سیاسی جماعتوں کا ہدف صرف تحریک انصاف سے مقابلہ ہے


اگلے سال عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے یا نہیں اس حوالے سے اب بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تاہم پھر بھی ان انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ ایسے ہی پس منظر میں رہ کر سیاست میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے انٹری دینے والوں کی بھی تیاریاں نظر آنے لگیں ہیں۔ ان سرگرمیوں کو دیکھ کر صاف لگ رہا ہے کہ دسمبر کے خاتمے کے ساتھ ہی نئے سال کا سورج پاکستان کے سیاسی منظر کو بھی سب پر واضح کر دے گا۔ فی الحال تو چند سطور ان خدوخال پر تحریر کی جارہی ہیں جو مستقبل کے سیاسی نقشہ کو بنانے کے لئے ظاہر ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے کراچی کی سیاسی صورتحال میں اچانک اور ڈرامائی موڑ کو لیں تو بقول بعض تجزیہ کاروں کے آئندہ انتخابات کے لئے ان ہی کرداروں کو لے کرکراچی مینڈیٹ کے ذریعے ماضی میں بھی فیصلہ کن اہمیت حاصل کی گئی تھی اور اب بھی کمال اور ستار کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے سندھ ہی نہیں ملکی سطح پر بھی ان سے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام لیا جائے گا۔ یوں نظر آرہا ہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں مہاجر کارڈ کو حسب سابق حاصل کرکے اس بار فنکشنل لیگ اور تحریک انصاف کا سندھ سے حاصل کیا گیا مینڈیٹ بھی دو جمع دو چار کر کے پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بٹھانے کی تیاری ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ووٹر کو خان صاحب نے وہی سبق پڑھانا شروع کر دیا ہے جو پنجاب میں وہ شریف خاندان سے متعلق دیتے آئے ہیں۔

سندھ میں ان کے جلسوں میں لوگوں کی کثیر تعداد میں شرکت دیکھ کر سیاسی تجزیہ کاروں نے قرار دیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ چند حلقے جیت سکتے ہیں۔ فکشنل لیگ کے ساتھ کراچی کے باکمال لوگوں کو ملا کر صوبے میں حکومت بنانے کے لئے عددی اکثریت پوری کرکے پیپلز پارٹی کو پہلی مرتبہ سندھ کارڈ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ شاید اسی خوف کے باعث نہ تو آصف زرداری اور نہ ہی بلاول بھٹو ووٹ کے تقدس بحال کرنے کی مہم پر نکلے میاں نوازشریف پر اپنا دروازہ کھولنے پر تیار نظر آرہے ہیں۔ بجائے اس کے انہوں نے میاں صاحب کی مخالف قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ میاں صاحب کے ساتھ نہیں ان کے ساتھ ہیں اگلے چند ماہ میں سابق صدر فیصلہ ساز قوتوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو سندھ کارڈ کو بھی بچا لیں گے اور مرکز میں بسنے والے نئے سیٹ اپ میں بھی اپنا حصہ پا سکتے ہیں۔ تاہم اب تک کے سیاسی خدوخال میں فی الحال ان کی بات بنتی نظر نہیں آرہی۔

اب آیئے پنجاب کی طرف یہاں تحریک انصاف کے چیئرمین نے جنوبی پنجاب میں یکے بعد دیگرے جلسے کرکے خاصے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کیا ہے۔ یہیں سے جاندار امیدواروں کے برتے پر پیپلز پارٹی بھی چند حلقے اچکنے کے لئے پرامید ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف نے اس بار جس پلاننگ سے پنجاب کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اس میں پیپلز پارٹی کے لئے مزید مشکلات ہی پیدا ہوں گی۔ لاہور کے ضمنی الیکشن میں اس کے امیدوار کے صرف چند سو ووٹوں نے پنجاب بھر کے حلقوں میں اس کے سپورٹرز کو مایوس کیا ہے۔

تحریک انصاف کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے ووٹر کو وہ کامیابی سے اپنی طرف مائل کر چکی ہے تاہم پنجاب میں اصل چیلنج اس کے لئے مسلم لیگ(ن) کا وہ روایتی ووٹر ہے جو شریف برادران کو اقتدار میں پہنچا دیتا ہے۔ لاہور کے ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتوں کے درمیان ووٹوں کا فرق اس روایتی ووٹرز کا تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کے ہر حلقے سے تحریک انصاف کو پندرہ سے بیس ہزار اس ووٹر کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرنے کا چیلنج درپیش ہے جو مسلم لیگ(ن) سے وابستہ ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر رہنماؤں نے جنوبی پنجاب میں اپنے جلسوں میں کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت دیکھ کر امیدیں پال لی ہیں کہ پنجاب ان کے حق میں بدل رہا ہے تاہم فی الحال ان کے مخالف اپنے مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ادھر سے انہیں کوئی ریلیف ملا اور وہ عوامی رابطہ مہم پر نکلے تب ہی معلوم ہو گا کہ ان کی سپورٹ بیس میں کمی آئی ہے یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ عدالتی محاذ پر سامنے آنے والی کارروائی بھی رائے عامہ پر اثر انداز ہو رہی ہے اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے قائد مزید مشکلات کا شکار ہوئے اور احتساب عدالت میں دائر ریفرنسز میں ان کے خلاف کوئی فیصلہ آیا تو تحریک انصاف کو اپنی پنجاب مہم میں خاصی سہولت ہاتھ آجائے گی۔

میاں نواز شریف کے عدلیہ مخالف بیانات میں تندو تیزی کو دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا ہے کہ وہ ایک جانب اپنی مشکلات بڑھا رہے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کو کسی بھی قسم کی سہولت فراہم کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زرو بھی لگائے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں ان کی جماعت فی الحال کسی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ سامنے نہیں آئی۔ حکومت نے اپنے ارکان اسمبلی کو باندھ کر رکھنے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لئے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز جاریکیے ہیں تاہم بعض ذرائع کے مطابق درجنوں ارکان اسمبلی مسلم لیگ(ن) ہی نہیں اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہو کر ان حلقوں کی خواہش پوری کر سکتے ہیں جو موجودہ حکومت کو آئندہ سال مارچ میں ایوان بالا کے انتخابات سے قبل چلتا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ مسلم لیگ(ن) میں فاروڈ بلاک سامنے آگیا تو کراچی کے کمال و ستار اتحاد کے ارکان اسمبلی اور تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ بھی استعفے دینے والوں میں شامل ہو سکتے ہیں جس کے بعد لامحالہ حکومت کو نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑے گا۔

تحریک انصاف تو پہلے اس مطالبے کے ساتھ سامنے آچکی ہے ایوان بالا میں حکمران جماعت کو اکثریت سے روکنے کے لئے اس کی سنجیدگی کا اندازہ اس کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اس جماعت نے خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کی بات کرکے سب کو حیران کر دیا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق رواں سال کے آخری دنوں میں اس حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے ہی مرکز میں حکمران جماعت کے رہنما اپنے قائد میاں نواز شریف کو اداروں سے محاذ آرائی ختم کرنے کے مشورے دیتے رہے ہیں۔ ان رہنماؤں کا خیال ہے کہ مارچ میں سینٹ انتخابات تک مقتدر قوتوں سے بنا کر رکھی جائے ایک دفعہ ایوان بالا میں اسے اکثریت ہاتھ آگئی تو حکومت کے آخری تین مہینوں میں ووٹ کے تقدس کی مہم میں جان ڈالنے کے لئے زور آزمائی بھی کر لی جائے گی تاہم میاں صاحب کے خیال میں انہیں دیوار سے لگایا جا چکا ہے اور بند گلی سے نکلنے کے لئے انہیں اپنے مقابل قوتوں کو پیچھے دھکیلنا پڑے گا۔ اس دھکم پیل کا کیا نتیجہ آئے گا اس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔

جہاں سندھ میں مقابلہ دو چار قوتوں کے درمیان اور پنجاب میں ون ٹو ون مقابلے کی توقعات ہیں وہیں خیبر پختونخوا میں صوبے کی حکمران جماعت کو آئندہ انتخابات میں آؤٹ کرنے کی پلاننگ یہاں کی ہر قابل ذکر جماعت کر رہی ہے۔ اس کا حالیہ مظاہرہ این اے چار کے ضمنی الیکشن میں بھی دیکھنے کو ملا تاہم اس کے نتیجے میں ظاہر ہوا کہ صوبے کی اپوزیشن جماعتیں حکمران جماعت کو ساڑھے چار سالہ کارکردگی کا حوالہ دے کر شکست دینے کے قابل نہیں ہوسکیں آئندہ سات ماہ کے بعد اگر بروقت انتخابات ہوئے تو ان اپوزیشن جماعتوں کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ این اے چار میں تین جماعتوں کے اتحاد نے بھی شکست کھائی ہے جبکہ اس قسم کے اتحاد کو وسعت دینے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔

مجلس عمل کی بحالی کے باوجود دائیں بازو کی جماعتوں کا یہ اتحاد شاید ہی 2002ء کی طرح مؤثر ثابت ہو سکے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں مثال کے طور پر جماعت اسلامی سیاسی طور پر روبہ زوال ہے لاہور کے ضمنی انتخاب میں اس کے ووٹوں کو ا نگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جبکہ پشاور کے حلقہ این اے چار میں اس کے امیدوار سیاسی جماعتوں میں سب سے کم ووٹوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر آئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اپنے مضبوط گڑھ ملاکنڈ ڈویژن میں بھی اسے تحریک انصاف مشکلات میں ڈال سکتی ہے۔ ایسے ہی اسلام کے نام پر ووٹ لینے کے خلاف ایک مکتبہ فکر کے علماء نے آواز اٹھا کر جے یو آئی (ف) کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اسی وجہ سے بعض تجزیہ کاروں کے مطابق مولانا کو ایم ایم اے بحالی سے زیادہ دلچسپی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس صوبے میں بھی زیادہ تردلچسپی قد آور شخصیات کو پارٹی میں شامل کرنے پر لگی ہوئی ہے پارٹی کی تنظیم سازی اور کارکنوں کو متحرک کرنے کے لئے اس جماعت کو بھی مربوط پالیسی کے فقدان کا سامنا ہے۔

این اے فور میں شکست کے بعد اس کے ایک اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر اس کمزوری کی جانب کھل کر اشارہ کر چکے ہیں۔ صوبے کے اس سیاسی منظر میں حکمران جماعت کا اپنے زور بازو پر مقابلہ کرنے کے لئے عوامی نیشنل پارٹی نے البتہ اپنے کارکنوں کو متحرک کیا ہوا ہے۔ اس کے متوقع امیدوار رابطہ عوام مہم پر بھی ہیں اس کا ایک ثبوت این اے فور کے ضمنی الیکشن میں اس کے گزشتہ انتخابات میں حاصلکیے گئے ووٹوں سے زیادہ ووٹ ہیں۔ آثار ہیں کہ عام انتخابات میں یہی جماعت حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دے گی تاہم مکمل کامیابی کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو مل کر ہی زور آزمائی کرنی پڑے گی۔ ایسے کسی اتحاد کے امکانات کم ہی ہیں باوجود اس کے صوبے کی حکمران جماعت ایسے کسی ممکنہ اتحاد کے مقابلے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہے۔ تخت کسے ملے گا اور تختہ کس کا ہو گا اس حوالے سے ابھی صرف خدوخال ابھر رہے ہیں اس خاکے میں رنگ ووٹرز نے بھرنا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).