیاط سے ریکارڈ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی روک تھام کی پلاننگ میں مدد مل سکے۔ ان کو چھپایا نہیں جاتا اور عورتوں کے ریپ، بچوں پر جنسی جرائم اور ریپ کی شرح سے عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ بچوں پر کیے جانے والے جنسی جرائم کی سزائیں انتہائی سخت ہیں۔ بچوں کو اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ اُن کے جسم کے کن حصوں کو دوسرے ہاتھ نہیں لگا سکتے اور اگر کوئی لگائے تو وہ اپنے ماں باپ یا استاد کو بتائیں۔ جنسی جرائم کی ہر شہر میں ایک رجسٹری ہوتی ہے جس میں ان جرائم میں سزا یافتہ مجرموں کے نام اور پتے درج ہوتے ہیں تاکہ گردو نواح کے لوگ محتاط رہیں۔ ایسی باتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ملک میں جنسی جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم پاکستان میں عورتوں کے ریپ، چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں پر جنسی تشدد اور ریپ کے جرائم کا صحیح اعداد و شمار کریں تو وہ امریکہ سے کم نہیں ہو گا۔ امریکہ میں البتہ قتل کا ریٹ ضرور زیادہ ہے۔ اُس وجہ سے یہاں کے گن کنٹرو ل کے قوانین میں نرمی ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی بندوقیں بھی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اس بارے میں کانگریس میں بحث چلتی رہتی ہے مگر گن لابی کے مضبوط ہونے کی وجہ سے سخت قانون ابھی تک پاس نہیں ہوسکے۔

کچھ قارئین نے مولانا سراج الحق کی با ت کو دہرایا کہ سیکولر ریاست میں لوگ بغیر نکاح کے رہیں گے۔ جیسا کہ میں نے اپنے پہلے کالم میں لکھا ہے کہ اس بات کو نہ تو سیکولر ریاست نے ایجاد کیا ہے اور نہ ہی یہ اس سسٹم کا حصہ ہے کہ ملک کی قوانین وہاں کی اسمبلی بناتی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ بغیر نکاح کے رہنا چاہتے ہوں۔ میری ذاتی رائے اس کے حق میں نہیں ہے اور میں اس کے لیے بہت سے دلائل پیش کر سکتی ہوں مگر میں اپنی اس رائے کو دوسرے پر مسلط نہیں کر سکتی کہ ہر کوئی اپنی زندگی اپنے طور پر گذارنا پسند کرتا ہے۔ آپ ان کو زبردستی مجبور کریں گے تو وہ چھپے چوری کریں گے۔ اُن لوگوں کو جو اس بات کی بہت فکر کرتے ہیں میرا جواب یہ ہے کہ ایسا تو اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتا تھا۔ کچھ لوگ لونڈیوں کے ساتھ بغیر نکاح کے رہتے تھے مگر اُن کے بچوں کو اسلامی نظام نے قانونی تحفظ دے رکھا تھا کہ اُن بچوں کے باپ اُن کی کفالت کر سکیں۔ وہاں بغیر نکاح کے پیدا ہوئے نومولود بچوں کو نالیوں اور جوہڑوں میں نہیں پھینکتے تھے۔ جو آج کے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس کے اعداد وشمار اور مزید تفصیل کے لئے حاشر ابن ارشاد کے “ہم سب” پر چھپے کالم پڑھئیے۔

کچھ لوگوں کو یہ فکر ہے کہ پاکستان کے سیکولر ہونے کے بعد لوگ اپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب اپنا لیں گے۔ خاص طور پر ان مذاہب کو جو اسلام سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے کہ اس وقت امریکہ اور برطانیہ میں مذہبی آزادی کے باوجود پاکستانی مسلمان جوق در جوق کسی اورمذہب میں شامل نہیں ہو رہے حالانکہ ان پر قتل کے فتوے کی تلوار بھی نہیں لٹکی ہوئی۔ اگر کوئی اکا دکا شخص شامل ہو جاتا ہے تو ادھر سے بھی کوئی نکل آتا ہے جس سے حساب برابر ہو جاتا ہے۔ اس وقت اسلام اپنی ابتدائی دور میں نہیں ہے کہ اسے ان باتوں سے کوئی خطرہ ہو۔ اس لیے پاکستان اور اسلام کی بہتری کے لیے سیکولر ریاست کی تعمیر کے لیے ایک چھوٹے سے گروپ کی وجہ سے رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنا چاہیں۔

 زیادہ تر لوگوں کا یہ سوال تھا کہ جس رواداری، اخوت، مساوات، انسانیت اور انصاف کی بات میں سیکولر معاشرے کے حوالے سے کر رہی ہوں وہ تو اسلام کے نظا م میں بھی موجود ہے تو پھر مجھے ایک مسلمان ملک کے لئے اس نظام کی تجویز پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی تشریح اور تعمیر انسان اپنی سمجھ بوجھ، تجربوں اور کلچر کے مطابق کرتے ہیں۔ جس سے نہ صرف فرقوں میں اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے بلکہ دین کے بارے میں بھی ابہام پیدا ہوتے ہیں۔

میری ذاتی رائے اس بارے میں کیسے بدلی،اس کے لیے آپکو میری زندگی کے اُس سفر کی لمبی داستان سننا پڑے گا جس کو طے کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ریاست اور مذہب کو جدا کرنے ہی میں مسلمانوں اور اسلام کی بہتری ہے۔ اس کے لیے اگلی دو قسطوں کا انتطار کیجیے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi