تھل جینا چاہتا ہے


خیال رہے کہ تھل کے عوام اپنے حقوق سے آگاہی رکھتے ہیں۔ ان کو سرائیکی، سرائیکی کے نعرے میں الجھاکر اپنے وسائل سے دور نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ ملتان کی عوام کو بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہے تو تھل کے عوام بھی اس بات کا حق دار ہیں، کہ ان کو بھی ملتان کی طرح ترقی کے برابر مواقع ملیں۔ یک طرفہ ٹریفک نہیں چلے گی۔ لاہور کے حکمران ملتان پر نوازشات کا سلسلہ جاری رکھیں، لیکن تھل جوکہ چھ اضلاع (میانوالی، خوشاب، بھکر، جھنگ، لیہ، مظفرگڑھ) اس کے حصے کا بجٹ ملتان پر خرچ کرنے کی بجائے تھل کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔

تھل پنجاب میں ایک خاص اہمیت کا حامل علاقہ ہے، تھل کے ایک طرف سندھ بہتا ہے تو دوسری طرف چناب اور کچھ فاصلے پر تھل کے اوپر دریا جہلم کا ساتھ ہے۔ اسی طرح تریموں کے مقام پر جہلم، چناب ایک ہوکر تھل کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ اسی طرح راوی بھی تھل سے آکر ملتا ہے۔ را قم الحروف نے تھل کے مقدمے سے کالم انھی صفحات پر لکھا، تو بعض دوستوں کو اس کے سمجھنے میں دشواری پیش آئی، انھوں نے اپنی توپوں کا رخ تھل کے ایشو پر رکھنے کی بجائے راقم الحروف کی ذات کی طرف کرلیا، جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ یوں مناسب سمجھا کہ ایک بار پھر تھل کے مقدمہ کو پیش کی جائے تاکہ سند رہے۔

ملتان میں نشتر میڈیکل کالج، ڈیرہ غازی خان میں غازی میڈیکل کالج، رحیم یار خان میں شیخ زید میڈیکل کالج، بہاول پور میں قائد اعظم میڈیکل کالج، اسی طرح ملتان، ڈیرہ غازی خان، رحیم یارخان اور بہاول پور میں ائرپورٹس موجود ہیں، ادھر بہاول پور میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور تو ملتان میں بہاؤ الدین ذکریا یونی ورسٹی کے علاوہ ویمن یونیورسٹی موجود ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان، بہاول پور اور ملتان میں زرعی یونی ورسیٹاں موجود ہیں۔ ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان بحیثت اضلاع دیگر ضلعوں پر یوں برتری رکھتے ہیں کہ بہا ول پور اور ملتان میں ہائی کورٹ کے بنچ ہیں۔ اس کے علاوہ بہاول پور، ملتان، ڈیرہ غازی خان نشتر اسپتال اور بہاول وکٹوریہ اسپتال جیسے ٹیچنگ ادارے موجود ہیں۔ اسی طرح ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے تعلیمی بورڈز کی سہولت رکھنے کے علاوہ دیگر سہولتوں سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں۔ دل چسپ صورت احوال یوں ہے کہ ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان ایک دوسرے سے جڑے اضلاع ہیں اور تینوں اضلاع ایک دوسرے سے ایک دو گھنٹے کے فاصلے پر ہیں۔

ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع یوں بھی خوش قسمت ہیں کہ یہاں کے سیاست دانوں کو صدر پاکستان، وزیراعظم، گورنر، وزیر خارجہ اور دیگر وزراتوں میں خاص کوٹہ ملتا ہے۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور لاہور میں بحیثت صدر پاکستان، وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور گورنر شپ ملنے کے بعد ان کا فوکس اپنے اضلاع ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان پر فوکس ہوتاہے، باقی ان کے ساتھ جڑے اضلاع کے لیے سرائیکی، سرائیکی کے نعرے ہوتے ہیں۔ لاہور کے حکمرانوں پر تنقید سب سے زیادہ ملتان سے ہوتی ہے، لیکن لاہور کے حکمران اس بات پر دھیان رکھتے ہیں کہ ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان میں منصوبے وقت پر مکمل ہوں۔

