بھارت میں چار فی صد مسلمانوں کو مدارس سے دل چسپی


گئے دنوں مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے میں نے جو مضامین لکھے، اسے جہاں ہند و پاک، دونوں ممالک میں خاصا سراہا گیا، وہیں مضمون پر خاصی لے دے بھی ہوئی۔ جن لوگوں نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا، انھوں نے مجھے لعن طعن کا نشانہ بنایا اور ناقص العلم قرار دیا۔ مجھے اپنے ناقص العلم ہونے میں کوئی شبہہ نہیں، لیکن اس ضمن میں خوش آیند بات یہ رہی کہ خود مدارس کے فارغ التحصیل احباب کی ایک بڑی تعداد نے میرے خیال کی تائید کی، اور ان میں سے کئیوں نے راقم الحروف کے افکار ونظریات سے اتفاق کا اظہارکرتے ہوئے، اپنے موقف کو الفاظ کا جامہ بھی پہنایا۔

”مخالفت برائے مخالفت“ سے قطع نظرکچھ ”اہل نظر“ نے کئی سنجیدہ سوالات بھی اُٹھائے ہیں، جن میں سے کچھ کا میں نے اس سے قبل لکھے گئے مضامین میں جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ مخالفین کی جانب سے جتنے بھی مضامین آئے، ان میں ایک بیان مشترک یہ تھا، کہ مدارس میں محض چار فی صد بچے پڑھنے آتے ہیں، تو چار فی صد کی فکر نہ کرکے چھیانوے فی صد کی فکر کی جائے۔ آج کی بحث کا محور یہی ہے، کہ اولاً اعداد و شمارکی معتبریت کیا ہے؟

سلسلہ تحریر کو آگے بڑھانے سے قبل یہ وضاحت کرتے چلیں کہ اسلام علم کی تقسیم کا قائل نہیں ہے۔ اس پر ہزاروں دلیلیں دی جا چکی ہیں اور قرآن و حدیث سے اس بات کو محققین نے ثابت بھی کیا ہے، کہ اسلام میں علم کے دو ہی اقسام بتائی گئی ہیں۔
علم نافع اور علم ضار۔
جہاں تک سچر کمیٹی کی مذکور رپورٹ کی بات ہے، کہ مدارس میں محض تین سے چار فی صد طلبا داخلہ لیتے ہیں، تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ اعداد و شمار قابل اعتبار نہیں ہیں۔ ان میں خاصی کمیاں اور خامیاں ہیں اور وہ کچھ مخصوص بنیادوں پر تیار کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر میں یہ کہوں تو زیادتی نہ ہوگی، کہ ہمارے یہاں حکومت کی جانب سے پیش کردہ مردم شماری کی رپورٹ بھی قابل اعتبار نہیں ہے، جو ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد چودہ اعشاریہ سات فی صد بتاتی ہے۔ مسلم کمیونٹی نے کبھی بھی اس ڈیٹا کو معتبر نہیں مانا، بلکہ ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے، کہ مسلمانوں کی آبادی ہند میں لگ بھگ بیس فی صد ہے، اور اسی اعتبار سے ہمیں حصہ داری ملنی چاہیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے اس بارے میں سنجیدگی سے کبھی غور ہی نہیں کیا اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل بنایا، کہ ہم خود اپنا ڈیٹا تیار کریں اور حکومت کے دعوے کو جھٹلا سکیں، جو مستقل ان بنیادوں پر ہمارے حقوق پر شب خون ماررہی ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف ہم حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہیں جب کہ دوسری جانب اسی کے تیار کردہ اعداد و شمار کو من و عن وحی الٰہی کی طرح مان بھی لیتے ہیں۔ جب کہ یہ تعداد معتبر نہیں ہے۔ سرکاری ایجنسیوں کے پاس صرف ان مدرسوں کے اعداد و شمار ہیں جو کسی بورڈ سے منظور ہیں، جب کہ یہ بورڈ اکتیس کے مقابلہ صرف بارہ ریاستوں میں ہیں، اور ان ریاستوں میں بھی بہار، بنگال اور کیرالا کے علاوہ برائے نام ہیں۔ بے ضابطہ مدرسوں کی تعداد منظور شدہ مدرسوں سے کئی گنا زیادہ ہے، جن کا کوئی ”لیکھا جوکھا“ کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر یہ اسکول جانے والے کل بچوں کا چار فی صد ہے تو یہ دیکھنا چاہیے، کہ اسکول جانے والے مسلم بچوں کی کل تعداد کتنی ہے؟ اگر ان کی مجموعی تعداد مسلم آبادی کے پچاس فی صد کے آس پاس ہے، جیسا کہ بعض علاقوں میں ہے؛ جہاں مسلمانوں کی شرح خواندگی چالیس فی صد سے بھی کم ہے، تو مدرسہ جانے والے بچوں کی تعداد پڑھنے لکھنے والے کل مسلم بچوں میں آٹھ سے دس فی صد ہوئی، نہ کہ چار فی صد۔

اس سلسلے میں میں نے سچر کمیٹی میں شامل ایک رکن سے، اس کی حقیقت جاننے کے لیے رابطہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ ”یقیناً یہ سرکاری آنکڑوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا اور اس کی وجہ ملت دوستی بھی تھی۔ یہ طریقہ اس لیے بھی اپنایا گیا تھا، کہ حکومت کو معلوم ہو، مسلمان صرف مدرسوں میں اپنے بچوں کو پڑھنے نہیں بھیجتے۔ ایک ’دھارنا‘ یعنی عام ذہنیت بن رہی تھی، کہ مسلمان ایک خاص ڈھب میں تعلیم دیتے ہیں؛ جس سے ان عناصر کو، جو مسلمان دشمن ہیں، تنقید کا موقع مل رہا تھا۔ اس لیے ہم نے محض سرکاری آنکڑوں کا استعمال کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مدارس نے دین کو قائم کرنے اور اسلامی کلچر کی بقا کے لیے خاطر خواہ کام کیا ہے، لیکن ضرورتوں کے تقاضوں کو وہ فی الحال پورا نہیں کر پارہے ہیں“۔

ایک بات اور؛ یہ فی صد بظاہر سننے میں تو کم لگ سکتا ہے مگر حقیقی معنوں میں اس کی قدر نمایاں بنتی ہے۔ اب اگر ہمارے یہاں سات لاکھ مدرسے ہیں اور ہر مدرسے میں سات سو طلبا ہیں، تو سات کروڑ مسلم بچے ہوگئے۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ تعلیم ہندوستان میں ہر بچے کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے اور تعلیم سے مراد اس کی مادری زبان کی تعلیم، ریاضی، سائنس اور ضروری عمرانیات ہے۔ اس کے علاوہ آپ اپنے بچے کو جو پڑھانا چاہیں، یا وہ جو پڑھنا چاہے، وہ بھی اس کا حق ہے۔ مذہب یا کسی اور عذر کی آڑ میں بچوں کو اس کے بنیادی حق سے محروم رکھنا، اب قانوناً قابل مواخذہ و لائقِ سزا ہے۔ چھہ سے چودہ سال کے بچوں کو، خواہ وہ چار فی صد ہی کیوں نہ ہوں، ملک کے مین اسٹریم سے باہر رکھنا، ایک جمہوری معاشرے میں لڑنے سے پہلے مقابلے سے باہر کردیا جانا ہے۔ یہ اس ملک میں مسلمانوں کی بقا، ملک کی معیشت، حکومت، فوج اور دوسرے شعبوں میں ان کی حصہ داری کے خلاف سازش ہوگی، کہ ان شعبوں کے مقابلے سے انھیں باہر کردیا جائے۔

یہ ان کو دوسرے درجے کا شہری بنانا، یا غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک و معاشرے میں کسی مذہب و ثقافت یا نسلی گروپ کی بقا کا انحصار اس پر ہے، کہ اس کا اپنی قوم کی معیشت اور اس کے اقتدار پر کتنا کنٹرول ہے۔ یہی جدوجہد آج کے دور میں اصل جہاد ہے، جو لوگ دین کی ضروری تعلیم کے ساتھ معیشت اور حکومت و انتظامیہ میں مسلمانوں کی نمایندگی بہتر بنانے کے لیے تعلیم کے فروغ کی جدوجہد کررہے ہیں۔ یہی اسلام کے سچےخیرخواہ ہیں۔ جو اس کے خلاف ہیں وہ یا تو سادہ لوح ہیں یا سازش کا حصہ، اس کے برخلاف کام کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہم ملک کے خلاف کام کر رہے ہیں بلکہ ان طلبا کا مستقبل برباد کر رہے ہیں، جنھیں بہت امیدوں کے ساتھ تعلیم کے لیے ان اداروں میں بھیجا جاتا ہے۔ مستقل بے مقصد بھیڑیں تیار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ حالات اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کرنا ہوگا۔

وہ مسلمان جو مدارس میں چند فی صد پڑھتے ہیں، ان کے بارے میں غوروفکر نہ کرنے کی دعوت دینے والے اور سچر کمیٹی کی رپوٹ پیش کرنے والوں کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا، کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی کا تعلیمی گراف کیا ہے۔ اور کتنے فی صد آبادی اسکولوں میں پابندی کے ساتھ تعلیم حاصل کررہی ہے۔ جب یہ گراف سامنے آئے گا تو معلوم ہوگا کہ مدارس کا پانچ فی صد (اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں) مسلم آبادی کو تعلیم یافتہ بنانے میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ اس لیے کیا جاتا ہے، کیوں کہ قوم کی نگاہیں علمائے کرام پر ٹکی ہوتی ہیں، نہ کہ کسی اسکول اور کالج سے پڑھ کر نکلنے والے پر۔ آج بھی قوم کے مستقبل کے اچھے اور برے سبھی فیصلے علمائے کرام کرتے ہیں۔ اگر یہ علما عصری تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے اور عصری تعلیم اور اس کی ضروریات سے ناواقف ہوں گے، تو اس کے نتائج سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے۔

مدرسے کے بچے دیگر مضامین پڑھیں گے، تو نہ صرف یہ کہ وہ قومی دھارے میں آئیں گے بلکہ وہ قوم کی بھی زیادہ بہتر طریقے سے خدمت کر سکیں گے۔ مثلا وہ آرٹی آئی کا استعمال کر کے افسران کے ناک میں دم کر سکتے ہیں، علاقے میں جو ترقیاتی کام حکومت کی جانب سے ہو رہے ہیں، اس کا بیورا نکلوا کر لوگوں کو اس کی حقیقت سے واقف کرا سکتے ہیں۔ صرف تبدیلی سے بھی کام بننے والا نہیں ہے، اس لیے کہ بہار کے سرکاری مدرسوں میں پوری طرح عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب شامل درس ہے۔ وہاں سائنس، جغرافیہ، ہندی، انگریزی اور ریاضی سمیت وہ تمام موضوعات، درسیات کا حصہ ہیں جو عصری تعلیم گاہوں میں پڑھائے جارہے ہیں، لیکن عملی لحاظ سے بہار مدرسہ بورڈ کے فارغین کتنے روشن خیال اور قابل بن کر میدان عمل میں آرہے ہیں، یہ ہم سبھوں کے سامنے ہے۔

سرکاری اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اداروں میں بھی جہاں روایتی نصاب نہیں ہے، اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو پارہے ہیں۔ اس جانب بھی توجہ دینا ہوگی، کیوں کہ ہم تبدیلی تو کرلیتے ہیں، لیکن اس پر عمل آوری سنجیدگی سے نہیں ہو پاتی، اور اس وجہ سے اس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا۔ اب تک کا مشاہدہ یہی ہے کہ مدارس سے جو نسل پڑھ کر نکل رہی ہے اور قوم کے سروں پر مسلط ہے یا کردی جارہی ہے، اس کی ناعاقبت اندیشی اور غیر سیاسی حرکتوں سے قوم کو فائدے کے بجائے نقصان پہونچ رہا ہے۔ پھر یہ کہ اگر مدارس سے پڑھ کر نکلنے والی نسل واقعی تعلیم یافتہ ہوگی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگی، تو وہ پچانوے فی صد آبادی کے لیے بھی فکر مند ہوگی۔ اگر یہ نسل دردمند ہے اور مفاد پرستی سے عاری ہے تو نوے فی صد آبادی کے لیے مخلصانہ اندازمیں کام کرے گی، ورنہ اپنے جاہلانہ افکار سے نوے فی صد آبادی کو گم راہی کے تحت الثریٰ میں دھکیل دے گی۔ جیسا کہ دیکھا جارہا ہے، کہ کس طرح نظریاتی و مسلکی اختلافات کو بہانہ بناکر قوم کی پچاس فی صد سے زیادہ آبادی کو مشتعل کیا جاتا ہے اور نوجوانوں کو تشدد پسند بنایا جارہا ہے۔

