جنرل مشرف انگلی ہلا ہلا کر صدر مشرف پر الزام لگا رہے تھے


5 نومبر 2007۔
سنیچر کو اپنی زندگی کے تیسرے فوجی شب خون کی کوریج کے لیے دفتر آ رہا تھا تو رستے میں ایک انگریز صحافی نے پوچھا کہ قوم سے خطاب میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔
’شریف الدین پیرزادہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ آہستہ آہستہ لکھ رہا ہوگا‘ میں نے کہا۔

دفتر پہنچا تو تقریر شروع تھی اور پہلا جملہ سنتے ہی مجھے پتہ چل گیا کہ جنرل مشرف اس جال میں پھنس گئے ہیں جس میں ہر بوڑھا فوجی ڈکٹیٹر پھنس جاتا ہے۔ ’تم سب کی ایسی کی تیسی، میں تو اپنی تقریر خود لکھوں گا۔ ‘

اگلے چالیس منٹ تک میں نے تقریر سنی اور میری پریشانی بڑھتی گئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ اس زبان کی وجہ سے وہ استعمال کر رہے تھے۔ ان کی پوری اردو تقریر میں غالباً ایک بھی جملہ درست اور مکمل نہیں تھا۔ فاعل کے لیے وہ ہاتھ سے ہوا میں دائرے بنا رہے تھے۔ مفعول کے لیے ان کے اچکتے کندھوں سے گر رہے تھے اور گرامر ان کی میز کے نیچے چھپی ہوئی کانپ رہی تھی۔

مجھے زبان دانی کا کوئی دعوٰی نہیں لیکن جب مشرف نے کہا کہ دہشت گرد بہت انتہا پسند ہو گئے ہیں تو میرے باقاعدہ رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

مجھے لگا کہ جنرل مشرف اس انکل کی طرح بات کر رہے ہیں جن سے کبھی کبھار آپ کی خاندانی تقریب میں ملاقات رہی ہوگی۔ جب سب مہمان سو جاتے ہیں لیکن وہسکی کی بوتل میں تھوڑی بچی ہوتی ہے۔ انکل مُصر رہتے ہیں کہ ایک اور پیگ بناؤ تو ساری دنیا کے مسئلے ابھی حل کرتا ہوں۔ ’اور تمہاری آنٹی کی ایسی کی تیسی، میں کسی سے نہیں ڈرتا، تم میرے بیٹوں کی طرح ہو۔ پانی ذرا کم ڈالو۔ ‘

ظاہر ہے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج کا سربراہ ٹی وی پر آ کر ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ حقیقت اس سے بھی خطرناک تھی۔ جنرل مشرف کسی آؤٹ آف دی باڈی تجربے سے گزر رہے تھے۔

شیروانی پہن کر وہ ایک ایسی تقریر کر رہے تھے جو وردی والے جنرل مشرف نے لکھی تھی۔ جنرل مشرف انگلی ہلا ہلا کر صدر مشرف پر الزامات لگا رہے تھے۔
یہ ہیں کچھ باتیں جو انہوں نے اپنی تقریر میں کہیں۔

۔ جی ہاں، انہوں نے کہا کہ ایکسٹریمسٹ بہت ایکسٹریم ہو گئے ہیں۔
۔ ہم سے اب کوئی ڈرتا ہی نہیں
۔ حکومت کے اندرایک اور حکومت چل رہی ہے
۔ ہر وقت بس کورٹ کے چکر لگاتے پھر رہے ہیں
۔ اسلام آباد میں ایکسٹریمسٹ بھرے پڑے ہیں

صرف ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے پر نرمی نظر آئی جب انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے تین برسوں کا ذکر کیا۔ ’میرا اس وقت مکمل کنٹرول تھا‘۔
’انکل پھر کیا ہوا‘ میں نے سوچا

جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگانے کا ذکر بھی سرسری طور پر ہاتھ ہلا کر کیا اور کہہ دیا آپ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھ ہی لیا ہوگا۔ یہ تک نہیں بتایا کہ سارے ٹی وی چینل تو میں نے بند کر دیے ہیں۔

مجھے اصل بے عزتی کا احساس اس وقت ہوا جب آخر میں جنرل مشرف نےاپنے مغربی سامعین سے انگریزی میں خطاب کیا۔ تقریر کا یہ حصہ لکھا ہوا تھا۔ کسی نے گرامر کی غلطیاں بھی درست کر دی تھیں۔ جملے شروع ہوتے تھے اور ختم بھی ہوتے تھے۔

میں نے سوچا انکل ٹھیک ہے۔ ہم ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ جمہوریت یا بنیادی حقوق مانگ سکیں لیکن کیا ہم درست گرامر کے بھی حقدار نہیں ہیں؟

یہ اس لحاظ سے بھی تاریخی تقریر تھی کہ اس میں کسی کی بیٹی کی شادی کی تاریخ کا ذکر ہوا۔ ’جج میرا فیصلہ دینے کی بجائے اپنے کولیگ کی بیٹی کی شادی اٹینڈ کرنا چاہتے ہیں‘۔
سپریم کورٹ کے جج راجہ فیاض نے ابھی تک پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ ان کی بیٹی کی شادی بارہ نومبر کو ہے۔ انہیں ہم پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔
اور جنرل مشرف کے لیے بس یہ دل کرتا ہے کہ بوتل چھپا کر کہا جائے کہ ’انکل رات بہت ہوگئی۔ اب سو جائیے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).