کیچ میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں پنجاب پہنچ گئیں


بلوچستان

صوبہ بلوچستان میں ہلاک ہونے والے 15 افراد میں سے اکثر کے گھر والوں کو علم تھا کہ ان کے عزیز غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانا چاہتے تھے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ سے برآمد ہونے والی 15 افراد کی لاشوں کو جمعرات کے روز فوجی طیارے کے ذریعے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور پہنچایا گیا۔

صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے 11 افراد کی لاشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے کیا گیا جبکہ چار افراد کی شناخت تاحال نہیں ہوئی ہے۔

ان افراد کی ہلاکت کی خبر صوبہ پنجاب میں ان کے گھروں تک پہنچتے ہی وہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان: پنجاب سے تعلق رکھنے والے 15 افراد کی لاشیں برآمد

بلوچستان کے ’تین اخباروں کے سرکاری اشتہارات بند ‘

لندن کی بسوں پر پاکستان مخالف اشتہارات ہٹانے کا کام شروع

شناخت کیے جانے والے 11 افراد میں سے چار کا تعلق سیالکوٹ، تین کا منڈی بہاؤالدین، دو کا گوجرانوالہ جبکہ ایک کا گجرات اور ایک کا واہ کینٹ کے علاقے سے ہے۔

ہلاک ہونے والے افراد میں زیادہ تر کے لواحقین جانتے تھے کہ وہ انسانی سمگلنگ کے جانے پہچانے خطرناک راستے سے انسانی سمگلروں کی مدد سے بیرونِ ملک جانے کی کوششیں کر رہے تھے۔

تاہم کچھ خاندانوں کے لیے ان کے عزیزوں کی موت کی خبر بالکل غیر متوقع تھی۔

صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں ڈھب والی کے رہائشی 35 برس کے سیف اللہ ان میں سے ایک ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کے چچا زاد بھائی محمد اسلم نے بتایا کہ ان کا خاندان سیف اللہ کے بیرونِ ملک جانے کے ارادے سے بھی لا علم تھا۔

محنت مزدوری کی غرض سے لاہور میں قیام پذیر سیف اللہ کا گذشتہ تین ماہ سے خاندان سے رابطہ منقطع تھا۔

ان کے گھر والوں کو جو آخری اطلاع ملی وہ مقامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی موت کی اطلاع تھی۔

سیف اللہ درزی کا کام جانتے تھے اوراس کے علاوہ محنت مزدوری کیا کرتے تھے۔ گذشتہ تین ماہ سے گھر والوں سے ناچاقی ہوگئی تھی جس کے بعد ان کی اہلیہ ڈیڑھ برس کے بیٹے اور سات ماہ کی بیٹی کو لے کر میکے چلی گئی تھیں۔

سیف اللہ کے چچا زاد بھائی محمد اسلم نے بتایا کہ ‘وہ کہتی تھی اپنا علیحدٰہ گھر بناؤ۔ سیف اللہ نے کہا جب پیسے ہوں گے تو بناؤں گا بس اسی بات پر ناراضگی ہوگئی تھی۔ اس کے بعد سے اس کا گھر والوں سے زیادہ رابطہ نہیں تھا۔’

سیف اللہ کے والد پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ گھر پر بس ایک بوڑھی ماں تھی جن کے لیے وہ کچھ عرصہ سے لا پتہ تھے۔گھر والوں کو نہیں معلوم تھا کہ ان کا ملک سے باہر جانے کا کوئی ارادہ تھا۔

محمد اسلم نے بی بی سی کو بتایا ‘ہمیں نہیں معلوم تھا اس نے پیسے کہاں سے لیے یا ایجنٹ کو کتنے پیسے دیے۔ ہمیں قطعی علم نہیں تھا کہ وہ اس طرح بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ شاید مالی مشکالات کی وجہ سے اس نے یہ فیصلہ کیا ہو۔’

منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے 25 برس کے ذوالفقار علی کے بھائی افتخار علی کا کہنا تھا کہ ان کو بھی علم نہیں تھا کہ ان کے بھائی اس طرح کے غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈیڑھ برس کی بیٹی کے والد ذوالفقار علی چائے بیچنے کا کام کرتے تھے اور اپنی اہلیہ اور بچی کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہتے تھے۔

