غیر جمہوری قوتیں جمع کرنا جانتی ہیں اور نہ تفریق کرنا


ابھی چند روز پہلے کی بات ہے متحدہ قومی موومنٹ اور اس کی حریف (تاحال نوزائیدہ) جماعت پاک سرزمین پارٹی میں اتحاد قائم ہوا تھا۔ جو چوبیس گھنٹے میں ہی اختلافات کا شکار ہوگیا۔ ڈرامائی انداز میں ہونے والی پریس کانفرنسز نے یقیناً اچھی تفریح فراہم کی ہے کہ ہم سب اس سے بے حد محظوظ ہوئے۔ متحدہ کے سربراہ فاروق ستار کے اعلان رخصتِ سیاست اور بعدازاں واپسی بیان سےبانیِ متحدہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ ہاں تصویر کچھ مختلف ضرور تھی پہلے ایسے اعلان ٹیلیفون پر ہوتے تھے۔ اب ہاتھ میں مائیک تھامے قائد بانفس نفیس اعلان کررہے تھے۔ خیر اُس شکوہ پریس کانفرنس کی جواب شکوہ کانفرنس میں مصطفیٰ کمال نے الزامات کی ٹوکری جو فاروق ستار کی جانب سے آئی تھی اسے انہیں واپس کردیا۔

کچھ سوال جو اٹھائے گئے وہ اچھے تھے اور یقیناً ان کا جواب نہیں ملے گا کیسے فاروق ستار ایک ادارے کے مہمان بنے اور اگلے روز سربراہ بن کر نکلے گویا انٹرویو کے لیے گئے تھے اور تعیناتی کا حکم نامہ لے کر نکلے۔ اور جو وقت اس عمل میں صرف ہوا وہ یقیناً انٹرویو پینل میں کسی فریق کو یہ سمجھانے میں لگا ہو گا کہ یہی بندہ ہے جو اس جگہ کے لیے مناسب اور اہل ہے۔ اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ کا نام لے کر کہا گیا کہ یہ کام ان کے کمرے میں ہوا۔ آج موجودہ ڈی جی رینجرز کہہ رہے تھے “ متحدہ اور پی ایس پی انضمام کریں یا الگ الگ سیاست ہماری کوئی رائے نہیں۔ ہم یہ چاہتیں ہیں دونوں جماعتوں میں تصادم نہ ہو”۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ آپ دونوں مٹی میں لڑیں نہ لڑیں ہم پر کیچڑ تو نہ ڈالیں۔ بات سادہ ہوتی کہ اس وقت جو لوگ تھے اب تمام کے تمام ریٹائر ہوچکے۔ لیکن جناب اس وقت کے ڈی جی رینجرز آج کے چیف آف جنرل سٹاف ہیں کوئی وضاحت تو ان کی جانب سے بھی بنتی ہے۔ ”ریجیکٹڈ“ کی ٹویٹ ہی کر دیں۔

ایک اورخبر اسی اثنا میں آئی کہ سابق صدر پرویز مشرف کی سربراہی میں ایک اتحاد قائم ہوگیا ہے۔ فی الحال اس اتحاد میں 23 جماعتیں شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں عوامی تحریک۔ سنی تحریک۔ سنی اتحاد کونسل۔ مجلس وحدت مسلمین۔ مسلم کانفرنس(کشمیر)۔ مسلم لیگ جونیجو۔ مسلم لیگ کونسل۔ مسلم لیگ نیشنل۔ عوامی لیگ۔ مسلم الائنس۔ مزدور اتحاد۔ کنزرویٹو پارٹی۔ مہاجر اتحاد تحریک۔ انسانی حقوق پارٹی۔ ملت پارٹی۔ جمیعت علمائے پاکستان (نیازی)۔ عام لوگ پارٹی۔ عام آدمی پارٹی۔ مساوات پارٹی۔ مائینریٹی پارٹی۔ جمعیت مشائخ۔ سوشل جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی۔ ان جماعتوں کی موجودہ ایوان بالا و زیریں میں موجودگی ( مشرف لیگ کے علاوہ) صفر ہے۔ اے پی ایم ایل کی فقط واحد سیٹ ایوان زیریں میں ہے جو پارٹی کے گزشتہ عام انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود امیدوار کےانتخاب لڑنے پر جیتی گئی تھی۔

مسلم کانفرنس کشمیر قانون ساز اسمبلی میں 3۔ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان اسمبلی میں 3اور بلوچستان اسمبلی میں ایک نشست رکھتی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اس اتحاد میں سے بھی مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل وغیرہ کے علیحدہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ لیگی دھڑوں کے متحد ہونے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ اور آئیندہ چند ہفتوں میں مذہبی سیاسی جماعتیوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل کی بحالی بھی متوقع ہے جس کے حوالے سے خبریں ہیں کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا حکومت سے اور جمیعت علما اسلام( ف) وفاقی حکومت سے علیحدہ ہو جائے گی۔ تاہم یہ خبر کہیں سنائی نہیں دی کہ جماعت اسلامی فاٹا کے انضمام کے معاملے پر جمیعت علما اسلام کی تائید کرے گی یا جمیعت جماعت کے موقف کی۔ ان تمام باتوں سے ایک بات تو بالکل واضح ہے ملکی اطبلشمنٹ شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اتنے اتحاد کیسے چلیں گے سارے ہی پٹ جائیں گے۔ جوڑ توڑ کے تو آپ ماہر ہیں کوئی ایک ہی اتحاد بنالیں جو کم از کم کسی قابل تو ہو یہ کیا آدھا تیتر آدھا بٹیر (موجودہ صورتحال کے تناظر میں اس محاورے میں مزید پرندوں کا اضافہ کرلیں)۔

گزشتہ عام انتخابات میں سابقہ حکمران جماعت کو اقتدار سے دور کرنے کے لیے اس کی کارکردگی ہی کافی تھی اور ممکنہ حکومتی جماعت کے مقابلے کے لیے تحریک انصاف نامی ایک جماعت کو لانچ کیا گیا جس کا نقصان اس جماعت کو ہوا ہو نہ ہوا ہو۔ ق لیگ۔ عوامی نیشنل۔ اور پی پی پنجاب کو بے حد ہوا۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت ہے کیونکہ اب کارکردگی والا معاملہ ویسا نہیں جیسا پہلے تھا۔ نواز شریف کو عدالتی حکم پر نا اہل قرار نہ دیا جاتا تو صورتحال اسٹبلشمنٹ کے لیے اور زیادہ مشکل تھی۔ اب ان جھٹکوں سے اتنی مشکل تو نہیں مگر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مشکل ہی نہیں ورنہ قدم قدم اتحاد نہ بنائے جا رہے ہوتے گویا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اتحاد نواز شریف کے خلاف بنائے جارہے ہیں یا یہ کہ آئندہ سادہ اکثریت ہی کا قلع قمع کر دیا جائے تاکہ روز روز کے جھنجھٹ سے چھٹکارا تو مل جائے۔ ہم جموریت پسند۔ بلڈی سویلین سمجھتے ہیں کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام روز روز کے جھنجھٹ سے تنگ آجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).