کسی بھی جونیئر ساتھی کی اطاعت کے لیے تیار ہوں: جماعت الحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی


عمر خالد خراسانی

ماضی میں جماعت الاحرار خود کو تحریک طالبان پاکستان کی ذیلی جماعت کے طور پر بھی بیان کر چکی ہے۔ جماعت الحرار کا پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً مہند ایجنسی سے آغاز ہوا تھا۔

پاکستان میں اہم متحرک شدت پسند تنظیموں میں سے ایک جماعت الحرار نے پہلی مربتہ تنظیم کے اندر اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے سربراہ عمر خالد خراسانی اپنا عہدہ مشروط طور پر کسی جونئیر ساتھی کے حق میں چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں زخمی ہونے والے عمر خالد خراسانی نے یہ پیشکش ایک تفصیلی بیان میں جاری کی ہے۔

’ہلاکت‘ کے بعد خراسانی کا نیا بیان

’عمر خالد خراسانی کے مارے جانے کی تصدیق نہیں ہوئی‘

طالبان کمانڈر عمر خالد خراسانی تنظیم و عہدے سے معزول

ان کا مزید کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیموں اور بعض مجموعات کی طرف سے جماعت الاحرار پر جو ’دھڑا دھڑ الزامات لگے ہیں وہ سو فیصد جھوٹ ہیں مگر میں ان کا جواب دے کر اختلاف کو ہوا نہیں دینا چاہتا۔‘

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’البتہ ایک بات کہ میں نے پہلے بھی کئی بار ساتھیوں کو اطمینان دلایا ہے کہ۔۔۔ میں کسی بھی جونیئر ساتھی کی اطاعت کے لیے تیار ہوں اور کسی بھی جماعت یا مجموعے کو بیعت دینے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ وہ، ایک منظم طریقہ کار ہو، نہ کہ صرف میڈیا پر اطاعت کا اعلان کیا جائے اور پھر ایک سرد جنگ شروع ہوجائے جس سے مستقل طور پر الگ رہنا ہزار درجہ بہتر ہے۔‘

تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار نامی اس تنظیم کے اندر اختلافات کئی صورتوں میں گزشتہ چند دنوں میں سامنے آئے تھے۔ ان میں بظاہر ایک عمر خالد خراسانی کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی گروپ کے کسی دھڑے کی جانب سے تصدیق اور چند روز قبل تنظیم کے کمانڈر مکرم سمیت کئی اراکین کو کوئی وجہ بتائے بغیر جماعت سے نکالنے کا اعلان تھا۔ اس کے بعد مکرم کی سربراہی میں حزب الحرار کے نام سے مخالف دھڑے نے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

نئی تنظیم کے نئے ترجمان ڈاکٹر عزیز یوسفزئی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نیا گروپ ابھی تعداد کے اعتبار سے چھوٹا ہے لیکن انہیں امید ہے کہ بہت جلد کئی سرکردہ رہنما ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ انہوں نے بھی بی بی سی اردو کے ایک سوال کے جواب میں عمر خالد خراسانی کے زندہ ہونے کی تصدیق کی۔

کمانڈر مکرم عرف عمر خراسانی، عمرخالد خراسانی کے بہت ہی قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں۔ انھوں نے چند دن پہلے جماعت الاحرار کی پالیسی پر اعتراضات کیے تھے اور سوشل میڈیا کے ذریعے جماعت الاحرار کے شدت پسندوں کو ایک نئے گروپ کی دعوت دی تھی۔ اس وجہ سے ان کے ساتھیوں کے بقول ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔

پاکستان میں کئی بڑے پرتشدد حملوں میں ملوث تنظیم کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔

نئی تنظیم نے علیحدگی کی وجوہات واضح کرنے کے لیے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا ہے۔

حزب الاحرار نے اپنے اہداف و مقاصد کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن اس ویڈیو کے ذریعے مالی امداد کی اپیل کی ہے۔

حزب الحرار کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ شامل ہونے والے اہم اراکین میں جماعت الاحرار کے سیاسی کمیشن کے اہم رکن کمانڈر حاجی رشید، اقتصادی کمیشن کے منتظم کمانڈر مسلم یار، عسکری کمیشن کے رکن کمانڈر جہاد یار، قاری اسماعیل، مہمند ایجنسی کے میچنی کے عمران اورکزئی اور عسکری کمیشن کے اہم رکن قاری اسمعیل آفریدی شامل ہیں۔ ویڈیو میں انہیں مکرم خراسانی کے دفاع میں باتیں کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ ویڈیو کسی خشک ندی میں ریکارڈ کی گئی ہے جس میں پحیس سے تیس مسلح افراد کو ایک دائرے کی صورت بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے۔ تقاریر کے اختتام پر دعا اور خوشی میں ہوائی فائرنگ بھی کی جاتی ہے۔

مکرم خراسانی کا چند منٹ کا آڈیو بیان بھی ویڈیو میں شامل ہے جس میں وہ عام عوام کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی بھی زیر علاج ہیں تاہم مختلف اہم شخصیات سے رابطے میں ہیں۔

جماعت الحرار میں تقسیم سے مبصرین کے خیال میں امن عامہ کی صورتحال میں بہتری نہیں بلکہ ابتری آئی گی۔ ادھر حکومت کے لیے بھی تقسیم در تقسیم دھڑوں سے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

علیحدہ ہونے والی تنظیم کو پرانے ساتھیوں سے کئی دیگر کے علاوہ یہ سات شکایات ہیں۔

نئی تنظیم کی شکایات

۔ جماعت الحرار کے امیر سال سال بھر کسی سے ملاقات نہیں کرتے۔

۔ جماعت الحرار کے ہر دوسری شدت پسند تنظیم جیسے کہ داعش، لشکر اسلام، محسود تنظیموں سے تعلقات کیوں خراب ہیں۔ اس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ذکر تاہم نہیں جس کا ماضی میں جماعت الحرار بھی ایک حصہ تھی۔

۔ جماعت میں سب مشران، کمانڈ اور امیر ان پڑھ ہیں۔

۔ جماعت کی کوئی سیاسی پالیسی نہیں، افغانستان میں جنگ بندی ہے لیکن وہیں اس پر چھاپے بھی پڑ رہے ہیں، ان کے اراکین ہلاک ہو رہے ہیں۔ لیکن انہیں لڑنے کی وہاں اجازت نہیں۔

۔ تنظیم میں تقریباً پچاس فیصد تعداد افغانوں کی ہے لیکن ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

۔ جماعت الحرار اب ایک لسانی تنظیم ہے یا جہادی؟

۔ ان کے قیدیوں کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp