لگتا ہے، آپ نے کسی کو ٹینس کھیلتے نہیں دیکھا


گزشتہ برس ہم نے کیو موبائل کے اشتہار میں ایک بچی دیکھی جو کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی۔ ایڈ بہت اچھا تھا اور پسند کیا گیا۔ بدقسمتی سے لاکھوں ناظرین کی طرح ہمیں بھی وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیط “شرع” کرتے۔ یہ سعادت تو قبلہ اوریا مقبول جان اور ان کے چپڑ قنات حواریوں کے نصیب میں لکھی تھی۔ جنہوں نے پانچ منٹ کے اس خوبصورت اشتہار میں 16 سیکنڈ کے اس ٹکڑے پر توجہ مرکوز کی جو کسی فانی انسان کے احاطہ خیال میں نہیں سما سکتا تھا۔ اس اشتہار کا یک سطری پیغام تھا، “اپنی بیٹیوں پر فخر کیجئے”۔ اوریا مقبول اور ان کے ہم نواؤں نے اعلان کیا، “چھاتیوں پر غور کیجئے”۔

قبلہ اوریا اور ان کے حواریوں نے کرکٹ کھینے اور وکٹیں اڑانے والی ہونہار لڑکی کی صرف چھاتی پر فوکس کیا۔ کرکٹ کھیلنے والی لڑکی گیند اور بلے سے مقابلہ کرنے میدان میں اترتی ہے۔ اس کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی چھاتیاں اتار کر گھر رکھ آئے، یہ ممکن نہیں ہوتا۔ سوال تو آپ سے کرنا چاہیے کہ آپ کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں یا چھاتیاں دیکھنے بیٹھے ہیں۔

اسی طرح ہم ثانیہ مرزا کی ٹینس کھیلتے ہوئے تصویر کا قصہ اٹھا بیٹھے ہے۔ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا، سنا ہے “ان کو بہت ناگوار گزری ہے”۔ واقعی قصور اس صحافی کا ہے کہ “کیوں محو مدح خوبی تیغ ادا نہ تھا”۔ کم بخت صحافی نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ ثانیہ مرزا کی بنیادی پہچان ٹینس کھیلنا ہے۔ اور یہ کہ ثانیہ مرزا نے اپنے والد کی بھرپور حوصلہ افزائی کی بدولت ٹینس کھیلنا شروع کی تھی۔ وہ سترہ برس کی عمر سے بین الاقوامی پیشہ ورانہ ٹینس کھیل رہی ہیں۔ بھارت کی ایک ارب 25 کروڑ کی آبادی میں وہ واحد خاتون ہیں جنہوں نے 13 اپریل 2015 کو عورتوں کی پیشہ ورانہ ٹینس میں دنیا کی نمبر ایک کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آج کل ثانیہ مرزا کا رینک 9 ہے۔ انہیں بھارت کا نام روشن کرنے پر اپنی سرکار کی طرف سے پدم شری کا اعزاز مل چکا ہے۔

ثانیہ مرزا مسلمان ہیں۔ کیا انہیں مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ سوال اس لئے پوچھا کہ پاکستان بھر کے اخبارات میں ہر روز آن لائں ہزاروں گوگل اشتہارات ایسے چھپتے ہیں جن میں مفروضہ “مغربی خواتین”  کے اثاثہ جات کسی کھیل کود یا معمول کی کسی دوسری سرگرمی کے دوران اتفاقاً نظر آنے پر نہیں، بلکہ خاص آپ کے تفنن نظر کے لئے دکھائے جاتے ہیں۔ ان اشتہارات کے انتخاب میں متعلقہ صحافتی اداروں کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کبھی آپ نے غور فرمایا کہ ان اشتہارات میں خاص طور پر اردو عبارت کیوں دی جاتی ہے۔ صاحب یورپ میں بیٹھ کر اشتہار دینے والا بھی جانتا ہے کہ “جو صاحب نظر ہیں، وہ اردو زبان پڑھتے ہیں”۔ الہ آباد میں مردہ اسی طرح زندہ ہوتا ہے۔

مجھ سے ان باکس میں پوچھیں یا ٹیگ کر کے پوچھیں، میرا جواب یہی رہے گا کہ ثانیہ مرزا ٹینس  کھیلتی ہیں۔ ٹینس اسی انداز میں اور اسی طرح کے لباس میں کھیلی جاتی ہے۔ آپ کا اعتراض دراصل یہ ہے کہ آٹا گوندنے والی ہلتی کیوں ہے۔

کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہو گا

میں جانتی ہوں کہ ثانیہ مرزا شعیب ملک کی بیوی ہے، وہ ماڈلنگ بھی کرتی ہے لیکن ذاتی طور پہ تھوڑا سا عجیب لگتا کہ اس کی سالگرہ پر اس کی شعیب ملک کے ساتھ کوئی ایسی تصویر دی جاتی جس میں سابق وزیر (اور حال رہنما تحریک انصاف) فردوس عاشق اعوان  اسے زیورات کے تحائف دے رہی ہوتیں۔ 2010 میں جب یہ معرکہ آرا شادی ہوئی تو ثانیہ مرزا ٹینس ہی کھیلتی تھیں۔ اور ایسے ہی لباس میں کھیلتی تھیں۔ شعیب ملک نے جامعہ ملیہ، نئی دہلی کا سوئمبر جیت کر تو ان کا ہاتھ نہیں تھاما تھا۔ تب آپ کے حلق میں تھوک نہیں اترتی تھی۔ ایسے ہی پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر پاکستان کی کسی لڑکی نے ہندوستان کے کسی کھلاڑی سے شادی کی ہوتی تو کیا آپ کی مسرت کا یہی عالم ہوتا۔۔۔۔ صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ شادی کو ایک سزا سمجھتے ہیں جو لڑکی کو دی جاتی ہے۔ آپ عورت ہونے کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ نے نامعلوم کس خوشی میں شعیب ملک پر اپنا حق شفع قائم کر لیا ہے اور اب اس کی بیوی پر اسی طرح حکم چلانا چاہتے ہیں جیسے آپ کی پنچایت اںصاف بانٹتی ہے۔

ثانیہ مرزا کی ٹینس کھلتے ہوئے تصویر دی جائے یا ریمپ واک کی کوئی پکچر، میرے لیے ثانیہ مرزا سب سے پہلے ایک ٹینس پلیئر ہے۔ کبھی دیکھیے گا کہ ٹینس کیسے کھیلی جاتی ہے اور پھر کہیے گا کہ تصویر نازیبا ہے۔ شاید آپ کو اس لمحے احساس ہو جائے گا آپ ثانیہ مرزا کی تصویر اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں،  جو اوریا مقبول جان اور اس کے ساتھیوں نے اس اشتہار پر ڈالی تھی جس کا پیغام تھا۔ بیٹیوں پر فخر کیجئے۔ آئیے وہ اشتہار ایک بار پھر سے دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).