خدارا، آپ بھی اپنی پالیسی پر غور کریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔


آپ کلبھوشن یادیو کا نام جہاں بھی لیتے ہیں تو ساتھ کمانڈر کا لفظ ضرور استعمال کرتے ہیں، اور درست بھی کرتے ہیں کہ اس کی وجہ اسے حاضر سروس آفیسر ثابت کرنا ہوتا ہے، کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا ایک حاضر سروس آفیسر تھا اور ہے۔

لیکن ہمارے لیے وہ ایک وطن دشمن اور دہشت گرد ہے، آپ اسے پروٹوکول ایک آفیسر کے درجے کا دے رہے ہو لیکن سرکار اس نے سیکڑوں ماؤں کی گود اجاڑی ہے، اس نے لاتعداد بچوں کو یتیم کیا ہے، اس نے متعدد باپوں کے پھولوں کو مسلا ہے، جس کا اعتراف بھی کر چکا۔

لیکن آپ کے اندر سے انسانی حقوق اور افسری والا بیکٹیریا جانے کیوں نہیں نکل رہا، کیا ان ہزاروں لوگوں کے کوئی انسانی حقوق نہ تھے کہ جو اس کی بربریت کی بھینٹ چڑھے، آپ انسانی حقوق کی بنیادوں پر اب اس کی ملاقاتیں کرا رہے ہو، کیا کبھی دشمن ملک بھارت نے بھی ایسا کیا، اشرف گورو کی مثال زیادہ پرانی نہیں اس کی تو لاش بھی اسی جیل میں دفنا دی گئی تھی

قوموں کی مضبوطی کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے دشمنوں کو نشان عبرت بناتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آپ نے تو اپنے دشمن کو آفیسر سمجھ رکھا ہے

آپ خود سوچیں کہ اگر پاکستان کا حاضر سروس کمانڈر بھارت میں اس طرح پکڑا جاتا تو وہ بھی آپ جیسا سلوک کر رہے ہوتے یا پھر نشان عبرت بناتے کہ آئندہ کوئی آفیسر وہاں جانے سے پہلے 1000 دفعہ سوچے

لیکن صاحب آپ نے تو کلبھوشن کے بعد آنے والے کا ڈر بھی اتار دیا ہے، وہ دہشت گردی کے حملے جو اس گرفتاری کے بعد رک گئے تھے اب دوگنا ہو گئے ہیں

وہ را کا یجنٹ تھا جس کا اس نے خود اعتراف کیا، آپ کہتے ہیں کہ را نے 50 کروڑ ڈالر سی پیک کو روکنے کے لئے مختص کر رکھے ہیں، لیکن دوسری جانب را کے ایجنٹ اور سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل کو بیوی سے ملاقات کرا رہے ہو

اب ذرا احسان اللہ احسان کی بات کر لیتے ہیں، کہ جس نے درجنوں ویڈیو پیغامات میں پاکستانیوں اور سیکورٹی اداروں کو دھمکیاں دیں، بے گناہوں کے قتل کی ذمہ داری سرعام قبول کی لیکن اب بھی وہ آپ کے پاس ہے، کوئی معلوم نہیں کہ اس کے خلاف کوئی کیس چلا بھی ہے کہ نہیں، مجھے معلوم ہے کہ کچھ پالیسیز ہوتی ہیں کہ دشمن میں سے اپنے سورس بنائے جائیں دشمن کے اندر جگہ پیدا کی جائے، ہو سکتا ہے احسان اللہ احسان کا کیس بھی اس سے ملتا جلتا ہو، لیکن جناب اس کے جرائم ان تمام معاملوں سے بڑے ہیں
اس کا نام دہشت کی علامت بن چکا تھا، وہ جب تک آپ کے پاس رہے گا، آپ کی نیک نامی پر حرف آتا رہے گا

یہ سرمایہ نہیں بلکہ ایک بوجھ ہے جو مختلف قسم کے سوالات کو جنم دے رہا ہے، کیونکہ احسان اللہ احسان ایک قاتل ہے اور قاتل کے لیے کسی کے دل میں ہمدردی نہیں ہوتی۔ اس کے بارے میں زیادہ نہیں لکھتا کہ جناب کو بھی اس معاملے کی حساسیت اور قومی جذبات سے مکمل آگاہی ہے

چلتے چلتے ایک اور بات کل ایک دبنگ سابق سفیر سے ملاقات ہوئی جو چند ماہ قبل ہی اہم ترین ملک میں ذمہ داریاں نبھا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا اب طالبان پر کوئی اثرورسوخ نہیں رہا۔ ہمارا اب بھی یہ کہنا کہ ہمارا طالبان پر کوئی اثر ہے، دنیا کی نظر میں ہمیں مزید مشتبہ بناتا ہے. اگر ہم سچائی سامنے رکھ دیں کہ ہمارا اب ان پر اثر نہیں تو اس کا فائدہ ہو گا. اس معاملے پر بھی نظرثانی کر لیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).