لڑکیاں شادی سے پہلے اپنا فون نمبر کیوں بدل لیتی ہیں؟


فیس بک میں موجود میسج ریکویسٹ کا آپشن بھی اپنے اندر بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہاں زندگی بھر بھولے سے بھی نہیں جھانکتے اور بعض لوگ ان باکس سے زیادہ دلچسپی میسج ریکویسٹ میں رکھتے ہیں۔ میرا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ میں باقاعدگی سے خود کو موصول ہونے والی میسج ریکویسٹ چیک کرتی رہتی ہوں۔ وہاں کافی مزے مزے کے پیغامات موصول ہوتے ہیں لیکن کل ایک عجیب و غریب پیغام موصول ہوا جس نے مجھے یہ آرٹیکل لکھنے پر مجبور کیا۔

یہ پیغام میری ایک پرانی کلاس فیلو کی طرف سے تھا۔ موصوفہ میری فیس بک پر سہیلی ہیں لیکن یہ پیغام ان کی نئی آئی ڈی سے تھا۔ پیغام میں لکھا تھا کہ ان کی شادی ہونے والی ہے اور اب وہ یہی آئی ڈی استعمال کریں گی تو میں ان کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کر لوں۔ آئی ڈی کھولی تو ڈسپلے پکچر میں ایک کوٹیشن نظر آرہی تھی جس کا اردو ترجمہ یہ ہے آپ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (محترمہ کو دوسروں کی سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر بھی آئی ڈی تبدیل کرنے کا تکلف کیا۔ اس کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آتی۔) ٹائم لائن دیکھی تو میاں بیوی کے اچھے تعلقات سے متعلقہ پوسٹ، خانہ کعبہ کی تصویر اور مختلف احادیث و آیات شئیر کی ہوئیں تھیں۔

اپنی دوست کی یہ نئی فیس بک آئی ڈی دیکھ کر مجھے اپنا ’’ہم سب‘‘ کے لیے ہی لکھا ہوا ایک آرٹیکل یاد آگیا۔ اس آرٹیکل کا عنوان تھا ایک اچھی لڑکی کیسے بنا جائے۔ اس میں ایک اچھی لڑکی بننے کا یہی فارمولا لکھا تھا۔ میری دوست کو ایسی آئی ڈی بنانے کی تحریک میرے اس آرٹیکل سے ملی یا کہیں اور سے، اس کا تو مجھے کوئی علم نہیں لیکن ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے معاشرے کو ایسی ہی لڑکیاں (خصوصاً بہو) پسند ہیں۔ لڑکیاں بھی اپنے آپ کو شادی کے قریب خود بخود ہی اسی اچھی لڑکی کے سانچے میں ڈھال لیتی ہیں گویا وہ بھی اس سب پر رضامند ہیں۔

ایسی لڑکیوں کی شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی ان کے موبائل میں کوئی عجیب سا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک ہو جاتے ہیں اور پھر “مجبوراً” نئے بنانے پڑتے ہیں۔  کچھ سال پہلے جب سوشل میڈیا اتنا عام نہیں تھا تو لڑکیاں صرف اپنا موبائل نمبر تبدیل کیا کرتی تھیں۔ اچانک ہی کسی دن انجان نمبر سے ایک پیغام آتا تھا جس میں لکھا ہوتا تھا کہ وہ فلاں فلاں محترمہ ہیں۔ اب ان کی شادی ہونے والی ہے تو ان کی سم یا موبائل میں کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جس کا علاج صرف نئی موبائل سم ہی ہے۔ سوشل میڈیا کے بعد یہ مسائل اور بڑھ گئے ہیں۔ فون نمبر بدلنے کے ساتھ ساتھ سارے اکاؤنٹس ڈی ایکٹی ویٹ کرنے پڑتے ہیں۔ نیا ای میل ایڈریس بنانا پڑتا ہے جس کے بعد نئے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنتے ہیں۔ اور یہاں سے بابا کی شہزادی، گھر کی لاڈلی نامی پروفائلز کا سوشل میڈیا پر آغاز ہوتا ہے۔

ان پروفائلز کی ڈی پی میں کسی بچے یا پھول کی تصویر، ٹائم لائن پر مکہ و مدینہ کی تصاویر کے علاوہ اسلامی پیجز کی پوسٹس بھی شئیر کی جاتی ہیں تاکہ دوسروں پر ان کا نیک پروین کا تاثر پڑے۔ اس بات کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے کہ پروفائل میں کسی مرد کو نہ ایڈ کیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب سسرالی رشتے دار یا ان کے ہونے والے مجازی خدا ان کی پروفائل دیکھتے ہیں تو فوراً سے اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ انہیں عنایت کر دیتے ہیں۔

ان لڑکیوں کا جیسے ہی نکاح ہوتا ہے اور انہیں ان کے شوہر کے ساتھ لا کر بیٹھایا جاتا ہے تو یہ ڈر کے مارے چیخیں مارنے لگتی ہیں۔ ان کے گھر والے انہیں رام کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جس مخلوق کو دیکھ کر یہ ڈر گئیں ہیں اسے مرد کہتے ہیں اور یہ بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر میاں صاحب اور سسرال والوں کی چھاتی اور پھول جاتی ہے کہ ان کے گھر آنے والی بہو بالکل ’تازہ مال‘ ہے۔

ہماری لڑکیاں دو زندگیاں جیتی ہیں۔ ایک شادی سے پہلے اور دوسری شادی کے بعد۔ شادی سے پہلے ماں باپ ان پر پڑھائی کا زور ڈالے رکھتے ہیں۔ کچھ بن کر دکھانے کی فرمائش کرتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں اپنی بیٹی کے لیے ایک اچھا رشتہ ملتا ہے وہ اسے ہر چیز سے روک دیتے ہیں اور اسے ایک نئی پہچان بنانے کو کہتے ہیں۔ ایک ایسی پہچان جو اسے بے وقوف، بھولی بھالی اور ہر قسم کے حالات میں خود کو ڈھل جانے والی بناتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی کوششوں کے باوجود ہماری خواتین کا مقام آج بھی اس معاشرے میں اتنا ہی گرا ہوا ہے جتنا کہ نصف صدی پہلے یا اس سے بھی پہلے۔

ہم اکیسویں صدی میں سانس ضرور لے رہے ہیں مگر ہماری سوچ آج بھی پتھر کے زمانے میں ہی اٹکی ہوئی ہے یا شاید وہ لوگ بھی ہم سے بہتر تھے۔ ہم منافق ہیں۔ خود جھوٹ بولتے ہیں اور دوسروں سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ ہم سے جھوٹ بولیں۔ آج جب ہماری خواتین پہلے کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں ہم انہیں بھی وہی سب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کی خواتین کو کرنا پڑتا تھا۔ ہم آج کی پڑھی لکھی لڑکیوں سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ اسی نیک پروین کے سانچے میں خود کو فِٹ کریں جو آج سے صدیوں پہلے بنایا گیا تھا۔ آج کی لڑکیاں باشعور ہیں، خود مختار ہیں، پر اعتماد ہیں اور ان کا بھی ایک سوشل سرکل ہے لیکن ہمارے نزدیک وہ اچھی لڑکیاں نہیں ہیں۔ وجہ؟ وجہ بس یہی ہے کہ ہمیں با اختیار لڑکیاں نہیں پسند۔ ہمیں تو وہی لڑکیاں پسند ہیں جن کی سوشل میڈیا پروفائل پر پھول کی تصویر ڈسپلے پکچر کے طور پر لگی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).