افتخار علی نے بتایا ‘تھوڑا غصے کا تیز اور منہ زور طبیعت کا تھا۔ ہمیشہ اپنی مرضی کرتا تھا جس پر میں اکثر اس کو ڈانٹ بھی دیتا تھا۔ اس نے کسی کو نہیں بتایا کہ وہ کیا کر رہا تھا۔’

افتخار علی جو خود فوج میں ملازم ہیں جمعرات کے روز اپنے چھوٹے بھائی ذوالفقار علی کی میت لاہور ائیر پورٹ سے لے کر واپس گئے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ذوالفقار رواں ماہ کی 11 تاریخ کو گھر سے نکلے اور 13 تک وہ کوئٹہ پہنچے جہاں سے ان کی گھر پر بات ہوئی اس کے بعد ان کا موبائل فون بند ہوگیا۔

افتخار علی کے مطابق ‘مجھے جیسے ہی علم ہوا کہ وہ کوئٹہ میں ہے تو میں نے فون پر اس سے رابطہ کیا۔ وہ کہنے لگا کہ آپ نے ڈانٹنے کے لیے فون کیا ہو گا۔’

تاہم انھوں نے بھائی کو بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ کوئٹہ آئے ہوئے ہیں اور چند روز میں گھر اطلاع دے دیں گے۔

اس کے برعکس گوجرانوالہ میں رسول نگر کے رہائشی 28 برس کے احسن رضا منہاس کے گھر والے جانتے تھے کہ وہ بلوچستان سے ہوتے ہوئے ایران کے راستے ترکی جانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے ناصر شاہ نامی انسانوں کے ایک سمگلر کو 80 ہزار روپے ادا کیے تھے۔

اس خطرناک راستے سے ہزاروں افراد غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں اور دورانِ سفر کئی افراد جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔

احسن رضا کے بھائی محسن رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود احسن بیرونِ ملک جانے پر بضد رہے۔ وہ حافظِ قرآن تھے اور محنت مزدوری کرتے تھے۔

محسن رضا نے بتایا کہ ‘بس دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے پروگرام بنا لیا۔ ایجنٹ کو ترکی پہنچنے کے بعد ایک لاکھ 50 ہزار روپے مزید ادا کرنے تھے۔’

منڈی بہاؤلدین ہی کے علاقے میانہ گوندل سے تعلق رکھنے والے 26 برس کے اظہر اقبال کے بھائی ناصر اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بھائی 30 اکتوبر کو گھر سے نکلے تھے اور کوئٹہ پہنچنے کے بعد چند روز قبل ان کا خاندان والوں سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔

وہ بھی محنت مزدوری کرتے تھے اور پانچ بھائیوں میں ان کا نمبر چوتھا تھا۔ وہ بیرونِ ملک جانے کے لیے بضد تھے۔

ناصر اقبال نے بتایا کہ وہ یونان جانا چاہتے تھے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیسے جائیں گے۔ جانے سے قبل انھوں نے اپنے بھائی سے 10 ہزار روپے لیے تھے۔

ناصر اقبال کہتے ہیں ‘بس آپ کو معلوم ہے پیٹ سب کچھ کرواتا ہے۔ اس نے بھی اسی لیے کیا یہ سب کچھ، بس نہیں ہوا کامیاب۔’

28 برس کی عمر کے غلام ربانی کا تعلق گوجرانوالہ کے علاقے جامکے چٹھہ سے تھا۔

ان کے چچا سعید احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بھی ایجنٹ کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے یونان جانا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے پیشگی رقم بھی ادا کر دی تھی۔

سعید احمد نے بتایا کہ ‘یہ ایجنٹ لوگوں کو بہلا پھسلا کر ایسے غیر قانونی طریقوں پر آمادہ کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو جو ہونا تھا ہوگیا اب اس بات کو زیادہ سے زیادہ میڈیا پر آناچاہیے تاکہ دوسروں کے ساتھ ایسا نہ ہو۔’

صوبہ بلوچستان میں مقامی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کی ہلاکت کی ذمہ داری غیر قانونی شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ پر ڈالی جا رہی ہے جس نے ایک بیان میں اسے قبول بھی کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp