ایم ایم اے کے کاز اور منشور کومزید وسعت دینے کی ضرورت ہے


ایم ایم اے کی بحالی کاباقاعدہ اعلان آئندہ ماہ کراچی میں متوقع ہے اس اعلان کے بعد سے مختلف حلقوں کی جانب سے ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ ہر تجزیہ کرنے والا قابل احترام اور اس کی رائے سر آنکھوں پر، بہرحال یہ تجزئے اور تبصرے سامنے رکھ کر ایم ایم اے کے اکابر کو ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر ان تمام اہل علم کی آراء کو یکجا کر دیا جائے تو پھر ایم ایم اے کیا، کسی بھی اتحاد بلکہ کسی بھی جماعت کے وجود کا اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا۔

مثلا ایک صاحب فرماتے ہیں کہ
مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے بحال کرنے کی بڑی کوشش کی، مگر امیر جماعت سید منور حسن کی استقامت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوپائے، اگرچہ اس وقت خیبر پختون خوا کی جماعت اسلامی اس کے حق میں تھی۔ سید منور حسن نے ہم چند اخبارنویسوں کو منصورہ میں ایک بریفنگ کے دوران خود بتایا کہ میں نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ پہلے یہ طے کیا جائے کہ ایم ایم اے کیوں ٹوٹی؟ ہلکے پھلکے انداز میں سید صاحب نے کہا کہ ایم ایم اے بحال تو بعد میں ہو، پہلے یہ تو طے ہو کہ یہ بے حال کیوں ہوئی؟ ان غلطیوں کی نشاندہی کی جائے اور جس نے وہ غلطیاں کیں، وہ اس کا اعتراف کرے، تاکہ دوبارہ پھر وہی سین نہ دہرایا جائے۔ یوں ایم ایم اے بحال نہ ہوسکی۔

تو عرض یہ ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی سے پہلے اس کی بےحالی کا مطالبہ کرنے والے دوستوں کو اتنی بات تو معلوم ہوگی کہ یہ ایک انتخابی وسیاسی اتحاد تھا، کوئی انضمام نہیں تھا، اتحاد ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں پھر یہ کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کا ایک ٹکڑا اس سے علیحدہ ہوچکا ہے۔ آج تک ملک ٹوٹنے پر تو بحث نہ ہو سکی، ایک سیاسی اتحاد کے لئے جس کا فائدہ جناب منور حسن صاحب کی جماعت کو بھی ہوتا۔ اس کی راہ میں صرف اس بنیاد پر رکاوٹ بننا نا جانے دانشوری کی کونسی قسم شمار کی جاسکتی ہے؟ ہاں نیک نیتی یہ ہوتی کہ ایم ایم اے بحال کر کے ٹوٹنے کے اسباب پر غور وفکر کیا جاتا اور آئندہ ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کی جاتی۔ آج بھی خواہش یہی ہے کہ ایم ایم اے بحال ہو اور ماضی کی کارکردگی کا کڑا احتساب ہو۔

ایک موقف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ
کہ اس وقت جو اہم قومی ایشوز موجود ہیں، ان پر ایم ایم اے کی دونوں بڑی جماعتوں جماعت اسلامی اور جے یوآئی ف کا موقف انتہائی مختلف بلکہ متضاد ہے۔ کرپشن اور کرپٹ افراد کا احتساب بنیادی قومی ایشو بن چکا ہے۔ جماعت اسلامی نے پانامہ سکینڈل کے بعد اس میں ملوث افراد کے احتساب کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی، سپریم کورٹ میں وہ گئی اور عدالت کے فیصلے کی بھرپور سپورٹ کی۔ سراج الحق صاحب اپنے روزانہ کے بیانات میں نواز شریف صاحب کو انتہائی کرپٹ اور ملکی نظام تباہ کرنے والا شخص قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن انہی نواز شریف کے اتحادی ہیں۔ وہ عدالتی فیصلے کے بھی ناقد ہیں، مولوی صاحب پانامہ ایشو پر بھی ”مٹی پاؤ“ فارمولے کا اطلاق چاہتے ہیں۔

تو جناب والا
قومی ایشوز پر تو ایک ہی جماعت کے اراکین میں بھی متضاد آراء پا ئی جاتی ہیں، الگ الگ جماعتوں میں اس کا پایا جانا کوئی انہونی تو نہیں، نہ ہی آئین و قانون کے خلاف ہے۔ پورا ملک اس ایشوپر باہم منتشر ہے، اتحاد کے لئے رائے میں مکمل ہم آہنگی، ہر موقف کی یکسانیت کو اخلاقی طور پر بھی لاگو کرنے کی خواہش کے بعد تو کسی قسم کا اتحاد ممکن نہیں رہے گا۔ اور فاٹا کے حوالے سے تو مولانا فضل الرحمان صاحب کہ چکے ہیں کہ ایم ایم اے کی سٹیرنگ کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ اس اہم ایشو پر اتفاق رائے کے لئے مشاورت کرے۔

ایک اور صاحب علمی اور دلائل کی بنیاد پرکیے جانے والے اختلافات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب تک ان اختلافات کو ختم نہیں کیا جاتا یہ اتحاد سوائے منافقت کے کچھ نہیں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ پڑھانے والے عالم دین کے بارے میں مفتی محمود کے ایک قول کو بطور نمونہ پیش کیا۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام بننے والے پاکستان میں تو بانیان پاکتسان نے اس رواداری کا مظاہرہ کیا کہ جن ہندوّں کے مظالم سے تنگ آکر پاکستان بنایا انہیں ہندوں کو یہاں بغیر کسی تفریق کے رہنے کی اجازت دی، انہیں خوش آمدید کہا اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ انہی ہندووّں کے مظالم سے تنگ آکر ملک بنایا اب انہی کو یہاں خوش آمدید کہاجارہاہے یہ تو منافقت ہے تو اس اعتراض کو رد کردیا جائے گا۔ علمی اختلاف اپنی جگہ، اس اختلاف کے نام پر چوکوں چوراہوں میں اودھم مچانا، قتل وغارتگری کرنا تو قابل مذمت ہے، اختلاف بالکل ختم ہوجانا شاید فطری اصولوں کے مطابق بھی نہ ہو، اس لئے مشترکات پر اتحاد میں کیا حرج ہے؟

سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام بننے والے پاکستان میں تو بانیان پاکتسان نے اس رواداری کا مظاہرہ کیا کہ جن ہندوّں کے مظالم سے تنگ آکر پاکستان بنایا انہیں ہندوں کو یہاں بغیر کسی تفریق کے رہنے کی اجازت دی، انہیں خوش آمدید کہا اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ انہی ہندووّں کے مظالم سے تنگ آکر ملک بنایا اب انہی کو یہاں خوش آمدید کہاجارہاہے یہ تو منافقت ہے تو اس اعتراض کو رد کردیا جائے گا

ایک صاحب فرماتے ہیں یہ اتحاد پی ٹی آئی کے خلاف ہے اسی طرح کے ایک اور ذہن رکھنے والے اسے ن لیگ کے خلاف اتحاد قرار دے رہے ہیں، کوئی اس اتحاد کے خلاف ہے کہ اس میں اہل تشییع شامل ہیں جبکہ کوئی اس لئے خلاف ہے کہ اہل تشییع کے خلاف کتابوں میں فتاوی موجود ہیں اور پھر اتحاد ہورہا ہے، کوئی اس اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے انتخابات میں کامیابی کے لئے اکٹھ۔ اگر تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ہے تو آج کل کچھ لوگ کیوں نامور مدارس کے مہتمین اور چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے لوگوں کو اکٹھے کر رہے ہیں وہ کس کے کہنے پر ایسا کر رہے ہیں، کس کے خلاف کر رہے ہیں۔ یہ او ر اس قسم کے درجنوں اعتراضات، تبصرے اور تجزئے ہیں جس کا جواب صرف ایک ہے کہ ایم ایم اے کے کازاور منشور کومزید وسعت دی جائے اور پہلے سے بہتر کارکردگی کامظاہرہ کیا جائے، مولانا فضل الرحمان صاحب نے گذشتہ روز یہ اعلان بھی کیا کہ الیکسن کمیشن میں رجسٹرڈ مذہبی سیاسی جماتوں کو بھی دعوت دی جائے گی، یہ اعلان بھی خوش آئند ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).