راقم الحروف اس بات کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے، کہ آخر ملتان، ڈیر ہ غازی اور بہاول پور کے سیاست دانوں کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے، جو تخت لہور اور اسلام آباد انھی کو نوازا رہا ہے۔ درست ہے کہ ملتان، بہاول پور، ڈیرہ غازی خان کے عوام اور ان کے بچوں کا حق ہے کہ ان کو نشتر میڈیکل کالج، غازی میڈیکل کالج اور قائد اعظم میڈیکل کالج، ذکریا یونی ورسٹی، انجئیرنگ یونی ورسٹی، زرعی یونی ورسٹی، نوازشریف یونی ورسٹٰی جیسے تعلیمی ادارے گھر کی دہلیز پر ملیں اور ان کے بچے اپنے مستقبل کو محفوظ بناسکیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تھل جو کہ چھہ اضلاع (میانوالی، خوشاب، بھکر، جھنگ، لیہ، مظفرگڑھ) پر پھیلا ہوا ہے، اس کے وسائل کو ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی اضلاع پر قربان کردیا جائے۔ ملتان کو ترقی دی جائے لیکن اس با ت دھیان رہے کہ اگر سارا کچھ ملتان پر لگایا جائے گا تو پھر لاہور اور اس میں کیا فرق رہ جائے گا۔

اب ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک لمبی جدوجہد لاہور کے حکمرانوں کے خلاف لڑی جائے اور پھر ملتان سے قبضہ چھڑانے کا سلسلہ شروع کی جائے۔ سید یوسف رضا گیلانی بحیثت وزیراعظم، فاروق لغاری بحیثت صدر پاکستان اور رفیق رجوانہ بحیثٰت گورنر ملتان اور ڈیرہ غازی خان تک اپنے اختیارات محدود رکھیں گے، تو تھل جیسا بڑا علاقہ جو کہ چھہ اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس کو پس ماندگی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ تخت لہور کے حکمرانوں کا سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ تھل جیسے اہم علاقے کی طرف توجہ کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ تھل جو کہ ڈویژن کے لیے ساری چیزیں پوری ہونے کے باوجود اس کو ڈویژنل ہیڈکوارٹر نہیں بنایا جارہا ہے۔ تھل ڈویژن میں ایک لڑی میں جڑے اضلاع جن میں میانوالی بھکر، لیہ اور دیگر اضلاع کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ تھل کے اضلاع ایک دوسرے ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاول پور جڑے ہوئے ہیں۔ تھل کے عوام بھی اسی طرح ائرپورٹ کے متمنی ہیں جیسے کہ ملتان، بہاول پور اور ڈیر ہ غازی خان کے عوام کو ائرپورٹس کی سہولت دی گئی ہے۔

ادھر ملتان اور لاہور کے رابطے کے لیے جس طرح لاہور کے حکمرانوں نے لاہور، ملتان موٹروے، فیصل آباد ملتان موٹروے بنائی ہے، اسی کی طرح تھل کے سینے پر بلکسر، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، لیہ سے رحیم یارخان تک موٹروے بنائی جائے۔ اس موٹروے کا فائدہ تھل کے عوام کے علاوہ پورے پاکستان کو ہوگا۔ چشمہ سے چاروں صوبوں کو لنک کرے گا، جب کہ کراچی کا سفر بھی کم ہوجائے گا۔ اصل میں تھل کی ترقی کا پاکستان کی ترقی ہے۔ تھل کے عوام کو بھی نشتر میڈٰیکل کالج ملتان، قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور، غازی میڈیکل کالج ڈیرہ غازی خان، ذکریا یونی ورسٹی ملتان، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور بھی اپنے چھہ اضلاع میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کی خواہش ہے کہ تھل کے عوام کے لیے ہائی کورٹ کا بنچ قائم کیا جائے۔ ان کو بھی احساس ہو کہ وہ بھی حق رکھتے ہیں، ان کو سہولتیں گھر کی دہلیز پر ملیں۔ تھل کے عوام غلام نہیں ہیں کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ملتان کے سیاست دان کریں۔ دھیان رہے کہ ملتان کے سیاست دانوں کی وکالت میں تھل کے عوام کے استحصال کی اجاز ت نہیں دی جائے گی۔ راقم الحروف واضع کرنا چاہتا ہے کہ سرائیکی، سرائیکی کے نعرے میں تھل کے حقوق کا رخ ملتان ضلع کی طرف کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).