جماعت اسلامی، جنرل ضیاالحق اور اسلامی نظام کی ناکامی


حالیہ سیاسی اور جمہوری بحران نے ایک دفعہ پھر سے قومی نصب العین کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔ ایک طرف قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہے، دوسری طرف امریکا اور مغرب کے بارے میں اندرون ملک ایک مخاصمانہ یعنی دشمنی پر مبنی بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔ مغرب دشمنی دہشت گردوں کا خاص ہتھیار ہے۔ کوئی ریاست مغرب دشمنی کو فروغ دے کر دہشت گردی کا یکسوئی سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔

دوسری طرف ملک میں جمہوری بندوبست کی آزمائش جاری ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ملک میں کچھ طاقتور عناصر آئین کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی کے مخالف ہیں۔ یہ عناصر جمہوریت کی کمزوریاں گنوا کر ایک طرف ٹیکنوکریٹ یعنی غیر منتخب نظام قائم کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف ان مسائل کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جو دراصل غیر جمہوری ادوار ہی کا نتیجہ ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ دہشت گرد بھلے وزیرستان کی غاروں میں موجود ہوں یا بلوچستان کے پہاڑوں پر، جمہوریت کے مخالف ہیں۔ جمہوریت کا بحران پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس دوران میں فرقہ وارانہ منافرت کے بل پر سیاسی اقتدار کی خواہشمند قوتیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ یہ لوگ جمہوریت کے اصول و ضوابط سے فائدہ اٹھا کر جمہوری ثقافت تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت اختلاف رائے کے ساتھ شہریوں کی مساوات تحفظ اور ترقی کو یقینی بنانے کا نام ہے۔ یہ لوگ اپنی عددی طاقت، اسلحے کی دھمکی اور عقاید کی تقدیس کے نام اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔

قومی بحران کی ان پھیلی ہوئی سمتوں کو فکری طور پر روشن خیال اور قدامت پسند ذہن کی کشمکش میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آدھی آبادی ان پڑھ ہے اور خواندہ آبادی کا ایک بڑا طبقہ اس مفروضے پر مضبوطی سے قائم ہے کہ سیاست، معیشت اور معاشرت کو مذہبی اصولوں کے تابع ہونا چاہئیے۔ ان حلقوں نے علم، معیشت اور سیاسی بندوبست کا ایک مفروضہ گھڑ رکھا ہے جسے وہ اسلامی نظام قرار دیتے ہیں۔

اسلامی نظام کا یہ خواب پاکستان کے ستر برس میں ہمارے ساتھ ساتھ چلا ہے۔ یہ خواب پورا ہونے کا پہلا اعلان چودہ اگست 1947 کو کیا گیا۔ پھر اعلان ہوا کہ قائد اعظم اور ان کے ساتھی پوری طرح اسلامی نہیں ہیں۔ پھر 1949 کی قرارداد مقاصد کے بعد اعلان کیا گیا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک بن چکا ہے۔ لیکن پھر 1952 میں مذہبی رہنما دستور پر غور کرنے بیٹھے تو معلوم ہوا کہ بائیس نکات ابھی باقی ہیں جو ان کے خیال میں اسلامی نظام کے لیے ضروری تھے۔ 1973 میں پاکستان کا آئین مرتب کرنے میں مذہبی اور روشن خیال گرہوں نے مل کر حصہ لیا۔ آئین منظور ہونے کے بعد اعلان کیا گیا کہ یہ آئین مکمل طور پر اسلامی ہے۔ 1977 میں یہ اسلامی آئین اٹھا کے کھڑکی سےباہر پھینکا گیا تو آئین کے اسلامی ہونے کا دعوی کرنے والوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی بلکہ آمریت کے ساتھ مل کر اسلامی نظام لانے کا دعوی کرتے رہے۔

ممتاز صحافی ضیا شاہد کی کتاب ” باتیں سیاست دانوں کی” حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اسلامی نظام کے دعووں کے بارے میں ضیا شاہد نے بہت دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیے جس سے ان مخلص دوستوں کی کچھ رہنمائی ممکن ہے جو سمجھتے ہیں کہ جدید ریاست کو کسی مذہبی نظام میں ڈھالا جا سکتا ہے۔