جسٹس سچر کے اعداد و شمار کو اگر ہم مان بھی لیں تو یہ اور بھی اہم ہو جاتا ہے، کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کسی نہ کسی شکل میں قیادت، ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر مدارس میں چار فی صد طلبا ہی داخلہ کیوں لے رہے ہیں؟ وجہ ظاہر ہے کہ کمیونٹی آپ کے سسٹم سے مطمئن نہیں ہے اور بالعموم صرف غریب طبقے کے بچے مدارس کا رخ کر رہے ہیں؛ جنھیں مدارس میں دو وقت کی روٹی تو مل جا تی ہے، تعلیم نہیں۔ پچانوے فی صد طلبا کی تعلیم و تربیت میں بھی یقیناً بہت کمیاں ہیں اور انھیں دور کرنا ضروری ہے۔ لیکن اسکول والے لوگوں سے آپ جب بھی اصلاح نصاب و اصلاح نظام کی بات کریں گے، وہ ہمیشہ آپ کی بات توجہ سے سنیں گے، وہ آپ کی بات سن کر آپ کو عزت دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے کسی کی لڑائی نہیں ہوتی۔ البتہ جب اہل مدارس سے اصلاح نصاب اور اصلاح نظام کی بات کہی جاتی ہے تو مدارس والے الٹے سوالات اور اعتراضات شروع کردیتے ہیں۔ پھر یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں، دنیا کے ہر مذہب کے ساتھ ہے۔

اسرائیل جیسے ترقی یافتہ ملک میں مذہبی تعلیم نصاب کا حصہ ہے اور سب کے لیے لازمی ہے۔ خود ہمارے ملک میں ہمارے ہندو بھائیوں میں اس کا تناسب کم نہیں ہے، لیکن مثال دینے والے یہ فراموش کرجاتے ہیں، کہ یہی چار فی صد کم ازکم نوے فی صد مسلمانوں کے اذہان پر حکومت کرتے ہیں۔ یہی طلبا مساجد کے امام بنتے ہیں، جنھیں منبر سے خطاب کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور جن کی عملاً کوئی جواب دہی نہیں ہوتی۔ ماہرقرآن و احادیث کی شکل میں انہیں باوقار مرتبہ حاصل ہے جس کی وجہ سے تمام مسلمانوں پر یہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں فی صد کی بات نہیں ہے، بلکہ رجحان کی بھی بات ہے۔ لوگ اسلام کی بات سنتے ہیں، کیوں کہ یہ ان کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر ایک مولوی قرآن وحدیث کا حوالہ دے کر گفتگو کرتا ہے، تو پورا شہر سنتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ دیکھنا اور فکر کرنا ضروری ہے کہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، ورنہ پورے کا پورا شہر جہنم رسید ہوجائے گا۔

اہل علم کو ورثۃ الانبیاء کہا گیا ہے اور ظاہر سی بات ہے، کہ وراثت انبیاء میں سارے لوگ نہیں آ سکتے۔ اگر ایک نبی پوری قوم کے لیے کافی ہو گئے، اور ان کو منتخب لوگوں ہی سے منتخب کیا گیا، وہاں فی صد تو دیکھا ہی نہیں گیا تو نبی کی وراثت سنبھالنے کے دعوے داروں کے لیے، یہ فی صد کی باتیں کیوں؟ آپ اپنے دین کے قلعے سے دستبردار بھی نہیں ہونا چاہتے اور اس کی اصلاح سے بھی گریزاں ہیں۔ امام کی پیروی مقتدی پر فرض ہے۔ اس لیے امام سوچ سمجھ کر بنانا چاہیے۔ یہی جذبہ مدارس کے چار پانچ فی صد مسلمان کی اصلاح کے لیے ہونا چاہیے، کہ ان کی اصلاح گویا قوم کی اصلاح ہے۔ وہ فریق نہیں، محترم ہیں لیکن فی زمانہ اپنی حقیقت سے ناآشنا ہیں۔ اسی لیے مولویت ان پر حاوی ہے۔

