عورتوں کے طوفان کی آمد آمد ہے


بھئی میں تو کہتی ہوں ابھی بھی ہوش کے ناخن لے لو بھائیوں، ہاری ہوئی جنگ میں جتنی جلدی ہتھیار ڈال دو اور پارٹی بدل لو تمہارے لئے اتنا اچھا ہے کیونکہ عورتوں کے طوفان کی تو آمد آمد ہے۔ پھر نہ کہنا ہم کو بتایا نہیں۔

کیا آپ کو تبدیلی کی ہوا محسوس نہیں ہو رہی ہے؟ مولویوں نے پوری کوشش کر ڈالی عورت چار دیواری میں اپنے خاندان کی عزت کی رکھوالی کرتی رہے مگر سائنس ہے کہ گھستی چلی آرہی ہے۔ ہم نے دیوان خانے اور زنان خانے اسی لیے تو الگ الگ رکھے تھے کہ عورتوں کو مردوں کی دنیا کا پتہ نہ چل سکے مگر کمبخت یہ انٹرنیٹ۔ ہم نے لا کھ کوشش کر ڈالی عورت کولکھنا نہ آئے۔ نہ اس کو لکھنا آئے گا نہ وہ اپنی کہانی بتا پائے گی۔ مگر اب تو بھئی ہمارے گھر کی ماسی بھی اس لئے پوچھا لگاتی ہے کہ اپنے فون میں کریڈٹ ڈلواسکے۔

اتنے بم کے دھماکے اسی لیے تو کروائے تھے کہ سب گھر پرسہمے بیٹھے رہیں اور ڈر ڈر کے صرف روزی روٹی کمانے باہر نکلیں اورپھر دبک کر آ کر بیٹھ جائیں۔ ارے موت کے خوف اور پیٹ کی بھوک سے چھٹکارہ ملے گا تو کوئی بات کریں گے نا۔ مگر پھر وہی کمبخت سائنس لوگوں کو گھر میں ہی بیٹھ کر دوسروں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع دے دیا۔ جتنا چاہا تھا فرد اور اس کے خیالات کمزور ہو جائیں اور بارود کی طاقت بڑھتی رہے اتنا ہی کام الٹا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نظریات ہیں کہ پروان چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر فرد بول رہا ہے۔ اور تو اور عورتیں بول رہی ہیں۔

پہلے ایک آدھ ہی سر پھری ایسی ہو تی تھی جو بولتی تھی۔ ہم یا تو اس کو سن کر عورتوں کی ذہانت کے قائل ہو جاتے تھے یا پھر اس کا اپنے بیوی سے پردہ کروادیتے تھے اب تو لگتا ہے ہر عورت بتا رہی ہے۔ پوچھ رہی ہے۔ اپنی کہانی سنانے کو تیار ہے۔ ارے بھئی کچھ اپنی نہیں تو اپنے گھروالوں کی عزت کا ہی خیال کر لو۔ تم لکھو مگر ذاتی کہانی مت لکھنا۔ دیکھو ہم مرد کیسے بات کرتے ہیں کیسے لکھتے ہیں۔ سارا سارا دن سیاست پر بات کروا لو، مذہب پر بات کروالو، نوکری پر جو ہم نے جھنڈے گاڑ ے ہیں اس پر بات کروالو مگر کبھی کوئی ذاتی بات کرتے دیکھا ہے تم نے ہم کو۔ نہیں نا؟ شاباش تم بھی ہماری طرح بڑی بڑی باتیں کیا کرو یہ عورتوں کی طرح رشتہ داروں، سسرال والوں اور میاں کی برائیاں تم پر نہیں ججتیں۔ اوراپنے گھر اور خاندان کی عزت کا ٹھیکہ بھی تو تمہارے سر پر ہے۔

پھر یہ ہوا کہ عورتوں نے آپس میں چپکے چپکے اپنی اپنی کہانیاں سنانی شروع کردیں۔ ارے تمہاری بھی وہی کہانی ہے جو میری۔ یہ کیا بات ہے تمہارے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو میرے ساتھ ہورہا ہے۔ اچھا تمہاری امی نے بھی تم سے یہی کہا جو میری امی نے اور تمہارے والد نے بھی وہی کیا جو میرے چچا نے۔ اور تمہارا میاں بھی وہی کررہا ہے جو میری دوست کا میاں کررہا ہے۔ ارے یہ تو ہم سب کی ایک ہی کہانی ہے۔ تو ہم عورتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ذاتی نہیں اجتماعی ہے اچھا تو پھر تو ہم کو اپنی کہانیاں اور زور زور سے سنانی چاہیے کہ سب کو پتہ چلے کہ یہ ذاتی کہانیاں کتنی سیاسی ہیں۔

”می ٹو“ جیسی تحریکیں ایک دن میں نہیں بنتیں سیکڑوں سال بھی عورتوں ایک دوسرے کو اپنے راز بتاتی رہیں تب بھی عورت جیسی حقیر چیز اپنے اوپر تشدد کی کہانی کھلے عام بتانے میں کامیاب نہ ہوتی۔ یہ تو سائنس کا کمال ہے کہ وہ معلومات کو اس تیزی سے فاصلے طے کروا رہی ہے کہ صدیوں کا کام سیکنڈوں میں ہورہا ہے۔ اور یہ جو عورتوں کے منہ کھل گئے ہیں نا ان کو بند کروانا اب کافی ناممکن ہے۔ چڑیل بوتل سے باہر نکل آئی ہے اور بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اب دیکھ لیجے مجھ جیسی اور بہت سی عورتیں لکھ بھی رہی ہیں اور پڑھی بھی جا رہی ہیں۔ اب ان کو اپنی بات کہنے کے لئے عصمت چغتائی، قرات العین حیدر یا کشور ناہید جیسی فنی کمال اور جگرے کی ضرورت نہیں۔ اب عام عورت بھی کہہ سکتی ہے اور چھپ سکتی ہے کیونکہ سب کو پتہ ہے عورت کو تو اب سننا پڑے گا کیونکہ عورت کے طوفان کی تو آمد آمد ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).