٭٭٭   ٭٭٭

(1978 میں) قومی اتحاد کے وزرا حکومت میں شامل تھے۔ مجھے صدر ضیاالحق کے ساتھ کھانے کی ایک مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ۔۔۔ جب ہم کھانے کے لیے پنڈی میں آرمی ہاؤس پہنچے تو مجلس گرم تھی۔ ضیا الحق نے اخلاقا میری خیریت دریافت کی اور اس کے بعد اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ میرے علاوہ صدر کے وزیر دفاع میر علی احمد تالپور شاید واحد سویلین تھے جو کھانے میں شامل ہوئے۔

ضیا الحق پوری فارم میں تھے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بعض وزرا کے لطیفے بیان کیے۔ پھر گفتگو کا رخ جماعت اسلامی کی طرف مڑ گیا۔ یاد رہے کہ جماعت کے تین وزیر اور ڈپٹی چئیرمیں منصوبہ بندی کمیشن کے طور پر پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے۔ ضیاالحق نے کہا میں مودودی صاحب کی تصانیف پڑھ چکا ہوں اور ان سے متاثر بھی تھا لیکن مجھے بھی حیرت ہوئی جب میں نے بار بار جماعت کے وزرا اور پروفیسر صاحب سے کہا کہ اسلامی نظام لانے کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں، مجھ سے ڈسکس کریں تو وہ ہر بار یہ کہتے کہ ہمیں کچھ وقت دیں ہم نے پورے نظام کا خاکہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

پھر ضیاالحق ہنسے اور بولے عجیب بات ہے کہ اسلام کا نظام حکومت کیا ہونا چاہئیے، اس کا کوئی بلیو پرنٹ ان کے پاس موجود ہی نہیں۔ میں شکل سے ان فوجیوں کے نام نہیں جانتا تھا جو گفتگو میں شریک ہوئے لیکن کچھ لوگ جماعت کے خلاف بھی تھے اور ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔

ضیاالحق صاحب نے واقعہ سنایا کہ میں نے ایک پریس کانفرنس بلائی (میں بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھا) جس میں یہ اعلان کر دیا کہ آج سے کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو گا۔ اگلے دن ملک بھر کے عدالتی نظام میں شور مچ گیا۔ قتل کے مقدمات میں چند وکلا نے ملزموں کی سزائیں چیلینج کر دیں کہ برٹش لا جو ہمیں ورثے میں ملا قرآن و سنت کے خلاف ہے لہذا عمر قید ہو یا سزائے موت، اس قانون کے تحت قبول نہیں۔ کیوں کہ چیف مارشل لا ایڈمینسٹریٹر کے اعلان کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔

بنکوں والوں نے شور مچایا کہ ان سے قرضے لینے والوں نے فوراً درخواستیں دے دی ہیں کہ اسلام میں سود نہیں ہے لہذا ہم واجب الادا اصل رقم تو دیں گے اس پر اضافہ شدہ سود ہرگز ادا نہیں کریں گے۔ شور اس قدر زیادہ تھا کہ سارا سسٹم رک گیا تھا۔ مجبورا مجھے قانونی ماہرین کے مشورے کے مطابق اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ کیونکہ جماعتی وزرا اور پروفیسر خورشید احمد سے بار بار رابطے کے باوجود مجھے کسی بھی مروجہ قانون کا کوئی متبادل اسلامی حل نہ ملا۔ ضیاالحق کے اس انکشاف پر بحث شروع ہوئی تو مجلس میں شامل ایک فوجی افسر نے جن کا میں نام نہیں جانتا تھا یہ کہا کہ جماعتی وزیروں سے جب پوچھو شروع میں وہ یہی جواب دیتے تھے کہ ہمارے سب سے بڑے محقق پروفیسر خورشید احمد صاحب ہیں۔ انہوں نے برسوں تحقیق کی ہے اور وہ جلد ہی پورا سسٹم آپ کو بنا دیں گے۔ پھر اس نے کہا جناب! ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ ہر وزارت میں سوائے اس کے کہ فلاں ملازم بائیں بازو کا ہے اسے نکالیں اور اس کی جگہ دائیں بازو بلکہ جماعت اسلامی کا تجویز کردہ بندہ رکھیں، اور ان سے کچھ نہیں نکلے گا۔

آج سے پہلے میں نے کبھی جماعت اسلامی سے ضیاالحق کی مایوسی بارے کچھ نہیں لکھا تاہم بعد ازاں بھی مجھے بہت دفعہ یہ معلوم ہوا کہ اپنے پہلے تاثر کے برعکس وہ جماعتی دوستوں سے کافی نالاں تھے۔

22 اکتوبر، 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).