رہی بات نصاب کی تو جو قوم اپنے مصلحین کو در در کی ٹھوکر کھاتے اور انتہائی کس مپرسی کی زندگی گزارتے دیکھتی ہے، ایسی زندگی کو وہ قابل رشک نہیں سمجھتی۔ جس کے ہاتھ پر چندے کا پیسا دیتی ہے، اس پہ وہ اعتماد نہیں کرپاتی۔ اگر مدارس کا نصاب عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا، تو مدارس میں تعلیم کا تناسب اسکولوں اور کالجوں کے مقابلے زیادہ ہوگا۔ کیوں کہ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت اقتصادی بحران کی وجہ سے تعلیم سے عاری رہتی ہے۔ مگر مدارس میں ملنے والی مفت تعلیم کم از کم انھیں جاہل مرنے نہیں دے گی اور سماج میں شرمندگی سے بھی بچالے گی۔ اس لیے مدارس میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کا ہونا ضروری ہے، تاکہ قوم کی وہ نسل جو اسکولوں اور کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتی، مگر علم سے شغف رکھتی ہے تعلیم یافتہ ہوسکے۔ اس طرح دین اور دنیا دونوں کا فائدہ حاصل ہوگا۔

یہاں پر میں ہندوستان کے ایک معروف عالم دین اور معتبر قائد مولانا احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ اور ان کے شاگرد ملک العلما مولانا ظفر الدین (سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی) کا حوالہ دینا چاہوں گا، جنھوں نے بیسویں صدی کے اوائل اور اس سے قبل ضرورت دینیہ کی شرط کے ساتھ سائنس اور ریاضی کی تعلیم کو فرض کفایہ لکھا، اور وہ اس کا اہتمام کیا۔ یہی فتوی دوسرے مسالک کے علما کا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ان مشکل علوم و فنون کو نصاب سے آہستہ آہستہ نکال دیا گیا۔ فلسفہ اور منطق کے نصاب میں سائنس کی تینوں شاخوں کے درجن بھر علوم شامل تھے۔ ضرورت ان کو آپ ڈیٹ کرنے کی تھی۔ تن آسانی، بزدِلی، کم ہمتی اور کام چوری کی نفسیات نے الٹا ان کو نکال باہر کیا۔ یاد رکھیے! آج نہیں تو کل! آپ کو نصاب بدلنا ہی ہوگا۔ چاہے آپ سو پچاس سال ضائع کرکے، یہ کام کریں۔

اب یا تو ندوہ، دیوبند، فلاح اور اصلاح جیسے مدرسے آٹھویں بلکہ دسویں تک کی منظوری محکمہ تعلیم سے حاصل کریں یا پھر چھہ سے چودہ سال کے بچوں پر مدرسے کا دروازہ بند کر دیں۔ جن لوگوں نے ان کو استثنا کا کھلونا تھمایا ہے، سستی مقبولیت کے لیے مسلمانوں کے مستقبل سے بھدا مذاق کیا ہے۔ استثنا غیر قانونی ہے اور حکومت یا کوئی اور کسی کا بنیادی حق سلب نہیں کر سکتا۔ حق تعلیم قانون کے رہتے ہوئے یہ سلسلہ جاری نہیں رہے گا۔ اب یہ نہیں چل سکتا کہ جو شخص ریاضی فیل کر گیا ہے، وہ حدیث کا مدرسہ کھول لے اور مجاہد اعظم کہلائے۔ کیا ہمارے اسلاف نے قرون اولی میں فلسفہ و کلام سیکھ کر دین کا دفاع نہیں کیا؟ کیا یہ اس دور کے جدید علوم نہ تھے؟ اور کیا ان علوم کے فروغ میں ان کا تاریخی کردار نہیں؟ آٹھویں، دسویں صدی میں اگر فلسفہ اور کلام سیکھنا اور سقراط، ارسطو اور فلاطون کو پڑھنا ضروری تھا، تو آج سائنس، ریاضی، سماجی علوم اور جدید فلسفہ پڑھنا ان پر بدرجہ اولی مطلوب ہے، بلکہ ان چار فی صد پر فرض جو دین کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرکے مدارس کا رخ کرتے ہیں۔

اب اگر وہ دنیا کے تقاضوں سے واقف نہ ہوں تو عمدہ انداز میں پیغام کیسے پہنچا پائیں گے؟ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah