شہباز تاثیر کی رہائی: شکریہ افغان طالبان!


 \"omaid\"انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کو افغان طالبان نے داعش پر ایک حملے کے دوران رہا کروایا تھا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ “دہشت گردوں نے 26 اگست 2011ء کو شہباز تاثیر کو اغوا کیا اور انھیں شمالی وزیرستان لے گئے جہاں انھیں ڈھائی سال تک رکھا گیا تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد شہباز تاثیر افغانستان کے صوبہ زابل منتقل کر دیا گیا تھا۔ افغانستان میں داعش کی آمد کے بعد اغوا کاروں کا یہ گروپ شدت پسند تنظیم داعش میں شامل ہو گیا تھا۔ افغانستان میں متعدد ڈرون حملے بھی ہوتے رہے لیکن شہباز تاثیر معجزانہ طور پر بچ گئے۔

 مصدقہ ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل افغان طالبان نے صوبہ زابل کے ایک علاقے میں داعش کے کیمپ پر حملہ کرکے شدت پسند تنظیم میں شامل تمام مردوں کو قتل کر دیا لیکن اس موقع پر حراست میں لی گئی 10 خواتین نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس وقت شہباز تاثیر اسی کیمپ میں موجود تھے۔ انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق شہباز تاثیر فرار ہونے کے بعد افغان طالبان کے ایک گروہ میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ وہاں سے ایک افغان کمانڈر نے انھیں بارڈر کراس کروایا اور کوئٹہ کے قریبی علاقے کچلاک پہنچایا۔”

تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی نے کسی قدر حیرت سے کہا کہ \” افغان طالبان نے صوبہ زابل میں داعش کے کیمپ پر حملہ کیا تھا لیکن یہ حملہ کئی ماہ قبل کیا گیا تھا\”

یوسفزئی صاحب کے اس اچھنبے میں ہی توسارا راز پنہاں تھا۔ یعنی اتنا عرصہ یہ افغان طالبان کی قید میں رہے؟

اگر رہے تو آخر کس بنا پر انہیں رہا کیا گیا، وہ کیا شرائط تھیں جن پر انہیں رہا کیا گیا؟ کتنے روپے میں اور کس کے کہنے پر؟ یہ بھی کہ آخر ایسا کونسا موسم آگیا کہ افغان طالبان مغوی رہا کرنے لگ گئے؟ کہیں اس کی وجہ افغانستان پر ہونے والے چار ملکی مذاکرات تو نہیں؟

افغانستان میں کھیل ختم ہونے  کو   ہے۔ اس سلسلے میں اقتدار کی بندر بانٹ ہورہی ہے جس میں ہندوستان کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ افغان طالبان کو بھی اس میں سے حصہ ملے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے سال طالبان (یہاں افغان طالبان ہی سمجھا جائے)  کی افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے رنگ میں افغان حکومت یا انٹیلی جنس میں چھپے \’شریکوں\’ نے یہ راز افشا کر کے بھنگ ڈال دی کہ صاحبو جس سے مذاکرات کروا رہے ہو  یعنی ملا عمر، وہ تو زندہ نہیں۔ اب اس کے بعد کیا ہونا تھا وہی جو ایسی تنظیموں میں ہوتا ہے، اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اگرچہ بہت سے طالبان گروپوں نے ملا منصور کو امیر مان لیا مگر بہت سے نہیں بھی مانتے۔ اب بھی جب مذاکرات کے پاس پہنچ گئے تو یار لوگوں (طالبان) نے کہ دیا کہ نہیں جب تک امریکا نہیں چلا جاتا ہم تو کسی سے بات نہیں کرتے۔ یعنی گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے!

امریکہ گئے ہوئے سرتاج عزیز نے ایک موقع پر کہہ دیا کہ افغان طالبان کی لیڈر شپ پاکستان میں آتی جاتی ہے، ان کے خاندان یہیں ہیں، ہسپتال کی سہولیات بھی میسر ہیں اور وہ جب چاہیں انہیں میز پر بات چیت کے لیے لانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں بلکہ آج کل تھوڑی نقل و حرکت کو روک کر یعنی بازو مروڑ کر ہم نے کہا بھی ہے کہ ہم تمہیں یہ سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں جن کی بدولت ہم ساری دنیا میں بدنام بھی ہوئے ہیں سو اب میز پر آؤ اور بات کرو، اب آگے تو جناب افغان حکومت کا کام ہے، ہمارا کام تو بس اتنا سا ہی ہے۔

اس بیان پر دنیا بھر کے مبصرین کے ابرو اٹھے ہیں، بہت سی چہ مگوئیاں ہوئی ہیں۔ جان لینا چاہیے کہ اس بیان میں ایسا کچھ نہیں کہ جس پر حیرت ہوتی ہو۔ تمام دنیا کا میڈیا خصوصاً امریکی میڈیا ہمیں یہ طعنہ دیتا رہا ہے کہ ہم سے ڈالر بھی لے لیے اور کام بھی نہیں کیا۔ بار بار  غیر ملکی ماہرین بھی یہ معاملہ اٹھا چکے ہیں مگر آفیشل طور پر عسکری و غیر عسکری قیادت نے اس نہیں مانا تھا بلکہ ضرب عضب کے دوران جب پشاور اسکول پر حملہ ہوا تب بھی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان  کی تفریق ختم کرنے کی بات اٹھی۔ اس وقت بھی یہی کہ دیا گیا کہ یہ پالیسی ختم کی جارہی ہے مگر بہت سے ماہرین کے مطابق ایسا نہ کیا گیا۔ یہ پہلی دفعہ  ہے کہ پاکستان کے کسی حکومتی نمائندے نے باقاعدہ طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان پاکستان کی پناہ میں ہیں۔ بی بی سی کے حالیہ تجزیے  میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس تصدیق کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں۔ بی بی سی کے سابق نامہ نگار طاہر خان کے خیال میں طالبان کی حالیہ  اندرونی تفریق کے بعد ایسا بیان ملا منصور کو دباؤ میں لانے کے لئے دیا گیا ہے۔ پہلے ہی بہت سے طالبان دھڑے ملا منصور کو پاکستان کا چمچہ ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں، بہت سے ان میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی نہیں چاہتے ایسے میں اگر ملا منصور بھی کہنا نہیں مانتے تو صاحبو وہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے، دوسرے دھڑے تو ویسے ہی ناراض ہیں مائی باپ پاکستان بھی ناراض ہوسکتا ہے۔

شہباز تاثیر کا سلسلہ بھی اس سب سے جڑا ہوا ہے مگر یہ یاد رہے کہ داعش پر کامیاب حملہ چار مہینے پہلے کیا گیا اور اس دوران شہباز تاثیر  مال غنیمت کی طرح ان کے ہاتھ لگے۔ انہیں چار مہینے افغان طالبان نے اپنے پاس رکھا ہے، جس نے احسان کرنا ہوتا ہے وہ چار چار مہینے مغویوں کو اپنے پاس نہیں رکھتا۔ لین دین کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوا ہوگا۔ ہاں مگر رہائی کا راستہ \”آپ کے بھائی\” سے ہوکر گزرتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو تو کہ دیا گیا ہے… آپ کا صاحب زادہ دشمنوں (پاکستانی طالبان) کے پاس ہے۔ طالبان کی عمرو عیار کی زنبیل الٹائی جا رہی ہے… دیکھئے اس میں  سے اور کیا کیا گرے… مگر چونکہ ہمیں  اپنے صیاد کا شکریہ کرنے کی عادت پڑ چکی ہے  اس لئے شکریہ افغان طالبان تو بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments