”تیر ی منصفی“ کا سوال ہے؟


راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں کی زندگی فیض آ باد انٹرچینج پر، لیبک یارسول کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاٹوں کے بعد مکمل طور پر مفلوج ہوچکی ہے۔ فیض آباد انٹرچینج کو جڑواں شہروں میں مرکزی حیثیت یوں حاصل ہے، کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی مرکزی راہوں کو جوڑتا ہے۔ اس کی بندش کا مطلب دونوں شہروں کے لوگوں کو گھروں میں محصور کرنا ہے۔

ادھر ملک بھر سے آنے والی ٹریفک کی روانی بھی فیض آباد انٹرچینج کی بندش کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کوامید تھی کہ پنجاب اور وفاق فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کو ختم کرانے کے لیے فوری اقدامات کرے گی لیکن اب تک کے وفاق کے وزیر داخلہ احسن اقبال کی بیان بازی سے اندازہ ہوتا ہے، کہ وفاقی دارالحکومت کے حکمران اسلام آباد کی بندش کوبھی قائد اعظم یونیورسٹی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی طرح حل کرنا چاہتے ہیں، کہ لوگ خوار ہوتے رہیں اور حکومت تماشائی بنی رہے۔

مسلم لیگ حکومت کی طرف سے مذاکرات اور فورس کے استعمال کے دونوں آپشن استعمال نہ کرنے کے پیچھے یوں لگتا ہے، کہ حکومت اس مجمع کے لیے سہولت کار کے کردار میں دل چسپی رکھتی ہے۔ وگرنہ دارالحکومت کو بند کرنے پر اب تک کوئی معقول ایکشن مذاکرات اور کارروائی کی صورت میں کرچکی ہوتی۔ جمعے کے روز تو حکومت نے دارالحکومت کو کنٹینروں کے حصار میں ایسا لیا، کہ الامان الحفیظ۔ اس کارروائی کا مقصد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزرا کو احتجا ج سے محفوظ رکھنا تھا۔ عوام کے ساتھ جو ہورہا تھا، ہوتا رہے۔ اس کی ان کو پروا نہیں ہے۔

ادھر وفاق میں سیاسی فضا بھی مسلم لیگی قیادت کی ٹکراو پالیسی کی وجہ سے، سب اچھا کا عندیہ یوں نہیں دے رہی، کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نوازشریف عدلیہ کے بارے میں وہ زبان استعمال کررہے ہیں، جو ان کے خوشامدی ٹولے کے علاوہ کوئی بھی پسند نہیں کررہا۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ حکومت کے وزیر ریاض حسین پیرزادہ بھی عدلیہ کے ساتھ ٹکراو کی پالیسی کے حق میں نہیں ہیں، لیکن نوازشریف کیمپ ہے کہ وہ اس بات پر واویلا کررہا ہے کہ ان کے خلاف منصوبہ بندی سے کارروائی کی جاری رہے۔ عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے والے رہنما نوازشریف کا کہنا ہے، کہ فیصلہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ منصفانہ ٹرائل کے حق سے محروم کردیا گیا۔ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ مقدمات سیاسی انتقام کے لیے بنائے گئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا، کہ مجھے پتا تھا، کہ فیصلہ میرے خلاف ہی آئے گا، کیوں یہ جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔ ان کا غصہ فیصلے کی صورت میں سامنے آگیا ہے، جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ تاریخ کا سیاہ باب بنیں گے۔ نااہل وزیراعظم نے یہ بھی کہا، کہ گزشتہ ستر سالوں میں کئی سیاہ اوراق ہماری عدلیہ کی طر ف سے لکھے گئے ہیں۔

سمجھداروں کا کہنا ہے کہ نااہل وزیراعظم نوازشریف، اداروں کے ساتھ ٹکراو کے عادی کردار ہیں۔ اس وقت اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں جب کبھی ان کی کرپشن، قانون شکنی پر ادارے ان کے خلاف حرکت میں آتے ہیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ محاذ آرائی میں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا سیاہ کارنامہ بھی نوازشریف نے پچھلی حکومت میں سرانجام دیا تھا۔ اب کی بار بھی پانامہ لیکس مقدمے میں ٹرائل اور نااہلی پر نوازشریف اور اس کے کرداروں کی طرف سے اداروں کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے۔ زبانی حملے شروع ہیں۔ معزز ججوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

ہمارے دوست عامر جلیل بوبراکا اس سیاسی صورت احوال پر تبصرہ یوں کرتے ہیں، کہ نااہل وزیراعظم نوازشریف اور مریم نوازشریف اپنے خلاف قانون کے ایکشن میں آنے پر ایسا تاثر دے رہے ہیں، کہ اس وقت ملک کے وزیراعظم ان کے نام زد وزیراعظم عباسی کی بجائے وزیراعظم ہاوس میں جنرل شاہد خا قان عباسی موجود ہے۔ ان کی اپنی حکومت ہے، ان کی حکومت ان اداروں کو چلارہی ہے۔ پھر سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح کی بے جا تنقید کا سہارا کیوں لیا جارہا ہے؟ اور لوگوں کو بے وقوف کیوں بنایا جارہا ہے؟ اب مسلم لیگی قیادت کے لیے ایسا تو نہیں ہوسکتا، کہ برطانیہ میں علاج کی سہولتوں کی طرح من مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے لندن کی عدالتوں میں ”شریفوں“ کا ٹرائل کیا جائے۔ اس بات کا تاثر بھی قطعی طور پر غلط ہے کہ شاہد خاقان عباسی، بے اخیتار وزیراعظم ہیں۔ مطلب ان کے پاس بحیثت وزیراعظم مکمل اخیتارات ہیں تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار جو اس ساری واردات کے بڑے کردارہیں، وہ ابھی تک وزرات خزانہ کی ڈرائیونگ سیٹ پر موجود ہیں اور ملک کی معیشت کی صورت احوال ابتر ہوگئی ہے۔

سب سے بڑھ کر وہ ملزم ہونے کے باوجود لندن کی اسپتالوں میں چادر اوڑھ کر، ریاست کے اداروں کا منہ چڑارہے ہیں۔ وزیراعظم عباسی اس بات سے انکار نہیں کرسکتے، کہ اسحاق ڈار کو ان کی اسپورٹ حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کے وزرا کی فوج ظفر مو ج سپریم کورٹ اور نیب عدالتوں میں ملزموں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور سپریم کورٹ اور دیگر اداروں پر تنقید کررہی ہوتی ہے۔ ملزموں کو نیب عدالت میں سرکاری پروٹوکو ل میں لایا جارہا ہے۔ ملزموں کو اتنی آزادی ہے کہ وہ عدالتوں پر کھلے عام تنقید کررہے ہیں، مطلب مسلم لیگی قیادت اپنی منجی (چارپائی) کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی بجائے، عدالتی فیصلے میں لکھے گئے اس شعر پر سیخ پا ہورہی ہے۔
”تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہ زنوں سے گلہ نہیں تیری راہ بری سوال ہے“۔

نااہل وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحب زادی مریم نوازشریف جن کے بارے میں کہا جارہا ہے، کہ وہ نوازشریف کی سیاسی جاں نشین ہیں، کے ہمدردوں کی طرف سے مسلسل سمجھانے کی بجائے ٹکراو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ وہ عدلیہ کو ماضی کی طرح سبق سکھانے پر تل گئے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں لکھے گئے شعر کو لیگی قیادت نے مشاورتی اجلاس میں ہدف تنقید بنانے کے بعد، اپنی جاری کردہ پریس ریلیز میں شعر کو یوں لکھا ہے کہ عدالت پر سوال اٹھاکر اس کو متنازع بنایا جائے۔

”توادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہ زانوں سے گلہ نہیں ”تیری منصفی“ کا سوال ہے“۔

یاد رہے کہ یہ مسلم لیگی حکومت جو نواز شریف کی قیادت میں چل رہی ہے، اس کی پالیسوں کی ناقص پالیسوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستان کے بارے میں عالمی بنک کا کہنا ہے، مالیاتی خسارہ بلند سطح پر ہونے کی وجہ سے معیشت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگا، اور مہنگائی مزید بڑھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).